بھارت میں کورونا ویکسین پر بہت زیادہ تنقیدوتبصرے ہو رہے ہیں۔ لیڈر نہ تو مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں اور نہ ہی بھوکے افراد کو کھانا مہیا کر رہے ہیں‘ وہ صرف سرکاری بنگلوں میں پڑے پڑے ایک دوسرے پرتنقید کی بوچھاڑکررہے ہیں ۔ اگر ہمارے پجاری ‘ امام اور پادری ذراسی ہمت کریں تو بھارت میں لاکھوں مندروں ‘ مسجدوں ‘ گردواروں اور گرجا گھروں میں لاکھوں مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک شرم کی بات ہے کہ سینکڑوں لاشوں کے انبار ندیوں میں تیر رہے ہیں ‘ شمشانوں اور قبرستانوں میں لمبی لمبی لائنیں لگی ہیں اورروزانہ درجنوں افرادہسپتال میں دم توڑ رہے ہیں۔ غیر سرکاری ہسپتال اپنی چاندی کوٹ رہے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اپنی زمین ‘ مکانات اور زیورات بیچ کر اپنے رشتے داروں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سینکڑوں لوگ جعلی انجکشن ‘ جعلی سلنڈر اور جعلی دوائیں اندھا دھند فروخت کررہے ہیں مگریہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ متعدد سماجی تنظیمیں ‘ نسلی تنظیمیں ‘ گردوارے اور ملک کے سخاوت شعار افراد ضرورت مندوں کی مدد کیلئے میدانِ عمل میں آئے ہیں۔ میرے بہت سے ذاتی دوستوں نے اپنی جیب سے کروڑوں روپے کا عطیہ کیا ہے ‘ بہت سے لوگوں نے اپنے دیہاتوں اور شہروں میں ہسپتال کھولے ہیں اور بھوکے لوگوں کیلئے رسوئی چلائی ہے۔ میرے بہت سے ساتھی بھی ہیں جو دن رات مریضوں کے علاج میں ‘ انہیں ہسپتالوں میں داخل کروانے اور ان کیلئے آکسیجن کا بندوبست کرنے میں مصروف ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ مرکزی حکومت اور تمام پارٹیوں کی ریاستی حکومتیں ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ سب غفلت کے ذمہ دار ہیں۔ کیوں نہیں ؟وزیر اعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کورونا ویکسین کہیں سے لائی جائے ‘ یہ سب کو بلا معاوضہ فراہم کی جائے گی۔دہلی میں جاری سنٹرل وسٹا جیسے مہنگے کام ملتوی کردیے جائیں اور بیرونِ ملک سے بھی ویکسین خریدی جائے۔ بھارت میں اب تک 17 کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ کسی بھی ملک میں اتنے ٹیکے ابھی تک نہیں لگائے گئے۔ اس وقت یہ اہم ہے کہ لیڈرز باہمی تنقیدو تبصرے کو روک کر ویکسین پر توجہ دیں۔
ہمارے گاؤں لاوارث
ٹی وی چینلز اور اخبار بھارت کے شہروں کی حالتِ زار بتا رہے ہیں لیکن ملک کے ایک یا دو بڑے قومی سطح کے اخبارات ہمیں دیہات کی خوفناک صورتحال سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔ میں ان بہادر نمائندوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے صحافت کے اصولوں پر واقعتاً عمل کیا ہے۔ پہلی کہانی للت پور ضلع (یوپی) کے 13 دیہات کی ہے۔ ان دیہات کی آبادی ایک سے سات ہزار تک ہے۔ ان تمام دیہات میں لوگ بڑی تعداد میں بیمار ہو رہے ہیں۔ پانچ سو مردوں کے ایک گاؤں میں چار سو مرد بیمار ہوگئے ہیں۔بڑے گاؤں میں پہلے ہفتے ‘دو ہفتے میں ‘ ایک کی موت کی اطلاع مل جاتی تھی اب وہاں ہر دن لاشوں کی لائن لگی رہتی ہے۔ اگر آپ لوگوں سے پوچھیں کہ اتنے لوگوں کوکیا ہواتو وہ کہتے ہیں کہ کھانسی بخار تھا۔ ان سے پوچھیں کہ آپ جانچ کیوں نہیں کرواتے تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں گاؤں میں آکرکون ڈاکٹر ان کو چیک کرے گا‘ ڈاکٹر 50‘60 کلومیٹر دور شہر یا قصبے میں بیٹھتا ہے۔ مریض کو کیسے لے جائیں‘ وہ سائیکل پر نہیں جاسکتا یہی وجہ ہے کہ ہم گاؤں میں رہ کرہی کھانسی اور بخار کا علاج کر رہے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ علاج کس سے کرا رہے ہیں ‘ ان کا جواب یہ ہے کہ او پی ڈی بند ہے ہم یہاں پر گھومنے والے جھولاچھاپ ڈاکٹرکی گولیاں ہی مریضوں کو دے رہے ہیں۔ وہ 10 روپے کی پیراسیٹامول 250 روپے میں دے رہے ہیں۔ کچھ گاؤں کے سرپنچوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں کورونا کا کیا کام؟ لوگوں کو صرف کھانسی اور بخار ہوتا ہے۔ اگر یہ ایک آدمی کو ہوتا ہے تو گھر میں ہر ایک کو ہوجاتا ہے۔جب دیہات میں اتنی بے شرمی کے ساتھ سردی اور بخار کی دوائیوں کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے تب ہمارے دیہی بھائی کورونا کے معائنے اور علاج کیلئے ہزاروں اور لاکھوں روپے کہاں سے لائیں؟ ایسا لگتا ہے کہ اس عہد میں ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کوبے حسی کادورہ پڑگیا ہے۔ عوام کی لاپروائی اتنی زیادہ ہے کہ سینکڑوں انتخابی کارکن اتر پردیش کے پنچایت انتخابات میں کورونا کا شکار ہوگئے لیکن عوام نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا۔ راجستھان کے سیکر ضلع کے کھیوڑا گاؤں میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا۔21 اپریل کو ایک متاثرہ فردکی نعش گجرات سے لائی گئی تھی۔ اس کی تدفین کیلئے 100 افراد پہنچے گئے۔ انہوں نے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں۔ ان میں سے 21 فوت ہوگئے۔ اتراکھنڈ اور اترپردیش کے کئی دیہات میں بھی ایسی صورتحال پائی جارہی ہے‘ لیکن اس کا صحیح طور پر پتا نہیں چل سکا ہے۔ صرف حکومتوں کے بھروسے ملک کے دیہات کو کورونا سے نہیں بچایا جاسکتا نہ ہی وہ لاوارث چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اگر اس وقت ملک کی ثقافتی ‘ سیاسی ‘ سماجی ‘ مذہبی اور نسلی تنظیمیں اب پہل نہیں کریں گی تو وہ کب کریں گی؟
کورونا پر قابو پانا ممکن ہے لیکن ...
اگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ٹیکوں سے متعلق پیٹنٹ اٹھالیتی ہے تو پھر 100‘ 200 ملین ویکسین کا بندوبست کرنا مشکل نہیں ۔ امریکی ‘ یورپی ‘ روسی اور چینی کمپنیاں اگرچاہیں توچند ہی دن میں کروڑوں ویکسین بھارت بھجوا سکتی ہیں۔ بھارتی کمپنیاں بھی خود اس کی اہل ہیں کہ وہ ویکسین کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ جرمنی کے سوا تقریباً تمام ممالک اس معاملے میں بھارت کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں ‘ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر ویکسین دستیاب بھی ہوجائے تو 140 کروڑ افراد کوٹیکے کیسے لگیں گے؟اب صورتِ حال یہ ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے ہزاروں آکسیجن آلات اور لاکھوں انجکشن مریضوں تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ وہ یا تو ہوائی اڈوں میں پڑے ہیں یا سیاستدانوں کے گھروں میں ڈھیر ہو رہے ہیں یا کالے بازاروں کی جیبیں گرم کررہے ہیں۔ ہماری حکومتیں بھی ہاتھ پرہاتھ دھرے دیکھ رہی ہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ارکان اپنے گھروں میں بیٹھ کر ان کو ہلاک کررہے ہیں۔بھارت میں ڈاکٹروں ‘ نرسوں اور صحت کے کارکنوں کی تعداد 60 لاکھ کے قریب ہے اور فوجیوں کی تعداد 20 لاکھ ہے۔ اگر ان سب کو ویکسی نیشن مہم میں متحرک کیا جاتا ہے تو ہر بھارتی اگلے 50‘60 دن کے اندر ویکسین لگوا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہماری مذہبی ‘ ثقافتی اور سماجی تنظیمیں بھی گھروں میں بیٹھی ہیں۔ ان کے کچھ مقامی اور چھوٹے چھوٹے پُرجوش کارکن عوامی خدمت کا بوجھ اٹھا رہے ہیں لیکن انسانیت ‘ قوم پرستی اور حب الوطنی کے نعرے لگانے والی یہ تنظیمیں مفلوج کیوں ہوئیں؟ انہیں قومی سطح پر کیوں متحرک نہیں کیا جارہا ہے؟ اگر وہ زیادہ کچھ نہیں کرسکتے اور ان کے قائدین خوف کے مارے گھر کے اندر ہی رہنا چاہتے ہیں تو کم سے کم اپنے پیروکاروں کو یہ توکہہ ہی سکتے ہیں کہ وہ بلیک مارکیٹنگ کرنے والے کو پکڑ یں ‘ ان کامنہ کالا کریں اور انہیں بازاروں میں گھمائیں۔ عدالتیں اور حکومتیں ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں لیکن عوام کو براہِ راست کارروائی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟کچھ ریاستوں نے ویکسی نیشن مفت کی ہے اور کچھ نے تو غربت کی لکیر سے نیچے کے افراد کے مکمل علاج کا بندوبست بھی کیا ہے۔ حکومتِ ہریانہ نے اپنے گھروں میں تنہائی میں رہنے والے مریضوں کو پانچ ہزار روپے کے گفٹ باکس (کورونا کِٹ) کا بھی اعلان کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے عوامی قائد ‘ جو انتخابات میں مسلسل تقاریر کرتے نہیں تھکتے ‘ عوام کو کورونا سے بچنے کیلئے کیوں ترغیب نہیں دے رہے ہیں؟