یہ خوشخبری ہے کہ بھارت کی آٹھ ریاستوں کے 14 انجینئرنگ کالجوں میں اب پڑھائی کا میڈیم ان کی اپنی زبانیں ہوں گی۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کی پہلی سالگرہ پر اس انقلابی قدم کا کون سواگت نہیں کرتا؟ اب بی ٹیک کے امتحانات میں سٹوڈنٹس ہندی، مراٹھی، تامل، تیلگو، کنڑا، گجراتی، ملیالم، بنگلہ، آسامی، پنجابی اور اڑیہ میڈیم کے ذریعے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ مادری زبان کے میڈیم کا یہ اچھا کام اگر 1947ء میں ہی شروع ہو جاتا اور اسے قانون، ریاضی، سائنس، میڈیکل وغیرہ‘ سبھی سلیبس پر نافذ کر دیا جاتا تو ان سات دہائیوں میں بھارت مہاشکتی بن جاتا اور اس کی خوشحالی یورپ کے برابر ہو جاتی۔ دنیا کا کوئی بھی طاقتور اور خوشحال ملک ایسا نہیں ہے جہاں غیر ملکی زبان کے ذریعے سے پڑھائی ہوتی ہو۔ ہرن پر گھاس لادنے کی بیوقوفی بھارت جیسے سابق غلام ملکوں میں ہی ہوتی ہے۔ اس کے خلاف ڈاکٹر لوہیا نے جو سوبھاشا آندولن (احتجاجی تحریک) چلایا تھا وہ خواب اب حقیقت کے روپ میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جب 1965-66ء میں مَیں نے انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈی میں اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسس کو ہندی میں لکھنے کی مانگ کی تھی تو مجھے نکال باہر کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ ٹھپ ہو گئی تھی لیکن 50، 55 سال بعد اب انقلابی قدم اٹھانے کی ہمت بھاجپا سرکار کر رہی ہے۔ سرکار میں دم اور وژن ہو تو تعلیم میں سے انگریزی کی لازمی پڑھائی پر کل سے ہی پابندی لگائے اور ملک کے ہر بچے کی پڑھائی اس کے مادری زبان میں ہی ہو۔ انگریزی سمیت کئی دیگر غیر ملکی زبانیں رضاکارانہ طور پر پڑھنے کی سہولت یونیورسٹی سطح پر ضرور ہو لیکن اگر بقیہ ساری پڑھائی اپنی زبان کے میڈیم سے ہو گی تو یقین جانیں کہ نوکریوں میں کوٹہ اپنے آپ غیر ضروری ہو جائے گا۔ غریبوں، گرامینوں اور پسماندہ بچوں کیلئے یہ فیصلہ بہتر ثابت ہو گا۔ امتحانات میں فیل ہونے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ کم وقت میں زیادہ پڑھائی ہو گی۔ پڑھائی سے منہ موڑنے والے سٹوڈنٹس کی تعداد کم ہو گی۔ سٹوڈنٹس کی بنیاد مضبوط ہو گی۔ وہ نئی نئی تحقیقات جلدی جلدی کریں گے لیکن بھارت کی تعلیم میں ان اصلاحات کیلئے سرکار میں ناقابل تسخیر قوتِ ارادی کی ضرورت ہے۔ راتوں رات درجنوں سلیبس کی کتابیں، حوالہ کتابیں، ڈکشنریاں، تربیتی سکولز وغیرہ تیار کروانے کا ذمہ وزارتِ تعلیم کو لینا ہو گا۔ علاقائی زبانوں میں تعلیم کا یہ انقلابی پروگرام تبھی مکمل ہو گا جب سرکاری نوکریوں سے انگریزی کی لازمیت ختم ہو گی۔ کیا کسی حکمران یا سرکار میں دم ہے یہ قدم اٹھانے کا؟ اگر آپ نے پارلیمنٹ میں‘ عدالتوں میں‘ سرکاری کام کاج میں اور نوکریوں میں انگریزی کو مہارانی بنائے رکھا تو مادری زبانوں کی حالت نوکرانیوں جیسی ہی بنی رہے گی۔ مادری زبانوں کو آپ پڑھائی کا میڈیم ضرور بنا دیں گے، لیکن اس میڈیم کوکون اپنانا چاہے گا؟
نیتا کیوں نہ سنے جنتا کی آواز
بھارت میں گجرات ہائیکورٹ کے جسٹس پریش اپادھیائے نے ایک مقامی معاملے میں ایسی بات کہی ہے، جس سے صرف گجرات ہی نہیں پورے بھارت کی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ انہوں نے گودھرا کے ایک شہری پروین بھائی کو تو انصاف دلوایا ہی، ساتھ ساتھ انہوں نے دیش کے نیتا اور پولیس کے کان بھی کھینچ دیے ہیں۔ ہوا یہ کہ گودھرا کے مقامی رہنما اور ڈسٹرک کلکٹر کو پروین بھائی پر یہ غصہ تھا کہ وہ بار بار ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی شکایتیں سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ عوام کے ضروری اور قانونی کام کو پورا کرانا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ گودھرا کے مقامی رہنما اور سرکاری اہلکار ان سے اتنے زیادہ ناراض ہوئے کہ مقامی رہنما سی کے راول جی کے بیٹے سے ان کے خلاف ایک ایف آئی آر تھانے میں درج کروا دی گئی۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر انہیں ایک پولیس ایکٹ کے تحت ضلع بدر یا جلا وطن کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ پروین بھائی کو عدالت کی پناہ میں جانا پڑا۔ ابھی عدالت نے اس معاملے میں اپنا آخری فیصلہ نہیں سنایا لیکن پہلی شنوائی کے دوران جسٹس اپادھیائے نے سرکار سے کہا ''آپ کو ایمپائرز نہیں چلانی ہیں۔ یہ جمہوریت ہے۔ آپ لوگوں کو بولنے سے نہیں روک سکتے۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ کلکٹر اور مقامی رہنما کو پھٹکار لگائی اور کہا کہ آپ کے مقامی لوگ اگر آپ سے سوال نہیں پوچھیں گے تو کس سے پوچھیں گے؟ اپنے شہریوں کا خیال رکھنے کے بجائے ڈسٹرکٹ کلکٹر نے رہنما کے بیٹے کے دباؤ میں آ کر جلاوطنی کا حکم جاری کیسے کر دیا؟ اس حکم کو‘ جو کہ گجرات پولیس ایکٹ (1951ء) کی دفعہ 56 (9) کے تحت جاری کیا گیا تھا، عدالت نے خارج کر دیا ہے۔ اس دفعہ کے تحت ان لوگوں کو شہر یا گاؤں نکالا دے دیا جاتا ہے، جن کے وہاں رہنے سے فرقہ وارانہ دنگے یا انارکی پھیلنے کا خدشہ ہو۔ اب ان نیتاؤں اور نوکر شاہوں سے کوئی پوچھے کہ شہری کی شکایتوں، درخواستوں یا الزامات سے ان کے شہر کی کون سی شانتی میں بھنگ پڑتی ہے؟ ہاں! ان کی ذہنی شانتی ضرور خراب ہوتی ہے۔ اسی لیے کسی سائل کی ذاتی شکایت سننا اور اسے دور کرنا تو بڑی بات ہے‘ آج کل عوامی عدالت کی روایت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ وزیراعظم اور سبھی وزیر ہفتے میں ایک یا دو دن کھلا جنتا دربار ضرور لگائیں، ایسا قانون سارے ملک میں لاگو کیا جائے۔ منتخب ہو جانے کے بعد سبھی نیتاؤں کا رنگ بدل جاتا ہے۔ وہ عوامی خادم سے عوامی مالک بن جاتے ہیں۔ وہ جنتا کے نوکر بننے کے بجائے نوکر شاہوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ نوکر شاہوں اور نیتاؤں کی جگل بندی کے نقار خانے میں عوام کی آواز مریل طوطی بن کررہ جاتی ہے۔ اگر کوئی طوطی تھوڑا بھی بول پڑتی ہے تو نیتا اور نوکر شاہ کی ملی بھگت اس کا گلا دبانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
نتیش کے نئے تیور پر سوال
بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار بڑے مزیدار نیتا ہیں۔ وہ کئی ایسے اچھے کام کر ڈالتے ہیں جنہیں کرنے سے بہت سے رہنما ڈرتے رہتے ہیں۔ اپنے ملک میں کتنے وزرائے اعلیٰ ہیں جو عوامی عدالت (جنتا دربار) لگانے کی ہمت کرتے ہیں؟ عام آدمی کا تو ان سے ملنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ ان کے ٹیلی فون آپریٹر اور نجی سیکرٹری ہی زیادہ تر لوگوں کو ٹرخا دیتے ہیں۔ کل پٹنہ میں نتیش کے جنتا دربار میں ایسے کئی قصے سامنے آئے۔ کچھ شہریوں نے کہا کہ افسروں نے ہم سے رشوتیں مانگی ہیں اور جب ہم نے کہا کہ یہ بات وزیراعلیٰ کو بتائیں گے تو افسروں نے کہا کہ جاؤ چاہے جس کو مرضی بتاؤ۔ یہاں پیسہ رکھو گے تو ہی کام ہو گا۔ نتیش نے اپنی سرکار کے چیف سیکرٹری اور دیگر افسران کو ایسے سبھی معاملوں پر فوراً سخت کارروائی کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ تقریباً تین سال پہلے پٹنہ میں نتیش جی سے میں نے کہا: بھائی! آپ نے سارے بہار میں شراب پر پابندی لاگو کر دی ہے لیکن پٹنہ کے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں شراب نوشی جاری ہے۔ اب غریب عوام لٹیں گے اور مہنگی شراب پینے کے لیے پٹنہ آئیں گے۔ انہوں نے فوراً حکم دے کر پٹنہ میں بھی شراب بندی نافذ کروا دی۔ اسی طرح جب وہ ریل منتری تھے تو انہوں نے میرے مشورے پر ریل کے ہر کام میں ہندی کو پہلے اور انگریزی کو پیچھے کر دیا۔ اسی طرح صحافیوں کے پوچھنے پر انہوں نے پیگاسُس جاسوسی پر بھی ایسی بات کہی جس پر بھاجپا گٹھ بندھن کے سبھی وزیر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مدعے پر پارلیمنٹ میں بحث کیوں نہ ہو؟ انہوں نے ٹیلی فونک جاسوسی پر اپنی بات اس ادا سے کہی جیسے پردیشوں میں ایسی کوئی جاسوسی ہوتی ہی نہیں۔ وہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی چھان بین کو بھی ٹال گئے لیکن ان کے یہ کہنے کے کئی مطلب نکالے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ نتیش اب کہیں اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کی تیاری تو نہیں کر رہے۔ ان کو قلابازی کھانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ وہ کب کس کے ساتھ ہو جائیں‘ کچھ پتا نہیں۔ان کی ذاتی مردم شماری کی مانگ کا بھی یہی مطلب نکالاجا رہا ہے کہ وہ ملک کے سبھی پسماندہ گروہوں کو اپنے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے کسی تیور کی تشریح کرتے ہوئے کچھ لوگ انہیں اگلا وزیراعظم بنانے کا اعلان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اچھا ہوا کہ نتیش نے اس خیالی پلائو کو دوٹوک رد کردیا ورنہ بہار میں ان کا وزارتِ عُلیہ کا عہدہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