26 جنوری کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومت اور کسان‘ دونوں اپنے معیار پر پورا نہیں اتر سکے، لیکن اب اصل سوال یہ ہے کہ آگے کیا کرنا ہے؟ 'یکم فروری کو کسان پارلیمنٹ میں مظاہرے نہیں کرسکیں گے‘ میں نے لال قلعہ کا سیاہ منظر دیکھنے کے بعد یہ لکھا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ اب ان کے دھرنے کا کیا ہو گا؟ کسان رہنمائوں نے اس احتجاج کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اب 30 جنوری کو دن بھر کا اپواس رکھا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسانوں کے قائدین میں اب اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ دو تنظیموں نے خود کو اس تحریک سے الگ کر لیا ہے۔ ان کے علاوہ، دوسرے بہت سے کسان رہنما بھی لال قلعہ کے واقعے اور تخریب کاری سے مغموم ہیں۔ کچھ کسان رہنمائوں کی طرف سے مذکورہ حادثہ کے لئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کئی کسانوں نے بھی دھرنے سے لوٹنا شروع کر دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سارے واقعات نے حکومت کی عزت میں اضافہ کیا ہے، خاص طور پر اس لئے کہ ان سب کے باوجود حکومت نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ٹھیک ہے، اب سوال یہ ہے کہ کسان اور حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی ضد چھوڑیں۔ ویسے میری نظر میں مودی حکومت نے حد سے زیادہ نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کسانوں کو بھوسے جلانے اور بجلی کے بل قوانین سے استثنا دیا اور اس کے ساتھ ہی ان تینوں زرعی قوانین کو ڈیڑھ سال تک روکنے کا اعلان کیا‘ جن کو بنیاد بنا کر کسان پچھلے چھ ماہ سے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ اب اگر کسان چاہیں تو وہ اپنی تمام تجاویز ترامیم کے لئے دے دیں تاکہ کسانوں کی سبھی پریشانیاں دور ہو جائیں۔
یہ تو بالکل واضح ہے کہ ایک بھارتی حکومت، جو 3032 کروڑ ووٹوں کے ساتھ تشکیل دی گئی ہے، اپنے 50-60 کروڑ کسانوں کو ناراض کرنے کا خطرہ کبھی نہیں مول لے گی۔ میں حیران ہوں کہ حکومت فوری طور پر یہ اعلان کیوں نہیں کرتی ہے کہ زراعت ریاست کا معاملہ ہے‘ لہٰذا، ریاستوں کو فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ ان قوانین کو نافذ کریں گی یا نہیں؟ پھردیکھیں یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ نہیں؟
میں نے پہلے ہی اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ یوم جمہوریہ یوم تخریب نہیں بننا چاہئے۔ مجھے خوشی ہے کہ کسانوں کے مظاہروں پر کسی نے بندوق نہیں چلائی۔ نہ کسی کسان نے اور نہ ہی کسی پولیس اہلکار نے‘ لیکن بندوق کی فائرنگ سے بھی ایک اور سنگین واقعہ پیش آیا۔ بہتر ہو گا کہ اسے ایکسیڈنٹ سمجھ لیا جائے تاکہ آگے بڑھنے کا راستہ بند نہ ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ کسی بھی قوم کی تاریخ میں کبھی ایسا حادثہ ہوا ہے یا نہیں۔ کیا کوئی قوم اپنے لال قلعے یا راشٹرپتی بھون یا پارلیمنٹ ہائوس یا وزیر اعظم کے دفتر پر کسی بھی طبقے کا پرچم لہرا سکتی ہے؟ ہر طبقے کا جھنڈا احترام کے لائق ہے، لیکن لال قلعے پر اس کا لہرانا عاقبت نا اندیشی ہے۔ یہ قومی پرچم کی توہین ہے۔ یہ قوم کی توہین ہے۔
ایسے واقعات اسی وقت ہوتے ہیں جب دنیا بھر کے ممالک میں حکومتوں کی خونیں بغاوت ہو۔ کسی نے خون تو کیا کرنا تھا، یہاں کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ لال قلعے کے ایسے مضبوط دروازے، جو پاگل ہاتھی بھی توڑ نہیں سکتا، پر سے چھلانگ لگا کر شر پسند اندر داخل ہوئے، سینکڑوں لوگ سٹیج پر چڑھ گئے اور پولیس بے بس کھڑی رہی، کیا اس سے پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟ ایک سوال نہایت اہم ہے کہ ستونوں اور گنبدوں پر چڑھنے کے دوران پولیس نے ان شر پسندوں کو کیوں نہیں روکا؟ یہاں تک کہ اگر پولیس نے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی ہوتی تو پورا ملک اس کی حمایت کرتا، کوئی بھی مخالفت نہ کرتا‘ لیکن پولیس کی اس بے عملی کے پیچھے اب بہت سے لوگ حکومت کا ہاتھ بتا رہے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر جارح بھارتی کسانوں کے ساتھ پولیس کے شرمناک سلوک کو بھی مودی حکومت کی سازش کا ایک حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تقریباً سو پولیس اہلکار بری طرح زخمی ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔
