امریکہ جیسے کچھ ممالک میں، لوگ اپنے منہ پر ماسک لگائے بغیر تفریح کر رہے ہیں اور گھوم پھر رہے ہیں، جیسے کورونا کی وبا ختم ہو چکی ہو اور اب ہر طرف آزادی سے چلا پھرا جا سکتا ہے۔ جو دو ویکسینیں ملی ہیں، اس کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اب کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹی اے گریبروسس نے ابھی پوری دنیا کو متنبہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دوسرے سال کا کووڈ19 ، پچھلے سال کے وبا پھیلانے والے وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ کورونا کی اس وبا کے سر پر اب ایک نیا سینگ اگنے لگا ہے‘ یعنی B.1.617.2 ۔ یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور زیادہ تباہی مچاتا ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر بھارت اور اس جیسے افریقہ اور ایشیا کے دوسرے ممالک کے شہروں اور دیہات میں یہ نیا انفیکشن پھیل گیا تو پھر کیا ہو گا؟ یہ پھیلائو کیا نتائج لائے گا؟ ہمارے دیہات میں بسنے والے کروڑوں لوگ خدا کے بھروسے ہو جائیں گے۔ نہ ان کے پاس دوائیں ہیں، نہ ڈاکٹر ہیں نہ ہی ہسپتال۔ ان کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہے کہ وہ شہروں میں آ کر اپنا علاج کروا سکیں۔ اس وقت بھارت میں کورونا کے حوالے سے 18 کروڑ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر کورونا کا کوئی تیسرا حملہ ہوتا ہے تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ صرف بھارت ہی دنیا کا سب سے زیادہ دکھی ملک بن جائے گا۔ بھارت کو اپنے کئے پر افسوس ہو سکتا ہے۔ انہوں نے درجنوں ممالک میں 60 ملین سے زائد ویکسینیں تقسیم کیں۔ اب بھی بہت سارے ممالک کے پاس کروڑوں ویکسینوں کا ذخیرہ ہے لیکن وہ انہیں بھارت کو دینے سے گریزاں ہیں۔ روس جیسے ممالک دے رہے ہیں لیکن بھارت میں جس ویکسین کی قیمت 100-150 روپے ہے وہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ کچھ بھارتی کمپنیوں، جو صرف برآمد کیلئے ریمیڈیسویر انجکشن تیار کرتی ہیں، کو ابھی تک ہندوستانی حکومت نے ملک کے اندر ہی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ممبئی ہوائی اڈے پر لاکھوں انجکشن دھول چاٹ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک ہندوستان کو آکسیجن ساز و سامان، دوائیں، کورونا کٹ وغیرہ پیش کر رہے ہیں، لیکن وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہندوستان کے بزرگوں کو پہلے ویکسین لگائی جانی چاہئے۔ ان ممالک کے بچوں اور نوجوان کو اتنا خطرہ نہیں جتنا بھارت کے بزرگ کو ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ فرانس اور سویڈن کی تقلید کریں۔ جو کچھ بھی ہو، ہندوستان کے 140 کروڑ عوام کو کمر بستہ ہونا پڑے گا۔ اگر کوئی تیسرا حملہ ہوتا ہے تو پھر اس کا بھی جرأت سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ویکسین، انجکشن، آکسیجن وغیرہ، ماسک کے ساتھ، جسمانی فاصلے، یوگ، کاڑھا، گھریلو علاج کو اپنانا چاہئے اور اپنے حوصلے بلند رکھنے چاہئیں۔
کورونا اور ورلڈ فیملی
ایسا لگتا ہے کہ شاید ہندوستان اور جنوبی افریقہ کا مطالبہ مان لیا جائے گا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ان دونوں ممالک نے مطالبہ کیا تھا کہ کورونا ویکسین کی اجارہ داری ختم کی جائے اور دنیا کا کوئی بھی ملک یہ ویکسین بنا سکے، اسے یہ استثنیٰ دیا جانا چاہئے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قواعد کے مطابق، کوئی بھی کسی کمپنی کی دوا کی کاپی نہیں کر سکتا ہے۔ پیٹنٹ کروانے سے پہلے ہر کمپنی کسی بھی دوا کی تلاش میں لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ جب وہ تیار ہو جاتی ہے تو اسے بیچ کر بڑا منافع کماتی ہے۔ اسے دوسروں کو یہ فائدہ اٹھانے کیوں دینا چاہئے؟ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور سائوتھ افریقہ کے اس مطالبے کے خلاف امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، جاپان، سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ امیر ممالک اپنی محنت سے کمائی جانے والی رقم کو لٹتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے ہیں لیکن پاکستان، منگولیا، کینیا، بولیویا اور وینزویلا جیسے ممالک نے اس مطالبے کی حمایت کی۔ اب سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کی پالیسی کو الٹا دیا ہے۔ اگر امریکہ اپنا پیٹنٹ ترک کرنے پر راضی ہے تو پھر دوسری اقوام اس کی پیروی کیوں نہیں کریں گی؟ اب برطانیہ اور فرانس جیسی اقوام نے بھی ہندوستان کی حمایت کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ اب دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ کورونا کی وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ مالدار ممالک میں آدھی درجن کمپنیاں 6-7 بلین ویکسین تیار نہیں کر سکیں گی۔ اب قریب آدھے درجن ممالک ہیں، جیسے کینیڈا، بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا وغیرہ‘ جو کورونا ویکسین بنائیں گے‘ لیکن یہ ضروری ہے کہ انہیں پیٹنٹ کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 164 ممبر ممالک میں سے کسی نے اعتراض کیا تو انہیں یہ اجازت نہیں ملے گی۔ جرمنی کو اعتراض ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ دنیا کی بہت سی کمپنیاں یہ ویکسین نہیں بنا پائیں گی، کیونکہ ان کے پاس خام مال نہیں ہو گا، نہ ہی کوئی ٹیکنالوجی ہو گی اور نہ ہی کوئی فیکٹریاں۔ خوف یہ ہے کہ کچی پکی اور جعلی ویکسینیں عالمی منڈی کو بھر دیں گی اور مرنے والے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ یہ استدلال بے بنیاد نہیں ہے، لیکن جس ملک کی کمپنی یہ ویکسین تیار کرے گی وہ اسے پیرنٹ کمپنی کی ہدایت پر بنائے گی اور اس ملک کی حکومت کی کڑی نگرانی میں بنائی جائے گی۔ ان ویکسینوں کی قیمت اتنی کم ہو گی کہ غریب ممالک بھی ان کو اپنے شہریوں میں مفت تقسیم کر سکیں گے۔ اس وقت‘ ترقی یافتہ ممالک سے فراخدلی کی توقع کی جا رہی ہے۔ وہ اپنی کمپنیوں سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے کورونا سے سبق نہیں سیکھا؟ وہ اپنی اجارہ داری قائم کر کے یہ رقم جمع توکر لیں گے، لیکن اگر انہیں اوپر سے کال آ جاتی ہے تو وہ اس رقم سے کیا کریں گے؟ انہیںبھارت کی طرف دیکھنا چاہئے۔ کیا بھارت نے کئی ضرورتمند ممالک میں کروڑوں ویکسینیں مفت میں تقسیم کی ہیں یا نہیں؟ اس کورونا وبا کا عظیم پیغام یہ ہے کہ آپ اپنی فیملی کی طرح پوری دنیا کے ساتھ مل کر کام کریں۔ وسودیوکٹم بکم یا ورلڈ فیملی!
کیا سکاٹ لینڈ برطانیہ سے الگ ہو جائے گا؟
برطانیہ ایک بڑا ملک ہے۔ یہ چار ریاستوں برطانیہ، سکاٹ لینڈ، ویلش اور شمالی آئرلینڈ کا مجموعہ ہے۔ ان چار ریاستوں کا کبھی ایک الگ وجود تھا۔ ان کی اپنی حکومتیں تھیں‘ اپنی زبان اور ثقافت تھی‘ لیکن برطانیہ کے قیام کے بعد، ان ریاستوں کی حیثیت برطانیہ کے صوبوں کی طرح ہو گئی۔ ان قوموں پر انگلینڈ کی زبان، ثقافت اور روایت کا غلبہ رہا، لیکن سکاٹ لینڈ کے عوام کو ہمیشہ اپنی شناخت پر فخر تھا اور انہوں نے اپنی خود مختاری کے لیے جدوجہد بھی کی۔ یورپی یونین کی تشکیل کے بعد یا دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سالوں میں، سکاٹ لینڈ کے عوام نے محسوس کیا کہ وہ تجارت اور سیاست کے معاملے میں انگریز کے مقابلے میں نقصان میں ہیں۔ وہ اپنی ریاست کو انگلینڈ سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی، جس نے علیحدگی کے اس مطالبے کا اعادہ کیا، نے ایک بار پھر انتخاب جیت لیا ہے۔ 2007 کے بعد سے وہ مسلسل چوتھی بار جیت چکی ہے، حالانکہ اس نے اپنی 129 ممبران پارلیمنٹ میں 64 نشستیں حاصل کی ہیں، لیکن حکومت انہی کی بنے گی، کیونکہ دوسری جماعتوں کو بہت کم سیٹیں ملی ہیں۔ 2014 میں اسی سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی کے اقدام پر سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا تھا کہ سکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے الگ کیا جائے۔ اس ریفرنڈم میں تقریباً 55 فیصد لوگوں نے علیحدگی کی مخالفت اور 45 فیصد نے آزاد سکاٹ لینڈ کی حمایت کی تھی۔ دریں اثنا سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما نکولا سٹرجن نے تحریک آزادی کو مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کیا سکاٹ لینڈ برطانیہ سے الگ ہو جائے گا؟