"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کورونا کو ہرا دے گا

بھارت میں اب کورونا کے خلاف ایک کامل جنگ شروع ہوگئی ہے۔ مرکز اور ریاست کی حکومتوں نے کسی بھی پارٹی سے قطع نظر ‘ کورونا کو شکست دینے کیلئے اپنی کمرکسناشروع کردی ہے۔ ان حکومتوں سے بھی زیادہ ‘ بہت سے فرشتہ صفت لوگ نمودار ہوئے ہیں ‘ کوئی آکسیجن کا سلنڈر مفت دے رہے ہیں ‘ کچھ مریضوں کو مفت کھانا مہیا کررہے ہیں ‘ کچھ پلازما ڈونرز جمع کررہے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مریضوں کو ہسپتال بھیجنے کا کام کررہے ہیں۔ ہم دن رات اپنے صنعت کاروں پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں لیکن ٹاٹا ‘ نوین جندل ‘ اڈانی اور بہت سے دوسرے چھوٹے صنعت کاروں نے اپنی فیکٹریوں کو بند کرنے اور آکسیجن بھیجنے کا انتظام کیا ہے۔ وہ یہ نیک کام رضاکارانہ طور پر انجام دے رہے ہیں۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان کے اقدام پر آکسیجن ٹرینیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ ہزاروں ٹن مائع آکسیجن کے ٹینکر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں۔ لاکھوں ڈاکٹر ‘ نرسیں اور خدمت گزار اپنی جانوں پر کھیل کر زندگیاں بچا رہے ہیں۔ اب بھارتی وزیر اعظم ریلیف فنڈ سے 551 آکسیجن پلانٹ لگانے کی بھی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت ‘ یوپی کے یوگی آدتیہ ناتھ اور کچھ دیگر وزرائے اعلیٰ نے مفت ویکسین دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے باوجود ایک ہی دن میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہونا اورتین ساڑھے تین ہزار افراد کی موت گہری تشویش کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں ایک ہفتے کیلئے لاک ڈاؤن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ آکسیجن لین دین اور نقل و حرکت بحال کرنے کیلئے تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں۔ بہت سے ممالک دوائیں ‘ ان کے خام مال ‘ آکسیجن آلات وغیرہ بھارت بھیج رہے ہیں ‘ لیکن بھارت میں بھی ایسی درندے ہیں جو آکسیجن ‘ ریمڈیسویر انجکشن ‘ دوائیں اور علاج کے بہانے مریضوں کی کھالیں کھینچ رہے ہیں۔ انہیں پولیس نے پکڑا ہے لیکن آج تک انسانیت کے ایسے کسی دشمن کو عبرت ناک سزا نہیں دی جاسکی۔ پتہ نہیں کیوں بھارتی حکومتوں اور عدالتوں کو اس معاملے میں مفلوج کیا گیا ہے؟ ہسپتالوں میں مریض دم توڑ رہے ہیں لیکن لوٹ مار سے ان کے کنبوں کے افراد زندہ رہ کربھی مر رہے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز تشویشناک خبریں اتنی دے رہے ہیں لیکن وہ ہمارے گھریلو کاڑھا‘ گلوئی اور نیم گولی اور برگدکے دودھ جیسے مؤثر اقدامات کو کیوں فروغ نہیں دیتے؟ کورونا کو شکست دینے کیلئے جو بھی نیا اور پرانا ‘ ملکی اور غیر ملکی ہتھیار کارآمد ہے ‘ اسے کھونا نہیں چاہیے۔
کورونا پرقابوپانا مشکل نہیں
گزشتہ چند دنوں میں کورونا نے ایسا ظلم ڈھایاہے کہ پورا بھارت لرز اٹھا ہے۔پونے چار لاکھ کے قریب افراد پازیٹو ‘ روزانہ ہزاروں افراد کی موت ‘ آکسیجن کا قحط ‘ دوائیوں اور آکسیجن سلنڈروں کی دس گناقیمتیں‘بلیک مارکیٹنگ ‘ ریاستی حکومتوں کے مابین تنازع ‘ قائدین کے الزامات اور جوابی الزامات نے مرکزی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اس سب کا فائدہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی توجہ کورونا پر مرکوز کر لی ہے۔ اب راتوں رات آکسیجن سلنڈر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں ‘ شہروں میں ہزاروں بستروں پر مبنی ہسپتال کھل رہے ہیں ‘ بلیک مارکیٹ میں ملوث لوگوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہورہا ہے اور 80 کروڑ غریب افراد میں پانچ کلوگرام غلہ فی کس مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔توقع کی جا رہی ہے کہ ایک دو دن میں حکومت کورونا ویکسین کی قیمت پر لوٹ مار کو بھی روک لے گی۔ امریکہ کی جانب سے ویکسین کا خام مال فراہم کرنا شروع کردیا گیا ہے‘ برطانیہ اور فرانس نے بھی مزید مدد کا اعلان کیا ہے۔