کسان قائدین مظاہرین کی بد انتظامی کی مذمت کر سکتے ہیں، لیکن اب اس تحریک کے ماتھے پر کالا داغ لگ چکا ہے۔ میں نے اس عدم تشدد کی تحریک کو دنیا کی انوکھی تحریک قرار دیا تھا، لیکن اب اس کا اصل کردار سامنے آ گیا ہے ۔ یہ نہ صرف بے قیادت ہے، بلکہ یہ گمراہ بھی ہے۔ اب اس کا بکھرنا اور ٹوٹنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ذرا سوچئے کہ دہلی کے علاوہ دوسرے 20 شہروں میں کسانوں کے مظاہرے اتنے پُر امن کیسے تھے؟ کیونکہ ان کے پیچھے پارٹیاں اور رہنما موجود تھے۔
یہ عیاں ہے کہ اب یکم فروری کو پارلیمنٹ پر کسانوں کا مظاہرہ نا ممکن ہو گا۔ میرے خیال میں حکومت اور کسان‘ دونوں کو اپنی اپنی ضد چھوڑنا چاہئے۔ واپسی کی رٹ نہ لگائیں۔ نہ کسانوں کی اور نہ ہی قوانین کی۔ درمیان کے راستے پر دونوں متفق ہوں۔ وہ ریاستیں جو ان قوانین کو ماننا چاہتی ہیں، وہ مانیں، جو نہیں ماننا چاہتیں وہ نہ مانیں۔
حکومت کی کسانوں کے ساتھ سابقہ گفتگو سے امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں کو ایک درمیانی راستہ مل گیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ ڈیڑھ سال تک ان زرعی قوانین کے التوا کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ نہیں ہے کہ اگر ان دونوں کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ قوانین ہمیشہ کے لئے ملتوی کر دیئے جائیں گے۔ حکومت ان کو مسلط نہیں کر سکے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس سے بہتر حل کیا تھا؟ لیکن پچھلے دو تین مہینوں میں، کسانوں کے درمیان حکومت کے اصل ارادوں کے بارے میں اتنے شکوک و شبہات پائے گئے ہیں کہ وہ اس تجویز کو بہت دور کچرے میں پھینکنے پر راضی ہو گئے ہیں۔
دریں اثنا، کسان قائدین، وزرا اور زرعی ماہرین سے میرا رابطہ جاری ہے۔ میں نے یہ متعدد بار لکھا کہ مرکزی حکومت ریاستوں کو چھوٹ دینے کا اعلان کیوں نہیں کرتی ہے؟ زراعت ریاست کا موضوع ہے لہٰذا جو ریاستیں ان قوانین کو ماننا چاہتی ہیں، انہیں ان کی اطاعت کرنی چاہئے، جو ان کی تعمیل نہیں کرنا چاہتیں وہ نہ کریں۔ ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونی چاہئے کہ ان قوانین کو ضرور قبول کریں۔ اس طرح یہ قوانین پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے لئے خود بخود ختم ہو جائیں گے اور ان کا مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ جہاں تک باقی ریاستوں کا معاملہ ہے، اگر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستیں ان کو نافذ کرنا چاہتی ہیں تو ان کی حقیقت دو تین سالوں میں ہی معلوم ہو جائے گی۔ اگر ان ریاستوں کے کسانوں کی خوشحالی بڑھتی ہے تو پھر پنجاب اور ہریانہ بھی ان کی تقلید کرنے لگیں گے اور اگر بی جے پی کے زیرِ اقتدار ریاستوں کے کسانوں کو نقصان پہنچا تو مرکزی حکومت ان کو جاری نہیں رکھے گی۔
جہاں تک کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کا تعلق ہے تو اس کو قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ خریدار کو کم قیمت پر بیچنے والے سے پہلے ہی سزا ہو گی۔ بہتر ہے کہ 23 کے بجائے 50 چیزوں، پھلوں اور سبزیوں پر بھی حکومتی قیمت کا اعلان کیا جائے، جیسا کہ کیرالہ کی کمیونسٹ حکومت نے کیا ہے۔
بھارتی حکومت اور کسانوں کی مشترکہ کمیٹی کے غور و فکر کا بنیادی موضوع یہ ہونا چاہئے کہ کیسے بھارت کے اوسط محنت کش افراد (نہ محض بڑے بڑے جاگیردار) کو امیر اور قابل بنائے‘ ان کی پیداوار کو دوگنا کیا جائے اور بھارت کو دنیا کا فراہم کنندہ بنایا جائے۔ اگر حکومت اس قیمت کا اعلان کرتی ہے تو، یہ ہو سکتا ہے کہ حالات پُر امن ہو جائیں‘ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ بات بہت دور تک جائے گی۔