اس بار گلاسگو میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اجلاس شاید کیوتو اور پیرس اجلاس سے زیادہ معنی خیز ہوگا۔ ان اجلاسوں میں ان ممالک نے سب سے زیادہ ڈینگیں ہانکی تھیں جو دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں۔انہوں نے نہ تو اپنی آلودگی دور کرنے میں کوئی مثال قائم کی اور نہ ہی انہوں نے دوسرے ممالک کیلئے اپنی جیبیں ڈھیلی کیں تاکہ وہ آلودگی سے نمٹ سکیں۔ دولت مند ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو ہر سال100بلین ڈالر دینے کیلئے کہا تھاتاکہ وہ آلودگی کو گھٹاسکیں‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ نے توپیرس سمجھوتے کا ہی بائیکاٹ کردیا۔ یہ سب امیر ممالک چاہتے تھے کہ اگلے تیس سال میں ماحولیاتی آلودگی کی مقدار گھٹے اور ساری دنیا کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ دو ڈگری سنٹی گریڈ تک ہو جائے۔ اس عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری تک گھٹانے کا ٹارگٹ رکھاگیا۔ امریکہ اور یورپی ممالک جو سب سے زیادہ گرمی پھیلاتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ 2050ء تک اپنے درجہ حرارت کوصفر تک لے جائیں گے۔ وہ ایسا کرسکیں تو یہ بہت اچھا ہو گا۔ وہ یہ کر بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسی تکنیک ہے‘ ذرائع ہیں‘ پیسے ہیں‘ لیکن یہی کام وہ اس مدت میں عالمی سطح پر ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں کئی سالوں تک100بلین نہیں‘ 500 بلین ڈالر ہر سال خرچ کرنے پڑیں گے۔ یہ ممالک افغانستان جیسے معاملوں میں بلینز نہیں‘ ٹریلینز بہا سکتے ہیں لیکن ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ساری دنیا میں درجہ حرارت کے اضافے کا الزام انہی کے ماتھے ہے۔ پچھلے دو‘ ڈھائی سو سال میں ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کا خون چوس چوس کر انہوں نے جو اندھا دھند عالمی درجہ حرارت کو بڑھا یا اسی کی نقل دنیا کے سارے ممالک کر رہے ہیں۔ تقریباً 50‘55سال پہلے جب میں پہلی بار امریکہ اور یورپ میں رہا تو میں وہاں یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا تھا کہ لوگ کس لاپروائی سے بجلی‘ پٹرول اور ایئرکنڈیشننگ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اب اس معاملے میں چین ان ممالک کو مات دے رہا ہے‘ لیکن بھارت میں فی کس توانائی کا استعمال ساری دنیا کے کل اوسط سے صرف ایک تہائی ہے۔ بھارت اگر کوئلہ اور پٹرول پر مبنی اپنی توانائی پراتنا ہی کنٹرول کر لے جتنا ترقی یافتہ ممالک کر رہے ہیں تو اس کی صنعتی ترقی رک سکتی ہے‘ کارخانے بند ہو سکتے ہیں اور لوگوں کی زندگی دشوار ہو سکتی ہے۔ اسی لئے بھارت کو اس معاملے میں بڑا پریکٹیکل ہونا ہے۔
مودی اور شی جن پنگ بات کریں
چین کی پارلیمنٹ میں 23 اکتوبر کو جو قانون پاس کیا گیا اسے لے کر بھارتی وزارت خارجہ کافی پریشان ہے۔ اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چینی سرکار نے یہ قانون بناکر بھارت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس نے جس زمین پر قبضہ کیا ہے وہ قانونی ہے اور پکا ہے۔وہ اس پر ٹس سے مس نہیں ہونے والا۔ بھارتی ترجمان نے کہا کہ یہ قانون 3488 کلو میٹر لمبی بھارت‘ چین سرحد کے جھگڑے کو نہ صرف زیادہ الجھا دے گا بلکہ 17 ماہ سے چلے آرہے گلوان گھاٹی ڈائیلاگ کو بھی کھٹائی میں ڈال دے گا۔بھارتی وزارت خارجہ نے اس مدعے پر اپنے خدشات ظاہر کر دیے لیکن میرا خیال ہے کہ اس نئے چینی قانون کے ہونے یانہ ہونے سے سرحدی تنازع پر کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا۔ یوں بھی چین اب تک کیا کرتا رہا ہے وہ بھارت سرکار کے آلکسی پن کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ تبت پر قبضہ کرنے کے بعد 1957ء سے 1962ء تک وہ بھارتی سرحدوں میں گھس کر زمین پر قبضہ کرتا رہا اور نہرو سرکار کچھ نہ کر سکی۔