ڈیرہ سچا سودا کے گورمیت رام رحیم سنگھ کو اب عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔ وہ پہلے دو خواتین سے زیادتی اور ایک صحافی کے قتل کے جرم میں 20 سال کی سزا بھگت رہا تھا۔ اب اسے اپنے نام نہاد آشرم کے ایک عہدیدار کے قتل کے الزام میں دوبارہ سزا ہوئی ہے۔ پربندھک رنجیت سنگھ پر رام رحیم سنگھ اس لئے غصے ہوا کہ اپنی بہن کے ذریعے اس نے پردھان منتری اٹل بہاری واجپائی کو ایک خفیہ چھٹی لکھوائی تھی جس میں رام رحیم سنگھ کے سارے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا گیا تھا۔ وہ چٹھی عام بھی ہو گئی تھی۔ اسی بات سے چڑ کر رام رحیم سنگھ نے اپنے چار لوگوں کو رنجیت کے قتل کی ذمہ داری سونپی۔ 10 جولائی 2002ء کو گولی مار کر رنجیت کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اب 19 سال بعد ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر عدالت نے ان پانچوں قاتلوں کو سزا سنائی ہے۔ رام رحیم سنگھ نے عدالت سے رحم کی اپیل کی تھی۔ عدالت نے اسے پھانسی پر نہیں لٹکایا‘ صرف جیل میں رہنے کے لیے کہا ہے۔ کیا یہ سزا ہے؟ نہیں! یہ تو بہت بڑا انعام ہے۔ رام رحیم سنگھ کو خوش ہونا چاہئے کیونکہ اب اسے جیل کا مفت کھانا ملے گا، کپڑے ملیں گے اور اگر بیماری کا بہانہ بنا لے تو مفت دوا‘ دارو ملے گی۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسے پکی سکیورٹی ملے گی۔ جن درجنوں لڑکیوں کے ساتھ اس نے زیادتی کی اور جن لوگوں کا اس نے قتل کیا یا کرایا‘ ان کے رشتے دار چاہتے ہوئے بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکیں گے۔ جیل کے اندر گھس کر اس مجرم کو کیسے ماریں گے؟ اب رام رحیم سنگھ جتنے سال بھی جیل کاٹے گا‘ آرام سے رہے گا۔ اسے ڈیرہ سچا سودا کی طرح کوئی ڈھونگ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وہ سادہ زندگی جی سکے گا۔ پاپ کرموں سے وہ اپنے آپ کو دور رکھ سکے گا لیکن ایک ڈر ہے کہ بدنام زمانہ قاتل، سمگلر، ڈکیت، ٹھگ وغیرہ کسی بھی جیل میں اپنی حکومت قائم کر لیتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے دہلی کی ایک جیل کے درجنوں اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا کیونکہ دو ٹھگوں کے اشارے پر وہ ان کا پورا کاروباری نظام وہاں سے چلا رہے تھے لیکن میری تجویز ہے کہ رام رحیم سنگھ جیسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اب اپنی بقیہ زندگی سادہ طریقے سے جئیں۔ ان سے جو بھی پاپ ہوئے‘ انہیں وہ بھول جائیں اور جو اچھے کرم کیے ہیں انہیں وہ یاد کریں۔ انہوں نے اپنا پاکھنڈ خوب پھیلایا لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ہاتھوں کچھ اچھے اور قابل ذکر کام بھی ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے غلط کاموں سے اپنی زندگی برباد کی لیکن وہ نیکی اور پارسائی کا جو ڈھونگ رچاتے رہے اس کی وجہ سے سینکڑوں‘ ہزاروں لوگوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ سدھار بھی ضرور آیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی وجہ سے دھرم اور مذہب کا نام خراب ہوا لیکن بھارت میں اب بھی کئی پرم پاون سنیاسی، سادھو، پنڈت اور گورو جن ہیں جو کروڑوں لوگوں کے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔ یہ واقعات تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ایک سنگین وارننگ کی طرح ہیں۔ ہر کسی چمتکاری‘ ڈھونگی شخص پر یقین کرنے سے پہلے اس کے طرزِ عمل کو تجربے کی بنیاد پر تولئے۔ اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو وہ خود تو ڈوبے گا ہی‘ آپ کو بھی لے ڈوبے گا۔
عامر خان اور پٹاخے بازی
