یہ اچھی بات ہے کہ بھارتی حکومت نے دہلی میں کورونا کے مریضوں کے علاج معالجے کی فیس میں کمی کی ہے۔ میں گزشتہ کئی مضامین میں اس ضرورت پر زور دے رہا ہوں لیکن پچھلے تین ماہ میں ہسپتالوں نے جو لوٹ مچائی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ مریضوں سے ڈھائی گنا تک رقم وصول کی گئی۔ ان میں سے کچھ زندہ بچ گئے، کچھ فوت ہو گئے لیکن سب کو لوٹ لیا گیا۔ دس دس اور پندرہ پندرہ لاکھ کی ایڈوانس بکنگ ہوئی۔ جن کو کورونا نہیں تھا ان کو بھی انتہائی نگہداشت (آئی سی یو) یا وینٹی لیٹر لگایا گیا تھا۔ ہماری حکومتوں نے موت سے پہلے ہی لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا تھا، اب لوگ مہنگے علاج سے خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دکاندار دکانیں نہیں کھول رہے ہیں، خریدار مارکیٹ نہیں جا رہے ہیں اور ہمارے مزدور دیہاتوں سے نہیں لوٹ رہے ہیں۔ اب وزیر داخلہ امیت شاہ نے صحیح اقدام کیا اور ایک کمیٹی نے پورے معاملے کی تحقیقات کر کے علاج کی نئی شرحوں کا اعلان کیا ہے۔ نہیں معلوم کہ نجی ہسپتال ان نرخوں پر کس حد تک عمل کریں گے؟ اب کورونا کی جانچ4500 روپے کے بجائے 2400 میں ہو گی۔ پہلے ہسپتال میں 25 ہزار روپے کا کمرہ یومیہ ہوتا تھا، اب اس میں 8 سے 10 ہزار روپے لگیں گے۔ پہلے سنگین علاج کا 24-25 ہزار روزانہ لگتا تھا، اب اس میں 13 سے 15 ہزار یومیہ لگیں گے۔ پہلے آکسیجن کا 44 سے 54 ہزار روپے یومیہ لگتا تھا، اب اس میں 15 سے 18 ہزار یومیہ لگیں گے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر کسی مریض کو 10 سے 12 دن تک بھی ہسپتال میں رہنا پڑتا ہے، تو اس کی قیمت ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھوں میں ہو گی؟ ملک کے 100 کروڑ سے زیادہ لوگ اتنا مہنگا علاج کروانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ 25-30 کروڑ متوسط طبقے کے مریض جو مجبوری کے تحت اپنا علاج کروائیں گے‘ یہی کہیں گے 'مرتا کیا نہیں کرتا‘؟ وہ اپنی ساری زندگی کی کمائی اس کے علاج میں لگا دیں گے، کچھ خاندان قرضے میں ڈوب جائیں گے اور کچھ کو اپنی جائیداد بیچنا پڑے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں حکومت کی طرف سے عائد نرخوں سے کچھ ریلیف ملے گا، لیکن یہ ریلیف صرف دہلی والوں کو ہی کیوں ہے؟ یہ نرخ پورے ملک کے ہسپتالوں پر کیوں لاگو نہیں ہیں؟ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں، ان کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں گھریلو علاج اور معمولی علاج سے صحت یاب ہونے والوں کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ ان لاکھوں لوگوں پر برائے نام رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن شدید بیمار افراد کی تعداد کتنی ہے؟ سب ملا کرکچھ ہزار! کیا مرکز اور ریاستوں کی حکومتیں ان لوگوں کے علاج کی ذمہ داری نہیں لے سکتی ہیں؟ یہ سچ ہے کہ ایسے نظام میں بد عنوانی کے معاملات بھی سامنے آئیں گے، لیکن عوامی فلاح و بہبود کی دعوے دار ریاست کو اس بحران میں عوامی خدمت کے اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے۔
بھارت اب تشکیل دے نئی دنیا
بھارت آٹھ سال بعد ایک بار پھر یعنی آٹھویں بار سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہوا ہے۔ یہ پہلے بھی سات بار اس کا ممبر رہ چکا ہے۔ یہ رکنیت دو سال کے لئے ہوتی ہے۔ سلامتی کونسل کے کل 15 ممبر ہوتے ہیں۔ ان میں سے پانچ یعنی امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس مستقل ممبر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ باقی دس غیر مستقل ممبر اپنے ویٹو کا استعمال نہیں کر سکتے‘ لیکن سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کی بھی کافی اہمیت ہے کیونکہ یہ 10 غیر مستقل ممبران اپنے براعظموں افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ، یورپ وغیرہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہندوستان کو 192 ووٹوں میں سے 184 ووٹوں کی مضبوط اکثریت حاصل ہے۔ جنوری 2021 سے بھارت کچھ عرصہ کے لئے سلامتی کونسل کا باقاعدہ غیر مستقل رکن بن جائے گا۔ چین اور پاکستان‘ دونوں نے اس کی حمایت کی ہے۔ ان دونوں پڑوسی ممالک سے آج کل جیسے تعلقات چل رہے ہیں، وہ دیکھیں تو یہ ان دونوں ممالک کی بھارت پر عنایت ہے۔ بھارت کو اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، لیکن ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کا نمائندہ ہونے کے ناتے اس خطے کے تمام ممالک کے مفادات پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ سب سے پہلے اس اپنی آٹھویں باری میں اس کی کوشش ہونی چاہئے کہ اقوام متحدہ کے بنیادی ڈھانچے میں ہی تبدیلی ہو۔ اگر سلامتی کونسل کے بنیادی ڈھانچے میں یہ تبدیلی ہو گئی تو یہ عالمی سیاست کو نئی سمت دے گی۔ بھارت کو چاہئے کہ اپنے اس نئے عہدہ کا استعمال وہ کم سے کم جنوبی ایشیا یونین بنانے کے لئے کرے، جیسا کہ یورپی یونین ہے۔ اس سے بھی بہتر یونین ہماری بن سکتی ہے کیونکہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک سینکڑوں سالوں سے ایک بڑے گھرانے کی طرح رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کی جو صورت حال ہے، ویسی کسی بھی علاقائی تنظیم میں کسی دوسرے ملک کی صورت حال نہیں ہے۔ اگر یہ عمل شروع ہوتا ہے تو چین اور پاکستان کے ساتھ جاری تنازعات اپنے آپ حل ہو سکتے ہیں۔ کشمیر اور تبت کے مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کروڑوں دکھی اور محروم افراد کو صحت، تعلیم اور روزگار کی انوکھی سہولیات ملنا شروع ہو جائیں گی۔ اکیسویں صدی کی دنیا کو بھارت چاہے تو نئی سمت دکھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
وادیٔ گلوان میں تنازع
ہماری حکومت وادی گلوان میں بھارتی فوجیوں کے ہلاکتوں پر خاموش کیوں ہے؟ فرنٹیئر پر دونوں ممالک کے فوجیوں کی سوچ اور دونوں ممالک کے رہنمائوں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔ ہمارے قائدین خاموش ہیں اور چینی رہنما بھی کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ دونوں طرف کے ترجمان بول رہے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے فوجیوں پر سرحد کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ اگر یہ واقعہ بالکل ویسا ہی ہے تو پھر دونوں ممالک کی حکومتیں اسے بد قسمتی سے پیش آنے والا حادثہ قرار دیتے ہوئے آپس میں بات چیت کا آغاز کر سکتی ہیں۔ اگر ہم خارجہ رہنمائوں سے کورونا یا کسی دوسرے چھوٹے مواقع کے بہانے بات کرتے رہتے ہیں تو یہ معاملہ ایسا ہے کہ پورا ہندوستان اس پر ابل رہا ہے۔ بھارتی حکومت پہلے ہی کورونا بحران کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے، اب حزب اختلاف کو 56 انچ کے سینے پر حملہ کرنے کا ایک نیا بہانہ ملا ہے۔ اگر حکومت کا ماننا ہے کہ وادی گلوان میں اس سکینڈل کے پیچھے چین کی اعلیٰ قیادت کا ہاتھ ہے اور اس میں اسے کوئی پچھتاوا نہیں ہے تو پھر ہمیں خارجہ پالیسی کو ایک نئی برتری دینے کی ضرورت ہے۔ چین کے ساتھ حکومتی سطح پر کاروباری اور سفارتی تعلقات برقرار رہنے چاہئیں، لیکن عوام کو سوچ سمجھ کر چینی سامان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ ہمیں ہانگ کانگ، تبت، تائیوان اور سنکیانگ کا معاملہ بھی اٹھانا چاہئے۔ یہاں تک کہ برکس، ایس سی او اور آر آئی سی جیسی تین چار ممالک کی تنظیموں میں، جہاں ہندوستان اور چین ان کے ممبر ہیں، ہندوستان کو سرگرم رہنا ہو گا۔ اگر چین اروناچل کو اپنا حصہ بتاتا ہے تو پھر ہم تبت، سنکیانگ اور اندرونی منگولیا کو آزاد کرنے کی بات کیوں نہیں کریں گے۔ اگر چین ہمارے اروناچل کے باشندوں کو ویزا نہیں دیتا ہے تو پھر ہمیں تبت، سنکیانگ اور اندرونی منگولیا کے ہان چینیوں کو ویزا دینا بند کر دینا چاہئے۔ چین نے بھارت میں 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ لیکن اس طرح کے انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے، ہماری وزارت خارجہ کے لئے چین کے حقیقی ارادوں کو سمجھنا ضروری ہے۔