مجھے آج معلوم ہوا کہ انگریزوں نے بھارت کو اپنا غلام کیسے بنایا ہے۔ زیر تبصرہ خبر اندور کے سر فہرست اخبارات کے پہلے صفحات پر منظر عام پر آئی ہے کہ 8600صفائی ملازموں کو کورونا ویکسین لینے کیلئے پیغامات بھیجے گئے تھے لیکن ان میں سے صرف 1651ہی پہنچے۔ باقی یہ نہیں سمجھ سکے کہ پیغام کیا ہے ؟ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ وہ پیغام انگریزی میں تھا۔ انگریزی کی اس مہربانی کی وجہ سے ‘ ایک بھی آدمی ویکسین مرکز تک نہیں پہنچا۔ بھوپال میں شاید ہی 40فیصد لوگ ویکسین لگوانے پہنچ سکے۔ کورونا ویکسین زندگی اور موت کا سوال ہے‘ مگر انگریزی کے غلبے کی وجہ سے بھارت کے 80‘90فیصد لوگوں کو ویکسین سے محروم کیا جارہا ہے۔ذراسوچئے انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے زندگی کے اہم معاملات میں کتنے لوگوں کاکتنانقصان ہوتاہوگا؟ ملک کی پارلیمنٹ ‘ عدالتیں ‘ حکومتیں ‘ بیوروکریسی ‘ ہسپتال اور اعلیٰ تعلیمی ادارے عام طور پر اپنے تمام کام انگریزی میں کرتے ہیں۔ بھارت میں ہی انگریزی نے ایک فرضی بھارت بنایا ہے۔ یہ بھارت نہ صرف فرضی ہے بلکہ یہ نقلی بھی ہے ‘ برطانیہ اور امریکہ کی کٹ کاپی۔ یہ ملک کے 10‘15فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گیا ہے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ وہ شہری ‘ متمول ‘ تعلیم یافتہ ہیں۔ بھارت ‘ جس میں 100کروڑ سے زائد لوگ رہتے ہیں ‘ غریب ‘ غیر تعلیم یافتہ ‘ پسماندہ ‘ دیہی ‘ مزدور ہیں۔ بھارت کی حکومتوں نے اس بوسیدہ نظام کو تبدیل کرنے کا عزم ظاہر نہیں کیا۔مجھے 55 سال پہلے سکول سے اس لئے نکال دیا گیا تھا کہ میں نے انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں اپنی بین الاقوامی سیاست کا مقالہ ہندی (مادری زبان) میں لکھنے کی درخواست کی تھی۔ کئی بار پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہوا۔ آخر میں ‘ میں جیت گیا ‘لیکن یہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ آج بھی پورے بھارت میں انگریزی میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کی جاتی ہے۔ دنیا کی کسی بڑے ملک میں یہ کام غیر ملکی زبان میں نہیں کئے جاتے۔ اس تناظر میں ‘ میں نے پہلی بار نریندر مودی کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہر ریاست میں میڈیکل کالج اور ایک تکنیکی کالج کیوں اپنی زبان میں نہیں ہوسکتا ؟ یہ ٹھیک ہے کہ آسام کے ووٹرز کو خوش کرنے کیلئے مودی نے ہوائی چھوڑی کہ ڈاکٹر آسامی زبان میں کیوں نہیں پڑھ سکتے ہیں؟مگر کوئی دیس کے مفادکی بات کرتا ہے تو پھر ہم کیوں اس کی تعریف کرنے میں ہچکچائیں؟ ان کے سابق وزیر صحت جے پی نڈا اور موجودہ وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے مجھ سے کئی بار وعدہ کیا تھا کہ وہ ہندی زبان میں میڈیکل کی تعلیم شروع کردیں گے ‘ لیکن اب توان کے نیتا جی نے بھی اعلان کردیا ہے۔ اب دیر کیوں؟
بھارتی مسلمان سب سے بہترین
کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کی پارلیمنٹ سے سبکدوشی اپنے آپ میں ایک بے مثال واقعہ بن گئی۔ مجھے گزشتہ ساٹھ ستر برسوں میں کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی ایسی جذباتی الوداعی یاد نہیں ہے۔ اس الوداعی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت کی ایک انجان جہت کا انکشاف کیا‘ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نے اپنی زندگی کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو نہ صرف بھارتی مسلمانوں بلکہ ہر بھارتی کیلئے باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک بھارتی مسلمان ہوں۔یہی بات 10‘11سال قبل دبئی میں اچانک میرے منہ سے نکلی تھی۔ میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ بھارتی مسلمان دنیا کے بہترین مسلمان ہیں۔ دبئی میں ہمارے سفارتخانے کی ایک میٹنگ ہوئی اور وہاں میرا لیکچر ہوا جس کا موضوع ہند عرب تعلقات تھا۔ اس تقریب میں سینکڑوں غیرملکی انڈین تھے اور درجنوں شیخ اور دوسرے لوگ بھی اس تقریب میں شریک تھے۔ جیسے ہی مذکورہ جملہ میرے منہ سے نکلا ‘ اس میٹنگ میں موجود بھارتی مسلمانوں نے زبردست تالیاں بجائیں لیکن اگلی صف میں بیٹھے شیخوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ان کی پریشانی کو دیکھ کر میں نے اس لائن کی وضاحت کی۔ میں نے کہا کہ بھارت میں ہزاروں سالوں سے جو روایات لوگوں کے دلوں میں موجزن ہیں‘وہی روایات مسلمانوں کے دلوں بھی موجزن ہیں۔غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ میں جو بات کہی اس کا بیان سچ ہے ‘ میں نے اپنے تجربے سے بھی جانا ہے۔ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک میں رہتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہمارے مسلمان کہیں زیادہ مذہبی ‘ زیادہ نیک ‘ زیادہ رحم دل اور زیادہ عقلیت پسند ہیں۔ لیکن میں برادرم غلام نبی کے دو نکات سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ وہ کبھی پاکستان نہیں گئے اور دوسرا یہ کہ بھارتی مسلمانوں میں وہ خیالات نہیں پیدا ہوئے جو دیگر مسلم ملکوں کے لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان جانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ میں نے کئی بار پاکستان جاکر اعلیٰ قائدین اور عسکری رہنماؤں سے بات کی۔ وہ بھی جاتے تو شاید یہ ان کی سوچ کے لیے مثبت ثابت ہوتا۔دوسری بات یہ کہ دہشت گردی ‘ تعصب پرستی دنیا میں ضرور ہے لیکن مسلم دنیا کے بیشتر افراد بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ہم بھارتی ہیں۔ یقینا بھارتی مسلمانوں کی صورتحال بہتر ہے ‘ لیکن جنوبی ایشیاکی سب سے بڑی آبادی ہونے کے ناتے ہمارا فرض کیا ہے ؟ ہمیں پرانے آریہ ورت کے تمام ممالک اور لوگوں کو جوڑنا اور ترقی کرنا ہوگی۔
پارلیمنٹ میں مودی کے دلائل
صدر جمہوریہ کے خطاب پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کے جواب میں وزیر اعظم مودی کے خطاب کے حقائق اور دلائل کافی متاثر کن تھے۔ اس تقریر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مودی کی جارحیت اس میں غائب تھی۔ اپنی لمبی تقریر میں انہوں نے کسان تحریک کے خلاف کوئی اشتعال انگیزبات نہیں کی۔ وہ اپنی حکومت کی زرعی پالیسی کا تھوڑا سا گہرا تجزیہ پیش کرسکتے تھے ‘ لیکن انہوں نے جوبھی حقائق اور دلائل پیش کئے وہ ملک کے کروڑوں لوگوں نے اگرسنے ہوں گے توانہیں ایسا محسوس ہواہوگا جیسے بھارت میں دودھ کے شعبہ میں انقلاب برپا ہو اتھا۔ اسی طرح زرعی انقلاب کا بھی وقت آگیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور ہریانہ کے مالدار کسان کچھ الجھن میں پڑ چکے ہوں گے ‘ لیکن انہوں نے چودھری چرن سنگھ اور گرو نانک کا حوالہ دے کر جاٹ اور سکھ کسانوں کے دل جیتنے کی بھی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سابق وزرائے اعظم لال بہادر شاستری ‘ دیو گوڑا اور منموہن سنگھ کا حوالہ دے کر حزب اختلاف کی ہوانکال دی۔ وہ دونوں ایوان میں موجود تھے۔ انہوں نے بہت ہوشیاری کے ساتھ اپوزیشن لیڈروں شرد پوار ‘ غلام نبی آزاد اور رام گوپال یادو کا بھی ذکر کردیا۔ انہوں نے حزب اختلاف کی پریشان کن فطرت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک نئی اصطلاح 'اشتعال انگیزی‘استعمال کی۔ انہوں نے احتجاج کی سیاست پر طنزکرتے ہوئے اس کا خیرمقدم بھی کیا۔مجموعی طور پر ‘ پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں کسان تحریک پر حزب اختلاف کمزور ہی رہی۔ چونکہ کسان رہنما کسانوں کے مطالبات کو پیش کرنے سے قاصر رہے ‘ لہٰذا حزب اختلاف کے رہنما بھی پارلیمنٹ میں ناکام نظر آئے۔ اگر اس سے پہلے ہی زرعی قوانین پر یہ بڑی بحث ہوتی تو شاید ڈھاک کے تین پات ہی نکلتے۔ مودی کی تقریر میں ‘ احتجاجی مالدار کسانوں کیلئے سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مودی نے پارلیمنٹ میں ایک واضح یقین دہانی کرائی ہے کہ ایم ایس پی کا نظام پہلے سے موجود ہے اورآگے بھی جاری رہے گا۔ منڈی سسٹم کو بھی برقرار رکھا جائے گا۔ ان دو وعدوں سے تصدیق ہوتی ہے کہ حکومت ملک کے 80کروڑ عوام کو سستے اناج کی فراہمی جاری رکھے گی۔ اگر کوئی مودی پارلیمنٹ میں دیئے گئے اپنے وعدوںسے پھرجائے گا تو کون اسے اپنے تخت پردوبارہ بیٹھنے دے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے وزیر زراعت نریندر تومر کسان رہنماوں کے ساتھ انتہائی شائستہ بات چیت کررہے ہیں ‘ لیکن مودی اب خود کسان رہنماؤں سے براہ راست بات کیوں نہیں کرتے ؟