یہ ٹھیک ہے کہ انگریز کے زمانے میں بھی بھارت‘ چین سرحد کا تجزیہ نہیں ہواجیسا کہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں دونوں ملکوں کے فوجی سینکڑوں بار سرحدوں کی جانے انجانے میں خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ چین کے ساتھ بیٹھ کر مکمل تجزیہ کیاجائے تاکہ سرحدی تنازع ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔چینی پارلیمنٹ نے جو نیا قانون بنایا ہے اس میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ لمبے وقت سے چل رہے سرحدی جھگڑوں کو برابری‘ آپسی اعتماد اور دوستانہ بات چیت کے ذریعے سے حل کیاجائے۔بھارتی سرکار کی یہ پالیسی سمجھ سے پرے ہے کہ اس نے سرحدی جھگڑے فوج کے بھروسے چھوڑ دیے ہیں۔ فوجیوں کا کام لڑنا ہے یا بات کرنا ہے؟نریندر مودی نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ درجنوں بارملاقات کی اور دوستی کے رشتے بنائے۔ کیا وہ سب فضول تھے‘ کاغذی تھے‘ بناوٹی تھے؟اگر مودی اور شی کے بیچ سیدھی بات چیت ہوتی تو کیا سرحد کا یہ معاملہ اتنے لمبے وقت تک درمیان میں لٹکا رہتا؟ اب بھی وقت ہے کہ دونوں سیدھے بات کریں۔
پیگاسس جاسوسی : سرکار کی کرِکری
سپریم کورٹ نے بھارت سرکار کی خوب خبر لے لی ہے۔ پچھلے دو سال سے چل رہے جاسوسی کے پیگاسس نامی معاملے میں عدالت نے سرکار کے سارے بہانوں اور ٹال مٹول کو رد کر دیا ہے۔ اس نے کئی افراد‘ تنظیموں اور اہم صحافیوں کی پٹیشن کو قبول کیا۔اس کے بعد جاسوسی کے اس معاملے کی جوڈیشل جانچ کے احکامات دے دیے ہیں۔ یہ جانچ اب سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی صدارت میں ہوگی اور اس کی رپورٹ وہ اگلے دو ماہ میں عدالت کے سامنے پیش کریں گے۔جب سے یہ خبر آئی کہ مودی سرکار نے اسرائیل سے جاسوسی کا پیگاسس نامی سافٹ وئیر خریدا ہے اور وہ بھارت کے سینکڑوں سیاستدانوں‘ اخبار نویسوں‘ صنعتکاروں‘ افسروں وغیرہ کے کمپیوٹرز اور فون پر اس سے اپنی نظر رکھتی ہے‘ ایک ہنگامہ سا کھڑا ہوگیا۔ جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو سرکار ہکلانے لگی۔ وہ ایسے دِکھی جیسا کہ چلمن سے لگی بیٹھی ہے۔ نہ صاف چھپتی ہے اور نہ ہی سامنے آتی ہے۔ 500 کروڑ روپے کے اس قیمتی سافٹ وئیر کیلئے سرکار کہتی ہے کہ وہ سمگلروں‘ ٹھگوں اور مجرموں کو پکڑنے کیلئے اس کا استعمال کرتی ہے۔اگر ایسا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں‘ لیکن پھر سرکار ان ناموں کو عدالت سے بھی کیوں چھپا رہی ہے؟ سرکار کہتی ہے کہ ایسا وہ قومی مفاد میں کررہی ہے لیکن کیا یہ کام جمہوریت مخالف نہیں ہے؟ اپنے مخالفین یہاں تک کہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور اپنے ہی افسروں کے خلاف آپ جاسوسی کررہے ہیں اور آپ عدالت سے یہ حقائق بھی چھپا رہے ہیں۔آپ اس اسرائیلی جاسوسی سافٹ وئیرکا استعمال کررہے ہیں یا نہیں؟ جیسے کسی زمانے میں عورتیں اپنے پتی کا نام بولنے میں ہچکچاتی تھیں ویسے ہی پیگاسس کولے کر بھارتی سرکار کی گھگھی بندھی ہوئی ہے۔ عدالت نے سرکاری رویے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ قومی سلامتی کے نام پر اسے کچھ بھی اوٹ پٹانگ کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس نے سرکار کے اس موقف کو بھی رد کردیا کہ اس معاملے کی جانچ ماہرین کی ایک جماعت سے کروائی جائے۔ ماہرین کو تو کو ئی بھی سرکار متاثر کرسکتی ہے۔اس لیے اب ایک جج اس معاملے کی جانچ کریں گے۔یہ معاملہ صرف سیاستدانوں اور صحافیوں کی جاسوسی کا نہیں‘ ہر ایک شہری کے ہیومن رائٹس کی حفاظت کا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قانون کی حکمرانی کی عزت میں تو چار چاند لگاہی رہا ہے ساتھ ہی سرکار کی مشکلات میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے پوری احتیاط برتے گی تاکہ ذمہ داروں کو محتاط ہوجانے کا موقع نہ مل جائے۔ اس معاملے نے جب طول پکڑا تب میں نے سجھاؤ دیاتھا کہ سرکار تھوڑی ہمت کرتی تو یہ معاملہ آسانی سے سلجھ سکتا تھا۔ سرکار ان بے قصور سیاستدانوں‘ صحافیوں اور دیگر لوگوں سے معافی مانگ لیتی جو بے قصور تھے اور آگے ایسا انتظام کرسکتی تھی کہ کوئی بھی سرکار ویسی غلطی نہ کرسکے۔