آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ بھارت کے معزز اراکینِ پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی میں سے 4442 ایسے ہیں جو مجرمانہ مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان میں سابق ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے بھی شامل ہیں۔ ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی کل تعداد ملک میں پانچ ہزار تک نہیں ہے ۔ موجودہ پارلیمنٹ میں 539 ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوکرآئے ہیں۔ ان میں سے 233 نے خود اعلان کیاہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں۔ کچھ معززین ایسے بھی ہیں ‘ جن پر 100سے زیادہ مقدمات چل رہے ہیں۔اگر ملک کی پارلیمنٹ میں تقریبا آدھے ممبران ایسے ہی ہیں تو کیا ہمارے دیگر اداروں میں بھی یہی صورتحال غالب آسکتی ہے ؟ اگر ملک کے آدھے اساتذہ ‘ آدھے افسران ‘ آدھے پولیس اہلکار ‘ آدھے فوجی اہلکار اور آدھے جج ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ کی طرح ہوتے ہیں تو ہمارے ملک کی کیا حالت ہوگی ؟ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں ہماری جمہوریت کی روح ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو پھر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیسے ہیں؟ ہماری جمہوریت اندر سے کتنی بوسیدہ ہے ‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجرمانہ پس منظرکے لیڈران امیدواروں کے بغیر انتخابات جیت جاتے ہیں ‘ کمزورامیدواراِن کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر لیڈرکوجیل ہوجاتی ہے تورہا ہونے کے بعد وہ پھرواپس آجاتے ہیں اور دوبارہ خم ٹھوکنا شروع کردیتے ہیں۔ اشونی اپادھیائے نے پٹیشن دائرکرکے ایسے رہنماؤں کے خلاف سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے رہنما جن پرسنگین جرم ثابت ہوا ہے انہیں تاحیات انتخابات لڑنے سے روک دیاجائے ‘ جیساکہ سرکاری ملازمین کو ہمیشہ کیلئے نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ سام‘ دام ‘ دنڈ ‘ بھید کے بغیرسیاست نہیں چل سکتی‘ بدعنوانی اور سیاست جڑواں بھائی بہن ہیں لیکن قتل ‘ عصمت دری ‘ لوٹ اوراغوا جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو سیاسی پارٹیاں اپناامیدوارکیوں بناتی ہیں ؟ اس لئے کہ ان کے پاس ذات پات ‘ مذہب اور دادا گیری کی بنیاد پر پیسہ اور انتخابات جیتنے کی صلاحیت ہے۔ وہ زمانہ گیاجب گاندھی اور نہرو کی دیانت دار کانگریس میں ایماندار‘ محنتی امیدواروں کوڈھونڈڈھونڈکرامیدواربنایاجاتاتھا۔ جن سنگھ ‘ سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں اپنے امیدواروں پر فخر کرتی تھیں۔ اب تمام جماعتوں کی حالت یکساں ہے ۔ اس کیلئے ان جماعتوں کی غلطی توہے ہی لیکن پارٹیوں سے زیادہ قصور عوام کا ہے جو مجرموں کو اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ جیسی رعیت ویسابادشاہ۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں ‘ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومتوں کو طلب کرلیا ہے‘ لیکن اگر وہ سخت قانونی فیصلہ بھی دے گی تو کیا ہوگا ؟ یہاں کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں بھی تیس تیس چالیس چالیس سال لگ جاتے ہیں۔
تعلیم میں انقلاب کا طریقہ
گورنرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی حکومت کی نہیں ملک کی پالیسی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے خارجہ پالیسی یا دفاعی پالیسی ۔ انہوں نے تعلیمی پالیسی پر اتفاق رائے کا مطالبہ کیا ہے‘ لیکن کچھ اپوزیشن جماعتیں بہتری کیلئے تعمیری تجاویز دینے کے بجائے اس نئی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کرنے میں مصروف ہیں۔ مغربی بنگال کے ایک قائد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد نہیں کرے گی کیونکہ بنگلہ زبان کو قدیم یا کلاسیکی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا ؟ کوئی ان سے پوچھے کہ اگربنگلہ کو یہ درجہ دے دیاجائے تو پھر ملک کی ایک درجن دوسری زبانوں کو یہ درجہ کیوں نہ دیا جائے ؟ اب اس نئی تعلیمی پالیسی پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں زبردست بحث ہوگی۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کی تعریف میں مضامین لکھے گئے اور ماہرین نے اپنے شکوک و شبہات بھی درج کرائے ہیں۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا ہے کہ حکومت ان پر پوری توجہ دے گی۔ نئی تعلیمی پالیسی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہوگی۔ یہ قابلِ تحسین اقدام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ ‘ حکومت اور عدالتوں کے تمام اہم کام انگریزی میں ہوں گے توپھر کون اپنے بچوں کو مادری زبان کے ذریعے تعلیم دلائے گا؟ یہ غریب لو گ ‘ دیہی ‘ کسان ‘ پسماندہ ‘ قبائلی ہوں گے ۔ متوسط طبقہ ‘ اعلیٰ ذات ‘ شہری ‘ پہلے ہی اچھی طرح تعلیم یافتہ ‘ وہ توتب بھی اپنے بچوں کو انگریزی پڑھائیں گے ۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ ہندوستان کے دو دماغی ٹکڑے ہوں گے ۔ ایک بھارت اور دوسرا انڈیا۔ اگر اس تباہی سے بچنا ہے تو بچوں کی تعلیم میں انگریزی میڈیم پر مکمل پابندی لگانی ہوگی جیسا کہ منشیات کے معاملے میں ہے ۔ اگر انگریزی میڈیم پر پابندی نہیں عائد ہوتی ہے تو نام نہاد پبلک سکولوں کا سیلاب آجائے گا۔ اسی طرح غیر ملکی جامعات بھی مالدار ہوجائیں گی۔ اس سے طبقاتی تفریق میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک ''پڑھتے کی ودیا‘‘کے ساتھ ساتھ ''کرتے کی ودیا‘‘سکھانے کی بات ہے اس سے اچھے اقدامات کیا ہو سکتے ہیں‘ لیکن جب تک ملک میں ذہنی محنت اور جسمانی محنت کا بھید کم نہیں ہوگا‘ کام دھندوں کی تربیت لینے والے پیشہ ورانہ شعبے میں طلبا شودر ہی بنے رہیں گے ۔ دوسرے الفاظ میں ‘تعلیم میں انقلاب تبھی آئے گا جب معاشرے کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی آئے گی ۔
ٹھاکرے سرکارکودوجھٹکے
مہاراشٹر میں اودھو ٹھاکرے کی مخلوط حکومت کی متعدد گانٹھیں ایک ساتھ ڈھیلی ہو رہی ہیں۔ مہنگائی کی وبا نے مہاراشٹر کے لوگوں کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہے۔ اس کے بعد اسے دو پریشانیاں ہوئیں اور ایک ساتھ ہوئیں‘ ایک فلمی اداکارہ کنگنا رناوت اور دوسری سپریم کورٹ کے ذریعے مراٹھا ریزرویشن کی منسوخی۔ کیا کل جلدی میں ممبئی میں جس طرح کنگنا کا دفتر مسمار کیا گیا اس سے شیو سینا اور ٹھاکرے کی شبیہ میں اضافہ ہوگا ؟ بالکل نہیں۔ شیوسینا یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ دھو رہی ہے کہ اس کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ یہ کارروائی ممبئی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے کی ہے ۔ شیو سینا کی سادگی پرکون قربان نہیں ہو گا ؟ کیا لوگ اسے بتائیں گے کہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن بھی آپ کی ہے ؟ اس واقعے سے یہ واضح ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے غصے میں یہ تخریب کاری غیر قانونی طریقے سے کی ہے ؟ عدالت نے اس پر بھی پابندی عائد کردی ہے ۔ اگر کنگنانے اپنے آفس کی تعمیر پر 48کروڑخرچ کئے ہیں تو مہاراشٹرحکومت پرکم سے کم 60کروڑ کاجرمانہ توکیاہی جاناچاہئے۔ شیوسینا کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے صرف غیر قانونی تعمیراتی کاموں کو مسمار کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہو ‘ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنگنا کو پہلے کیوں نوٹس نہیں دیا گیا اور ممبئی میں اسی طرح کی ہزاروں غیر قانونی تعمیرات ہیں پھر صرف کنگنا کے دفتر کو ہی کیوں نشانہ بنایا گیا ؟ یہ سچ ہے کہ کنگنا کے بیانات میں مبالغہ آرائی ہے ‘لیکن کنگنا یا کوئی بھی شخص جو اس طرح کی عجیب و غریب باتیں کرتا رہتا ہے اس کی کیا اہمیت ہے ؟ اسے طول کیوں؟ یہ سوال شرد پوار نے بھی اُٹھایا ہے ۔ معاملہ اب بی جے پی اور شیوسینا کے مابین ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کنگنا کے تحفظ کیلئے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ ٹھاکرے سرکارکو دوسرا دھکا ‘ اس کے مراٹھا ریزرویشن پرلگاہے ۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مراٹھا ذات کیلئے 16فیصد ریزرویشن کے قانون کو بھی معطل کردیا ہے۔ اب اس کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ مجموعی ریزرویشن 64-65فیصد ہوگی ‘ جو 50فیصد سے کہیں زیادہ ہے ۔ کئی ریاستوں نے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ اس حد کی بھی خلاف ورزی کی ہے ۔ میری خواہش ہے کہ ملازمتوں میں پیدائش کی بنیاد پر ریزرویشن کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ پیدائش کے بجائے ضرورت کے مطابق صرف تعلیم میں 80فیصد ریزرویشن کی سہولت دی جانی چاہئے ۔