سب سے قابلِ توجہ حقیقت یہ ہے کہ چین اور پاکستان نے اس ہنگامی صورتحال میں بھارتی عوام کو بچانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی بہت سی سماجی تنظیموں نے کہا ہے کہ بحران کے اس دور میں باہمی دشمنیوں کو ختم کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ سکھوں کے بہت سے گوردواروں میں مفت آکسیجن مہیا کرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ وہ ہزاروں لوگوں کو مفت کھانا بھی فراہم کر رہے ہیں۔ بہت سی مساجد بھی اس کام میں مصروف ہیں۔ وہ کسی ذات ‘ مذہب یا زبان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کررہے ۔ ان لوگوں سے بھی سبق لینا چاہئے جو ذاتی سطح پر بے مثال سخاوت اور ہمت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ممبئی کے شاہنواز شیخ نامی نوجوان اپنی 22 لاکھ روپے کی کاریں بیچ کر اس رقم سے ضرورت مند مریضوں کو آکسیجن سلنڈر فراہم کررہے ہیں۔ جودھ پور کے نرمل گہلوت نے ایک سانس بینک بنایا ہے جو معمولی فیس پر گھروں میں آکسیجن سلنڈر پہنچائے گا۔ایک کسان نے اپنے تین منزلہ مکان کو کورونا ہسپتال میں تبدیل کردیا ہے۔ گڑگاؤں کے کونسلر مہیش دایما نے اپنے بڑے دفتر کو مفت ٹیکے لگانے کا مرکز بنا دیا ہے۔ اگر ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے تقریباً 15 کروڑ کارکنان متحرک ہوجاتے ہیں تو پھر کورونا کی ہولناکیوں پر قابو پانا مشکل نہ ہوگا۔
لیڈر کورونا دنگل بندکریں
آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ناسک کے ہسپتال میں درجنوں افراد کی موت حیران کن ہے۔ ملک کے بہت سے شہروں سے آکسیجن کی کمی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ بہت سے ہسپتالوں میں مریض صرف اس وجہ سے مر رہے ہیں۔ کورونا سے روزانہ ہلاکتوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بہت سے ممالک کے رہنماو ٔں نے اپنا دورہ بھارت ملتوی کردیا ہے۔ کچھ ممالک نے بھارتی مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ لاکھوں لوگ خوفزدہ ہوکر اپنے گائوں واپس بھاگ رہے ہیں۔ قائدین بھی خوفزدہ ہیں۔ وہ لاک ڈاؤن اور رات کے وقت کرفیو کے اعلانات کر رہے ہیں۔ممتا بینرجی نے ایک بیان دیا ہے کہ ''کووڈ مودی نے تخلیق کیا ہے‘‘۔ اس سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ بیان اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر مودی انتخابی غفلت کے ذمہ دار ہیں تو خود ممتا ان سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ ہمت کرتیں تو ممتا وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انتخابی جلسوں پر پابندی لگا سکتی تھیں۔ کون ان کو روک سکتا تھا؟ یہ سچ ہے کہ بنگال میں کورونا کا قہر اتنا شدید نہیں ہے جتنا ممبئی اور دہلی میں ہے لیکن وہاں کے انتخابی جلسوں نے پورے بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت نے کورونا فتح کرلیا ہے‘ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ جب ہزاروں اور لاکھوں افراد کا ہجوم بغیر کسی ماسک کے اور بغیر کسی سماجی فاصلے کے جلسہ جلوس کرسکتا ہے تو لوگ کیوں بازاروں میں گھوم نہیں سکتے ‘ فیکٹریوں میں کام نہیں کرسکتے ‘ اپنی دکانیں نہیں چلا سکتے اور سفر نہیں کرسکتے ؟ انہیں بنگالیوں کے ہجوم کی طرح لاپروا رہنے کا حق کیوں نہیں ؟لوگوں کی اس غفلت نے اب بھیانک شکل اختیارکرلی ہے۔ اس دوران وہ لوگ ان لوگوں کے جلے پر نمک چھڑک رہے ہیں جو 40 ہزار روپے میں ریمڈیسویر کا انجکشن اور 30 ہزار روپے کا آکسیجن سلنڈرخرید رہے ہیں۔ایسے کالابازاری کرنے والے کو حکومت نے پکڑ اضرور ہے لیکن کیوں انہیں فوری طور پر سزا نہیں دی جاتی اور انہیں ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیاجاتا تاکہ وہ مستقبل کے درندوں کیلئے فوری سبق بن جائیں۔ جہاں تک آکسیجن کی کمی کا تعلق ہے تو ملک میں پیدا ہونے والی کل آکسیجن کا صرف 10 فیصد ہسپتالوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر سرکاری اور نجی کمپنیاں چاہیں تو پھر تمام ہسپتالوں کو چند گھنٹوں میں کافی آکسیجن مل سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کورونا ویکسین مفت یا سستی اور قابل ِرسائی ہو تو اس وبا کو قابو کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ صحیح وقت ہے کہ عوام کو نظم و ضبط اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ بھی اہم ہے کہ قائدین کورونا پر دنگل کرنا بند کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں