برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے خطرناک مصیبت مول لے لی ہے۔ وہ کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 31 اکتوبر تک برطانیہ یورپی یونین سے اپنا تعلق توڑ لے۔ انہوں اپنے اس فیصلے کا اعلان کر دیا تھا‘ لیکن جب دیکھا کہ برٹش پارلیمنٹ میں زیادہ تر ممبر اس فیصلے سے کم و بیش متفق نہیں اور ان پر ہر جگہ تنقید ہو رہی ہے تو انہوں نے پارلیمنٹ کا اجلاس 10 ستمبر سے 14 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس پر ایک بھارتی نژاد مشہور خاتون گنا ملر نے برطانیہ کی سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ اب برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت کے گیارہ ججوں نے رضا مندی سے وزیر اعظم کے مندرجہ بالا فیصلے کو رد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جانسن نے ملکہ الزبتھ کو گمراہ کر کے ایوان کا اجلاس ملتوی کروایا‘ ایسا کیا جانا غیر قانونی ہے۔ یورپی یونین سے برطانیہ باہر نکلے یا نہ نکلے‘ اس ضروری مدعے پر خود مختار ایوان کو ایک طرف ہٹا کر وزیر اعظم خود کچھ بھی فیصلہ کر لیں‘ یہ جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ برطانیہ کے بنا لکھے گئے آئین میں ایوان کو خود مختار کہا گیا ہے‘ یعنی اس سے اونچا کچھ نہیں ہے ‘ مگر وہاں کے وزیر اعظم نے اپنے آپ کو ایوان سے بھی اونچا بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلے کی اہمیت تاریخی ہے‘ یعنی اب ملکہ اور وزیر اعظم کے بیچ ہونے والے سلوک پر بھی عدالت نظر رکھ سکتی ہے۔ ویسے برطانیہ کے بنا لکھے والے آئین کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ یا ملکہ نام کے ہی ملک کے سربراہ ہوتے ہیں‘ انہیں ایوان اور وزیر اعظم کے دیے ہوئے کاغذات پر آنکھ موند کر دستخط کرنے ہوتے ہیں‘ لیکن اس فیصلے سے اب سرکار کے فیصلے اور پارلیمنٹ کے فیصلے میں فرق کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس فیصلے کا فوری اثر یہ ہو گا کہ اب 31 اکتوبر کو برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنا مشکل ہو جائے گا اور اب بورس جانسن کا وزیر اعظم بنے رہنا بھی مشکل ہو گا۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے ان کے استعفے کی رٹ لگا دی ہے۔ جانسن اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے نیو یارک گئے تھے‘ لیکن انہیں الٹے پائوں واپس لوٹنا پڑا۔ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو وہ برطانیہ کے سب سے کم وقت والے وزیر اعظم مانے جائیں گے۔ یورپی یونین سے برطانیہ باہر نکلے یا نہ نکلے‘ اس مدعے پر تین برطانوی وزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون ‘ تھریسا مے اور بورس جانسن کا ہٹ جانا اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ کسی اور مدعے پر تین تین برطانوی وزیر اعظم ڈھیر ہو گئے ہوں‘ مجھے یاد نہیں پڑتا۔
کیا کیا ادائیں ہیں ٹرمپ کی
ہیوسٹن میں نریندر مودی اور ٹرمپ کے مشترکہ جلسے نے جو جلوہ پیدا کیا‘ اس سے ان دونوں لیڈروں کے اندرونی اور بیرونی مخالفین سبھی حیران ہیں۔ دونوں لیڈر پرچار کے فن میں ماہر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے گرو چیلا‘ چیلا گرو ہیں‘ لیکن عالمی سیاست کا طالب علم ہونے کے ناتے میں کل تک جس غائب حقیقت کو سمجھ رہا تھا اور جس کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ اب وہی ہونے جا رہا ہے۔ دو ملکوں کے لیڈر باہمی کیسا بھی سلوک کریں‘ لیکن ان دونوں ملکوں کے تعلقات کا فیصلہ ان کے ملکی مفاد ہی کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے ہیوسٹن میں مودی اور بھارت کے لیے تعریفوں کے پل باندھ دیے‘ لیکن یہی کچھ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ نہیں کیا؟ جب جناب عمران خان ان سے نیو یارک میں ملے تو ان کی ہر ادا ایسی تھی‘ جیسا کہ وہ بھارت اور پاکستان میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ جو لوگ ہیوسٹن کی نوٹنکی دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے‘ وہ ٹرمپ کی اس ادا سے پنکچر ہو گئے۔ ٹرمپ نے مودی اور عمران‘ دونوں کو عظیم بتا کر پاکستان اور بھارت کے بیچ ثالثی کا کردار ادا کرنے کا راگ دوبارہ الاپ دیا ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ انہوں نے ہیوسٹن میں مودی کے بھاشن کو کافی جارحانہ بتا دیا تھا۔ یہ تو انہوں نے صحافیوں کو بتایا‘ لیکن صحافیوں کو جو پتا نہیں ہے‘ انہوں نے کیا کیا الٹا سیدھا گھمایا‘ جبکہ ہیوسٹن میں مودی نے پاکستان کے خلاف کسی حملہ آور جیسا لفظ استعمال تو کیا ہی نہیں۔ گھما پھرا کر اس کا نام لیے بغیر اس کی کچھ تیز باتوں کا اور اس کی مشکلات کا ذکر کیا‘ جبکہ خود ٹرمپ نے اسلامک ٹیرر ازم کا لفظ استعمال کیا‘ یعنی تالیاں بجوانے کی خاطر ٹرمپ کچھ بھی بول سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس رخ کی صاف صاف مخالفت جناب عمران خان نے کونسل آن فارن ریلیشنز‘ نیویارک کے اپنے بھاشن میں کر دی۔ جناب عمران خان کو ٹرمپ کا رویہ اتنا عجیب لگا کہ انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ٹرمپ کو پتا نہیں ہے کہ اسلام صرف ایک طرح کا ہے‘ وہ نرم یا گرم نہیں ہے۔ جب ٹرمپ اور عمران خان صاحب اقوام متحدہ میں صحافیوں کے ساتھ کھڑے تھے تو ٹرمپ اپنی ہی ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ بیچارے عمران خان صاحب چپ چاپ کھڑے رہے۔ ٹرمپ نے اس وقت کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ دہشت گردی کے حساب سے کیا پاکستان سب سے خطرناک ملک نہیں ہے تو انہوں نے جھٹ سے ایران کا نام لے لیا۔ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھارت امریکہ تجارت کے الجھے ہوئے سوالات پر کیا رویہ اپناتے ہیں۔ ٹرمپ بار بار امریکہ کے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہونے کا اعلان کرتے رہے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ سارے جنوبی ایشیا کو یونین کے ایک دھاگے میں باندھنے کا عزم نہیں کرتے؟ وہ صرف امریکہ کے مفادات کی جانب ہی راغب کیوں ہیں؟
اب مقبوضہ کشمیر کا حال کیا ہے؟
یو این میں مودی اور عمران خان کے بعد مقبوضہ کشمیر کا حال کیا ہے؟ جناب عمران خان کے بھاشن کا اثر چاہے چین اور ترکی کے علاوہ کسی بھی ملک پر نہ پڑا ہو‘ لیکن ساٹھ روز سے نظر بند کشمیریوں میں اب کچھ نہ کچھ ہلچل مچی ہے۔ جگہ جگہ لوگوں نے مظاہرے بھی کیے ہیں‘ ہتھ گولے بھی پھینکے ہیں اور لوگوں نے اپنا غصہ بھی دکھایا ہے۔ کچھ لوگ مارے بھی گئے ہیں۔ کئی علاقوں میں کرفیو دوبارہ لگا دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی تعداد بڑھانے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ سکول کالج کھلے ہیں‘ لیکن ان میں کوئی دکھائی نہیں پڑتا۔ دکانیں بھی بمشکل ایک دو گھنٹے کھل پا رہی ہیں۔ سڑکوں پر آمد و رفت لگ بھگ بند ہے۔ یہ سب کچھ مجھے ملک کے مخصوص اخبارات سے پتا چلا ہے‘ کیونکہ موبائل فون اور انٹر نیٹ تو بند پڑے ہیں اور مقبوضہ کشمیر تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ اخبارات نے مقبوضہ کشمیر کی ان خبروں کو اپنے فرنٹ پیج میں شائع کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے دنگل کے بعد مقبوضہ کشمیر کی گھٹن کچھ کم ہو گی‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ پابندیوں کا یہ دور شاید لمبا چلے گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دسمبر تک کھنچ جائے۔ جہاں تک مجھے خبر ہے‘ بھارت سرکار کے ارادے بالکل نیک نہیں ہیں۔ لیکن تسلی کی بات یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کھلے طور پر اعلان کیا ہے کہ ان کی سرکار اگلے کچھ دنوں میں ہی ستر ہزار نوکریاں دینے والی ہے۔ یہ کام اگلے تین ماہ میں پورا ہو جائے گا۔ ہر گائوں میں سے کم از کم پانچ کو نوکری ملے گی۔ سرکاری کمپنی 'نافیڈ‘ نے پہلی بار آٹھ ہزار کروڑ روپے کے سیب خریدے ہیں اور گیارہ سو ٹرک روز کشمیر سے باہر لے جائے جا رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں پچپن دن میں ستر ہزار آپریشن اور ایک لاکھ لوگوں کا علاج کیا گیا ہے۔ بچے اگر سکول میں نہیں آ رہے ہیں تو انہیں پین ڈرائیو کے ذریعے پڑھانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں صنعت کاری کو بڑھانے کے لیے کچھ نئی پہلیں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ سب کام تو ٹھیک ہیں لیکن میں سوچتا ہوں کہ کشمیری لیڈروں اور عوام سے بھی کھلی بحث کی کھڑکیاں کھولنا اب ضروری ہے۔ اگر اس پہل کو کامیابی ملے گی تو پاک بھارت تعلقات بہتر بننے کے حالات اپنے آپ تیار ہو جائیں گے۔