اڑھائی مہینے سے بھارت کی لڑھکتی ہوئی خارجہ پالیسی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بات میرے لئے خاص خوشی کی ہے‘ میں برابر پہلے دن سے لکھ رہا تھاکہ بھارت سرکار کو طالبان سے سیدھی بات کرنی چاہئے لیکن نوکر شاہوں کیلئے کوئی بھی پہل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کسی تجربہ کار سیاسی رہنما کیلئے ہوتا ہے۔ جو بھی ہو‘ اس وقت دو مثبت واقعات ہوئے ہیں‘ پہلے ماسکو میں طالبان کے ساتھ بھارت کی بات چیت اور دوسرا امریکہ‘ اسرائیل‘یو اے ای اور بھارت کے نئے چوکورکی شروعات۔جہاں تک ماسکو میٹنگ کا سوال ہے اس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لا روف نے صاف صاف کہا ہے کہ طالبان کی سرکار اور پالیسیاں جمہوری ہونی چاہئیں اور ان میں سارے قبیلوں اور لوگوں کو ہی نمائندگی نہیں ملنی چاہئے بلکہ مختلف سیاسی قوتوں کا بھی اس میں حصہ ہوناچاہئے یعنی حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ جیسے رہنماؤں کو بھی حکومت میں حصہ داری ملنی چاہئے۔ طالبان سرکار میں کچھ تجربہ کار اور عوام میں مقبول لوگ ہونے چاہئیں۔ روسی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اب افغانستان کے پڑوسی ملکوں میں دہشت گردی قطعی نہیں ہونی چاہئے۔اس میٹنگ میں چین‘ پاکستان اور ایران سمیت دس ممالک شامل ہوئے۔ روس نے وہی بات اس میٹنگ میں کہی جو بھارت کہتا رہا ہے۔ بھارت کے نمائندے جے پی سنگھ‘ جنہیں کابل میں ڈپلومیسی کا لمبا تجربہ ہے‘ نے ماسکو آئے طالبان رہنماؤں سے کھل کر بات کی اور افغان عوام کی مدد کیلئے اناج اور دوائیاں بھیجنے کا اعلان کیا۔ اگر اگلے کچھ ہفتوں میں طالبان سرکار کا برتائو ٹھیک ٹھاک دکھا ئی دیاتو کوئی حیرانی نہیں کہ اسے بین لااقوامی سطح پر منظوری ملنی شروع ہو جائے‘ لیکن افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے حال ہی میں طالبانی کھیر میں کچھ نیم کی پتیاں ڈالی ہیں۔ انہوں نے ایسے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے پریوار والوں کوامداددی ہے جنہوں نے پچھلی سرکار کے فوجیوں اور دوسرے لوگوں پر جاں لیوا حملے کئے تھے۔ ایسی مشتعل کارروائی سے فی الحال انہیں بچنا چاہئے تھا۔ اگر بھارت سرکار اپنا سفارت خانہ کابل میں پھر سے کھول دے تو طالبان کو مناسب صلاح دے سکتے ہیں لیکن بھارت کو دو باتوں کا دھیان ضرور رکھنا ہوگا‘ ایک تو وہ امریکہ کا چپو ہونے سے بچتا رہے اور دوسرا اس نئے اتحاد کو ایران کے خلاف مورچہ بندی نہ کرنے دے۔
قومی سلامتی اجلاس، بڑی پیش رفت
پچھلے ڈھائی مہینے سے بھارتی خارجہ پالیسی بغلیں جھانک رہی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اب وہ آہستہ آہستہ پٹری پر آنے لگی ہے۔ جب سے طالبان کابل میں قابض ہوئے ہیں افغانستان کے سارے پڑوسی دیش ا ور تینوں بڑی طاقتیں لگاتار سرگرم ہیں۔ وہ کچھ نہ کچھ قدم اٹھا رہی ہیں لیکن بھارت کی پالیسی خالص پچھلگو بنی رہی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ کہتے رہے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ہے؛ بیٹھے رہو اور دیکھتے رہو!میں کہتا رہا کہ یہ پالیسی ہے لیٹے رہو اور دیکھتے رہو کی۔ چلو کوئی بات نہیں دیر آید درست آید‘ اب بھارت سرکار نے نومبر میں افغانستان کے سوال پر ایک میٹنگ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کیلئے اس نے پاکستان‘ ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ چین اور روس کے سکیورٹی صلاحکاروں کو مدعو کیا ہے۔ اس دعوت پر میرے دو سوال ہیں: پہلا یہ کہ صرف سکیورٹی صلاحکاروں کو کیوں بلایا جا رہا ہے‘ان کے وزرائے خارجہ کو کیوں نہیں؟ ہمارے این ایس اے بنیادی طور پر نوکرشاہ ہیں اور نوکر شاہ فیصلے نہیں کرتے‘یہ کام نیتاؤں کا ہے۔ نوکر شاہوں کاکام فیصلوں کو نافذ کرنا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب چین اور روس کو بلایا جا رہا ہے تو امریکہ کو بھارت نے کیوں نہیں بلایا؟ کیا امریکہ کو اس لئے نہیں بلایا جا رہا کہ بھارت ہی اس کا ترجمان بن گیا ہے؟ امریکی مفادات کی حفاظت کا ٹھیکا کہیں بھارت نے تو نہیں لے لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قدم بھارت کے آزاد وجود اور اس کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ پتا نہیں پاکستان ہماری دعوت قبول کرے گا یا نہیں‘ اگر پاکستان آتا ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہے۔ طالبان کے کابل میں برسر اقتدار ہوتے ہی میں نے لکھا تھا کہ بھارت کو پاکستان سے بات کرکے کوئی مشترکہ پہل کرنی چا ہئے۔ کابل میں انارکی بڑھے گی تو اس کا سب سے زیادہ منفی اثر پاکستان اور بھارت پر ہی ہوگا۔ دونوں ملکوں کا درد یکساں ہو گا تو یہ دونوں ملک مل کر اس کی دوا بھی کیوں نہ کریں؟ اسی لئے میری طرف سے مبارکباد ! اگر طالبان کے سوال پر دونوں دیش تعاون کریں اور مسئلہ کشمیر کا حل بھی نکل آئے۔ اس وقت افغانستان کو سب سے زیادہ ضرورت خوردنی اشیا کی ہے۔ قحط کا دور وہاں شروع ہو گیا ہے۔ یورپی ممالک غیر طالبان تنظیموں کے ذریعے مدد پہنچا رہے ہیں لیکن بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھاہے۔ مختلف ممالک کے سکیورٹی صلاحکاروں کی میٹنگ میں بھارت کیاکیا مدعے اٹھائے اور ان کی پالیسی کیا ہو اس پر ابھی سے ہمارے وچاروں میں وضاحت ہونی ضروری ہے۔
پلاسٹک: بہار سے سیکھے پورا بھارت
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کچھ ایسے جرأت مندانہ اقدامات کئے ہیں جن کی تقلید ملک کے سبھی وزرائے اعلیٰ کو کرنی چاہئے۔ ان اقدامات کو جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے پڑوسی ممالک بھی اٹھا لیں تو ہمارے ان سبھی ممالک میں بے مثال سدھار ہوسکتا ہے۔تقریباًپانچ سال پہلے نتیش نے بہار میں شراب بندی نافذ کی تھی۔ ان دنوں میں ان سے پٹنہ میں ملا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے بہار کے گاؤں اور قصبوں میں توشراب بندی کر دی لیکن پٹنہ کے بڑے ہوٹلوں کو چھوٹ کیوں دے رکھی ہے؟ اب گاؤں کے لوگ شراب کیلئے پٹنہ آئیں گے اور ان کی جیبیں زیادہ کٹیں گی۔ نتیش جی نے فوراً افسروں کو بلا کر میرے سامنے ہی مکمل شراب بندی کے احکامات جاری کروادیے۔ اب نتیش کمار نے ایک اور کمال کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بہار میں 14 دسمبر 2021ء سے پلاسٹک‘تھرماکول کی پیداوار‘ ذخیرہ‘ خرید و فروخت اور استعمال پر پوری پابندی لگادی ہے۔ جو اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اس پر پانچ لاکھ روپے کاجرمانہ ہو گا یا ایک سال کی سزا یا دونوں ایک ساتھ ہوں گے۔ یہ اعلان جون میں ہوا تھا‘ دیکھئے اس کا کیسا زبردست ہوا ہے۔ ابھی پانچ مہینے بھی نہیں گزرے کہ پلاسٹک کی چیزوں کی پیداوار 70 فیصد گھٹ گئی ہے۔ بہار کے جو 70 ورکرزپلاسٹک کی تھیلیاں‘ کٹوریاں‘ پلیٹیں‘ جھنڈے‘ پردے‘ پڑیا وغیرہ بناتے تھے ان کی تعداد گھٹ کراب صرف 20 ہزار رہ گئی ہے۔ تقریباً 15 ہزار کاروباریوں نے اب کاغذ‘ گتے اور پتوں کے دونے‘ پلیٹ‘ کٹوریاں وغیرہ بیچنا شروع کردی ہیں۔ اگلے دو مہینوں میں ہوسکتا ہے کہ بہار پلاسٹک مکت ہی ہوجائے۔ لوگ پلاسٹک کی تھیلوں کی جگہ کاغذ اور کپڑوں کی تھیلیاں استعمال کرنا شروع کردیں جیسا کہ اب سے 40‘50 سال پہلے کرتے تھے۔ پلاسٹک کی بوتلوں اور کپ پلیٹوں کی جگہ اب مٹی اور کاغذ سے بنے برتنوں کا استعمال ہونے لگے گا۔ اس نئی مہم کی وجہ سے ہمارے لاکھوں کمہاروں‘ بڑھئیوں اور درزیوں کے چھوٹے کارخانے پھر سے چل پڑیں گے۔ لوگوں کا روزگار بڑھے گا۔ فیکٹریاں ضرور بند ہوں گی لیکن وہ اپنے لئے نئی چیزیں بنانے کی تکنیک تلاش لیں گی۔ سب سے بڑا فائدہ بھارت کے عوام کو یہ ہوگا کہ وہ کینسر‘ لیور‘ کڈنی اور دل کی بیماری جیسے مہلک امراض کا شکار ہونے سے بچیں گے۔ پلاسٹک کی کروڑوں تھیلیاں سمندر میں اکٹھی ہوکر سمندری مخلوق کو تو مارتی ہیں ان کے جلنے سے ہمارا ماحول بھی زہریلا ہو جاتا ہے۔ سرکاریں بہار کے راستے کو اپنا راستہ ضروربنائیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ بھارت کے عام لوگ پلاسٹک کی چیزوں کا استعمال خود ہی بند کردیں تو ان کے خلاف قانون بنے یا نہ بنے ملک پلاسٹک مکت ہو ہی سکتا ہے۔