مشہور فلم اداکار عامر خان دیوالی پر پٹاخے بازی کے خلاف کسی ٹائر کمپنی کی پہل پر ٹی وی چینلوں پر اشتہار دے رہے ہیں۔ اس میں وہ ملک کے کروڑوں لوگوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ دیوالی کے موقع پر وہ سڑکوں پر پٹاخے بازی نہ کریں۔ اندھا دھند پٹاخے بازی سے سڑکوں پر ٹریفک میں تو رکاوٹ پڑتی ہی ہے‘ پلوشن بھی پھیلتی ہے اور دھماکوں سے لوگ بھی مر تے ہیں۔ اس وقت ویسے بھی دہلی جیسے شہروں کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پٹاخوں کے نام پر ہم چینی پٹاخہ امپورٹ کرنے والوں کی جیبیں موٹی کرتے ہیں۔ آج کل جب جب بھارتی اداکار لوگ بنیان‘ جوتے‘ چپل کا اشتہار کرتے ہیں تو انہیں دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے۔ صرف پیسہ کمانے کیلئے وہ اپنی مقبولیت کا سودا کرنے لگتے ہیں۔ میں سینما برابر نہیں دیکھتا ہوں لیکن پھر بھی عامر خان کو تھوڑا الگ قسم کا اداکار مانتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ عامر خان کی طرح ہمارے سبھی اداکار اور اداکارائیں ایسے اشتہاروں میں حصہ لیں جو عام لوگوں کو سماج سدھار کے لیے ابھاریں، اس سے جرائم گھٹیں گے اور سرکار کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا‘ لیکن عامر خان نے جو مانگ کی ہے‘ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔
ساورکر تنقید کی زد میں
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ساورکر پر لگائے جانے والے الزامات کا سخت جواب دیا۔ انہوں نے ساورکر کو بے جوڑ راشٹر بھگت اور شاندار آزادی پسند بتایا ہے لیکن کئی کانگرسی مانتے ہیں کہ ساورکر برٹش سرکار سے معافی مانگ کر کالا پانی اور نیکوبار کی جیل سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے ہندوتوا کی تنگ نظر فرقہ واریت پھیلائی تھی اور مہاتما گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کو اشیرباد دیا تھا۔ گاندھی قتل کیس میں ساورکر کو بھی پھنسا لیاگیا تھا لیکن بعد میں انہیں باعزت بری کرتے ہوئے جسٹس کھوسلہ نے کہا تھا کہ اتنے بڑے آدمی کو فضول ہی اتنا ستایا گیا۔ خودگاندھی جی ساورکر سے 1909ء میں لندن کے ''انڈیا ہاؤس‘‘ میں ملے تھے اور 1927ء میں وہ ان سے ملنے رتناگری میں ان کے گھر بھی گئے تھے۔ دونوں میں تشدد اور اس وقت کی فرقہ پرستی کولے کر گہرا اختلاف تھا۔ ساورکر اکھنڈ بھارت کے کٹر پرچارک تھے، وہ مسلمانوں کے نہیں‘ مسلم لیگیوں کے مخالف تھے۔ ہندو مہاسبھا کی اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ ان کے عالمی شہرت یافتہ 'گرنتھ 1857ء کی سواتنتریا ثمر‘ میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر، اودھ کی بیگموں اور کئی مسلم فوجی افسروں کی بہادری کا ذکر کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ساورکر کا ہندوتوا ہی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بنیاد بنا لیکن ساورکر کا ہندوتوا تشدد انگیز نہیں تھا۔ ساورکر کی سوچ پر آریہ سماج کے پرورتک مہارشی دیانند اور ان کے بھگت شیام جی کرشن ورما کا گہرا اثر تھا۔ وہ ایسے مکت وچارک اور دانشور تھے کہ ان کے سامنے وویکانند، گاندھی اور امبیڈکر بھی کہیں کہیں پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بھی ان کے سبھی وچاروں سے متفق نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک ساورکر کے برطانوی سرکار سے معافی مانگنے کی بات ہے تو اس مدعے پر میں نے کئی سالوں پہلے ''نیشنل میوزیم‘‘ کے خفیہ دستاویزات نکالے تھے اور انگریزی میں تحریریں بھی لکھی تھی۔ ان دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ ساورکر اور ان کے چار ساتھیوں نے برٹش وائسرائے کو اپنی رہائی کیلئے جو خط بھیجا تھا اس پر گورنر جنرل کے خصوصی افسر ریذینالڈ کریڈوک نے لکھا کہ ساورکر جھوٹا افسوس ظاہر کر رہا ہے‘ وہ جیل سے چھوٹ کر یورپ کے آتنگ وادیوں سے جاکر ہاتھ ملائے گا اور سرکارکو الٹانے کی کوشش کرے گا۔ ساورکر کی سچائی کو چھپا کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کئی بار کی گئی۔ بحر بنگال میں کالا پانی یعنی انڈیمان اور نیکوبار جیل سے ان کے نام پٹی بھی ہٹائی گئی لیکن میں تواس کوٹھری کو دیکھ کر سحر زدہ ہو اٹھا تھا جس میں ساورکر نے برسوں کاٹے تھے اور جس کی دیواروں پر گُود کر ساورکر نے کویتائیں لکھی تھیں۔