یوں تو مقبوضہ کشمیر کے رہنما مسلسل مودی حکومت کے زیرِ عتاب ہیں لیکن اب چند روز قبل جموں و کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر ایک اور قانون تھوپا گیا ہے۔ چھ ماہ تو وہ پہلے نظر بندی میں کاٹ ہی چکے ہیں اور اب دو برس تک وہ حراست میں رکھے جا سکتے ہیں۔ نہ ان کی ضمانت ہو گی اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیس کیے جائیں گے۔ یہ عدالت کی پناہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ ایسا انہوں نے کیا سخت جرم کیا ہے کہ ان پر یہ قانون تھوپ دیا گیا ہے؟ یہ قانون ان پر تھوپا گیا ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے ایوان میں دیے گئے بھاشن کے بعد! اس بھاشن میں مودی نے عمر عبداللہ کے ایک بیان کا حوالہ دیا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے بہت ہی خوفناک زلزلہ آئے گا اور وہ بھارت سے کشمیر کو الگ کر دے گا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ مثال عمر عبداللہ کی نہیں بلکہ ایک ویب سائٹ کی ہے‘ جس کا نام ہی فیک نیوز ہے۔ اپوزیشن نے مودی کی اس حرکت کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور کہا کہ اگر اسی بنیاد پر عمر اور محبوبہ کو پھر سے اندر کیا گیا ہے تو یہ بہت ہی غلط ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھاشن تیار کرنے میں جو افسر مدد کرتے ہیں‘ انہیں کافی خبردار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ان کی چھوٹی سی لاپروائی وزیر اعظم کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ عمر اور محبوبہ مفتی‘ دونوں ہی کانگریس اور بھاجپا کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کام کرتے رہے ہیں۔ محبوبہ کو تو بھاجپا نے اپنی اتحادی سرکار میں وزیر اعلیٰ مان رکھا تھا اور عمر کی جانب اٹل جی کے گہرے جذبات تھے۔ اٹل جی فاروق عبداللہ کی وطن پرستی کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر بھاجپائی لیڈر ان پر پابندی نہیں لگاتے تو کشمیر میں اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا‘ لیکن اب جبکہ آہستہ آہستہ سبھی علاقوں میں حالات ٹھیک ہو رہے ہیں تو ان خاص کشمیری لیڈروں کے ساتھ اتنی سختی کیوں کی گئی؟ جب مودی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کشمیری عوام بھارت سے ملنے میں خوش ہے اور نئے انتظام انہیں بہت فائدے پہنچا رہے ہیں تو پھر ڈر کس بات کا ہے؟ نیشنل کانفرنس پی ڈی ایف کے لیڈروں نے تو بہت برے حالات میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ ضروری ہے کہ ان کے زخموں پر اب اور نمک نہ چھڑکا جائے۔ یہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ سرکار کو چاہیے کہ کچھ غیر سرکاری اور کچھ غیر بھاجپائی لیڈروں‘ دانشوروں اور مفکر صحافیوں کو کشمیری لیڈروں کے پاس بھیج کر ان سے مثبت گفتگو کی جائے۔ کشمیری عوام اب تک بہت نقصان اور پریشانی برداشت کر چکی ہے انہیں فوراً راحت ملنی چاہیے۔
ذات پات کا خاتمہ کیسے ہو؟
ذات برادری سے باہر شادی کرنے کے لیے بھارتی سرکار ڈھائی لاکھ روپے کی مالی امداد دیتی ہے یعنی یہ پیسہ ان کو ملتا ہے جو شیڈیول کاسٹ یا نچلے طبقہ کے دولہے یا دلہن سے شادی کرتے ہیں‘ لیکن خود ہوتے ہیں اعلیٰ ذات کے یعنی برہمن‘ کھشتری اور ویش۔ اس امداد کے باوجود ملک بھر میں ہر برس ایسی پانچ سو شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔ سوا ارب آبادی کے ملک کی اس صورتحال کو 'اونٹ کے منہ میں زیرہ‘ نہیں تو کیا کہیں گے؟ اس کا ایک سبب سرکار نے کھوج نکالا ہے۔ وہ یہ ہے کہ امداد انہی جوڑوں کو ملتی ہے‘ جو اپنی رجسٹریشن 'ہندو میرج ایکٹ‘ کے تحت کرواتے ہیں۔ آریہ سماج وغیرہ میں ہوئی شادیوں کو ایسی امداد دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اب انہیں منظور کر لیا جائے گا۔ یہ اچھا ہے‘ لائق تعریف ہے لیکن اس سے کون سا قلع فتح ہونے والا ہے۔ کیا ملک کے آریہ سماجوں میں ہر برس ہزاروں لاکھوں شادیاں ہوتی ہیں؟ ملک کے اس ذات پات کے فرق والے نظریے میں بدلائو تبھی ہو گا جب ہر برس لاکھوں شادیاں شیڈیول کاسٹ والوں سے ہوں‘ لیکن اس معاملے میں ہمارے لیڈر لوگ ٹھن ٹھن گوپال ہیں‘ زیرو ہیں‘ بالکل نکمے ہیں۔ جو انہیں کرنا چاہیے وہ ایسا کبھی نہیں کرتے۔ سب سے پہلے نوکریوں سے ریزرویشن ختم کرنی چاہیے۔ دوسرا‘ ذات کی بنیاد پر امیدوار طے نہیں کرنا چاہیے۔ نام کے پیچھے ذات لگانے والے کو چناوی ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے۔ چوتھا‘ لوگوں سے درخواست کرنی چاہیے کہ نام کے پیچھے ذات لگانا بند کر دیں۔ پانچواں‘ کسی بھی سرکاری ملازم کے نام کے آخر میں ذات لکھنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ جسمانی محنت اور دماغی محنت میں فرق ہونا چاہیے۔ کرسی توڑ اور کمر توڑ کاموں کے معاوضے میں زیادہ سے زیادہ ایک سے دس کا فرق ہونا چاہیے۔ صدیوں سے چلی آر ہی اس رسم نے ہی ملک میں اونچی اور نیچے ذات کا فرق کھڑا کیا ہے۔ کیا صرف ڈھائی لاکھ روپے کی لالچ میں ہی نیچی ذات والوں سے شادیاں ہو جائیں گی؟ ہاں‘ ان سے ان کی مدد ضرور ہو جائے گی۔
مودی اور ٹرمپ کی جگل بندی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا دورہ بھارت مکمل کرکے واپس جا چکے۔ وہ بطور تاجر بھارت پہلے بھی آ چکے تھے لیکن صدر کے طور پر یہ ان کا پہلا دورہ تھا۔ سینیٹ میں لگے مواخذے کو جیتنے کے بعد بھی پہلا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مواخذے سے بچ جانے پر وہ کتنے خوش ہیں۔ دورے پر آنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ان کے استقبال میں پچاس سے ستر لاکھ لوگ احمد آباد کی سڑکوں پر نکل آئیں گے اور وہ دنیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں لوگوں سے خطاب کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی نے ان کے استقبال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ بڑبولے ٹرمپ اپنی قومی طلب کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں؛ چنانچہ دورہ شروع ہونے سے پہلے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی معاہدہ ہو سکتا ہے لیکن دیکھنا ہے کہ بھارت کیا کرتا ہے یعنی کیا شرائط رکھتا ہے؟ جہاں تک امریکی تجارت کا سوال ہے‘ گزشتہ کئی مہینوں سے دونوں ملکوں کے بیچ بات چیت چل رہی ہے لیکن وہ بیچ میں لٹکی ہوئی ہے۔ پھر امریکہ نے بھارت کو ایک نیا جھٹکا دیا۔ اس نے بھارت کا نام ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے باہر کر دیا۔ مطلب‘ سبھی بھارتی چیزوں پر خوشحال ممالک کی طرح ٹیکس تھوپا جائے گا‘ یعنی امریکہ کو بھارت کا مال کم روانہ ہو گا۔ امریکہ اس پر بھی متفق نہیں ہو گا کہ وہاں سے آنے والے میڈیکل آلات پر بھارت کا دام باندھو پالیسی نافذ کی جائے۔ امریکی کھیتی اور ڈیری پیداوار پر ٹیکس کم کرنے کی مانگ پر بھی وہ متفق نہیں ہیں لیکن جنگی سازوسامان میں امریکہ سے بھارت کا تعاون ضرور بڑھا ہے۔ امریکہ اپنی ہوائی ٹیکنالوجی بھارت کو ٹکا کر لگ بھگ دو ارب ڈالر کا سودا کر رہا ہے۔ اس وقت بھارت امریکہ تجارت لگ بھگ 87 ارب ڈالر کی ہے۔ اس وقت بھارت کی امریکہ سے درآمدات 35 ارب ڈالر اور امریکہ کو برآمدات 52 ارب ڈالر ہے۔ سال بھر میں بھارت کی امریکہ کو برآمدات پانچ بلین ڈالر کم ہوئی ہیں۔ تجارت کا یہ غیر متوازن سلسلہ اب امریکہ کی جانب زیادہ جھکنے کا امکان ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ ٹرمپ بنیادی طور پر تاجر ہی تو ہیں۔ لیکن بھارت اور امریکہ کے سیاسی مفادات میں ابھی کافی مدد کے امکانات ہیں۔ چین کے مقابلے اب ٹرمپ بھارت کو ایشیا میں کھڑا کرنا چاہتا ہے؛ تاہم افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے انہیں پاکستان کو بھی خوش کرنا ہے۔ مودی اور ٹرمپ عادت کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ امریکہ میں رہ رہے چالیس لاکھ بھارتی ووٹرز کو ٹرمپ اپنی طرف جھکانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ نوٹنکیاں تو پُرکشش ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت کے کسی مفاد پر ٹرمپ تب تک ہامی نہیں بھریں گے جب تک کہ اس میں ان کا قومی مفاد ثابت نہ ہوتا ہو۔ بہرحال یہ دیکھتے کے لیے کہ آگے کیا ہوتا ہے‘ تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