ہم آزادی کے 75ویں سال کا جشن منا رہے ہیں اور بھارت میں آج بھی کروڑوں لوگوں کو بھوکے پیٹ سونا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کے بھوک سے مرنے کی خبر بھی کچھ دن پہلے آ ئی تھی۔ کورونا کی وبا کے دوران ہماری سرکار نے کروڑوں لوگوں کو مفت اناج بانٹ کر بھوکے مرنے سے تو ضرور بچایا لیکن کیا دیش کے 140 کروڑ لوگوں کو ایسا کھانا روزانہ مل پاتا ہے جو تندرست رہنے کے لیے ضروری مانا جاتا ہے؟ کیا اچھاکھانا ہم اسے ہی کہیں گے جسے کھانے کے بعد ہمیں نیند آ جائے؟ یا اسے کہیں گے جسے کھانے کے بعد پیٹ میں اور کوئی جگہ نہ رہے؟ یہ دونوں کام جو کر سکے‘ وہ کھانا ضرور ہے لیکن کیا وہ کافی ہے؟ کیا ویسا کھانا پیٹ بھر کر کھانے سے کوئی آدمی تندرست رہ سکتا ہے؟ کیا اس کا جسم لمبے وقت تک محنت کرنے کے قابل بن سکتا ہے؟ کیا ایسا شخص اپنے جسم میں ضروری غذائیت، صلاحیت، وزن اور چستی رکھ پاتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔ آج بھارت کی یہی حالت ہے۔ ورلڈ ہنگر انڈیکس میںاس سال بھارت کا نمبر 101واں ہے۔ بھارت سے بہتر کون ہے؟ ہمارے پڑوسی۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال! یہ رقبے اور آبادی میں بھارت سے بہت چھوٹے ہیں، ان کی قومی آمدنی بھی بھارت سے کم ہے لیکن عام لوگوں کے کھانے، صحت، جسمانی ساخت وغیرہ کے حساب سے یہ تمام ممالک بھارت سے آگے ہیں۔ کل 116 ملکوں کی لسٹ میں بھارت کا نمبر 101واں ہے یعنی دنیا کے 100 دیش بھارت سے آگے ہیں۔ ان سو ملکوں میں سبھی دیش مالدار یا یورپی ملک نہیں ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے غریب ممالک بھی ہیں۔ ورلڈ ہنگر انڈیکس تیار کرنے والی تنظیم چار پیمانوں پر بھوک کی جانچ کرتی ہے۔ ایک، کُل آبادی میں کتنے لوگ غذائی قلت کے شکار ہیں؟ دوسرا، پانچ سال کے بچوں میں کم وزن کے کتنے ہیں؟ تیسرا، ان میں چھوٹے قد کے کتنے ہیں؟ چوتھا، پانچ سال کے ہونے سے پہلے کتنے بچے مر جاتے ہیں؟ ان چاروں پیمانوں کو نافذ کرنے پر ہی پایا گیا کہ بھارت ایک دم نچلے پائیدان پر کھڑا ہے۔ بھارت سرکار نے اس ہنگر لسٹ کو شائع کرنے والے ادارے کے اعداد و شمار کو غلط بتایا ہے۔ ہو سکتا ہے ان کی جانچ‘ پرکھ میں کچھ گڑبڑی ہو لیکن جان بوجھ کر بھارت کو بھوکا دکھانے میں ان کی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ بھارت کے پاس غذائی اجناس تو اس کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ اصلی سوال بھوکے مرنے یا پیٹ بھرنے کا نہیں ہے‘ سوال یہ ہے بھارت کے شہریوں کی خوراک اس کے قابل ہے یا نہیں؟ یعنی انہیں ایسا کھانا ملتا ہے یا نہیں جس سے وہ مضبوط، محتاط اور سرگرم رہ سکیں؟
آریان کیس اور نشہ بندی
آج کل بھارت بھر کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر لگاتار آریان خان کا معاملہ جم کر چرچا ہو رہا ہے۔ آریان اور اس کے کئی ساتھیوں کو نشہ آور اشیا استعمال کرنے کے جرم میں پکڑا گیا۔ ایسے کئی قصوروار ہمیشہ پکڑے جاتے ہیں لیکن ان کا اتنے دھوم دھڑکے سے پرچار نہیں ہوتا لیکن آریان کا ہو رہا ہے کیونکہ وہ مشہور فلم اداکار شاہ رخ خان کا بیٹا ہے۔ سرکار کو اس بات کا کریڈٹ تو دینا پڑے گا کہ اس نے شاہ رخ کے بیٹے کیلئے کوئی لحاظ داری نہیں دکھائی لیکن میں پہلے دن سے سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ جو لوگ نشہ باز ہوتے ہیں‘ انہیں تبھی پکڑاجانا چاہئے جب وہ کوئی جرم کریں۔ اگر وہ صرف نشہ کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا نقصان کرتے ہیں؟ وہ تو صرف اپنا ہی نقصان کرتے ہیں، نشہ اور خود کشی‘ دونوں ہی نامناسب ہیں اور نہ کرنے والے ہیں۔ سخت سزاؤں کے باوجود نشے اور خود کشی کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں‘ انہیں روکا جا سکتا ہے۔ تعلیم اور سنسکار سے۔ اگر بچوں میں یہ سنسکار‘ یہ اقدار ڈال دیے جائیں کہ اگر تم نشہ کروگے تو آدمی سے جانور بن جاؤ گے‘ یعنی جب تک تم نشے میں رہو گے‘ تمہارا آزاد شعور غائب ہو جائے گا، تو وہ اپنے آپ سبھی نشوں سے دور رہیں گے۔ بھارت سرکار کا رویہ عجیب سا ہے کہ الکحل کی دکانیں تو کھلے عام چل رہی ہیں لیکن تقریباً 300 نشہ آور دوائیوں کے استعمال پر اس نے قانونی پابندی لگا رکھی ہے حالانکہ ضرورت ان کی پیداوار، ذخیرہ اندوزی اور تجارت پر پابندی کی ہے؛ البتہ ان کے استعمال کرنے والوں کو مجرم نہیں‘ بیمار مانا جانا چاہئے۔ انہیں جیل میں سڑانے کے بجائے اصلاحی گھروں میں بھیجا جانا چاہئے۔ جیل میں بھی منشیات کا استعمال جم کر ہوتا ہے یعنی قانون پوری طرح سے ناکارہ ہو سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مرکزی سماجی انصاف وزارت نے اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نشے کے معاملوں کو جرم کے زمرے سے نکال کر 'سدھار‘ کے زمرے میں ڈالیے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں نیا قانون لایا جانا چاہئے اور انگریز کے زمانے کے اس فرسودہ قانون کو بدلا جانا چاہئے۔ پرانے قانون سے نشہ بندی تو نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ رشوت خوری اور غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آریان کو چھڑانے کیلئے 25 کروڑ روپے کی رشوت کی خبر بھی سامنے آئی ہے اور پچھلے دنوں گجرات کی بندرگاہ سے 3 ہزار کلو نشہ آور مواد بھی پکڑا گیا ہے۔ نشہ بازی کے معاملے بھی آئے دن سنائی پڑتے ہیں لیکن اس کیس کے بہانے معاملے نے اتنا طو ل پکڑا ہے کہ اس کا جڑ سے حل سامنے دکھائی دینے لگا ہے۔
لیڈر یا فالوور؟
بھارت کے نائب صدرِ مملکت وینکیا نائیڈو نے اپنے پچھلے کئی بھاشنوں میں اس بات پر بڑازور دیا ہے کہ قدیم زمانے میں ہندوستان ایک عالمی لیڈر تھا اور اب بھی اسے وہی کردار نبھانا چاہئے۔ حیرانی ہے کہ ہمارے کوئی بھی وزیر تعلیم اس طرح کے وچارتک ظاہر نہیں کرتے۔ انہیں عملی جامہ پہنانا تو بہت دور کی بات ہے۔کیا ہمارے تعلیم کے منتریوں اور افسروں کو پتا ہے کہ عالمی لیڈر ہونے کا مطلب کیا ہے؟ اگر انہیں پتا ہوتا تو آزادی کے 74سال بعد بھی ہم مغرب کے فالوور کیوں بنے رہتے؟ انگریز راج نے ہماری نس نس میں غلامی اور نقل کا خون دوڑارکھا ہے۔ ہمارے بڑے سے بڑے نیتا احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ ہمارے سائنسدان اور تکنیکی ماہرین مغرب کی نقل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے تقریباً سارے تعلیمی ادارے امریکی اور برطانوی سکولوں اور یونیورسٹیوں کی نقل کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو بہت قابل اور ہنر مند سمجھنے والے لوگ دوسرے دیشوں میں پڑھنے اور پڑھانے کیلئے بیتاب رہتے ہیں۔ ان دیشوں کے سٹوڈنٹس اور ہنرمند کیا کبھی ہندوستان آنے کی بات اس طرح سوچتے ہیں جیسے صدیوں پہلے چین سے فاہیان اور ہیون سانگ آئے تھے؟ بھارت کے تعلیمی اداروں یعنی گورو کلوں کی شہرت چین اور جاپان جیسے ملکوں تک توتھی ہی مصر، اٹلی اور یونان تک بھی تھی۔ افلاطون اور ارسطو کے وچاروں پر ہندوستان کی گہری چھاپ تھی۔ افلاطون کے ''ری پبلک‘‘ میں ہماری کرمنا ورن روایات کا پڑھ کر میں حیران ہوجایاکرتا تھا۔ میکیاولی کا 'پرنس‘ توایسا لگتا تھا جیسے وہ کوٹلیہ کے ارتھ شاستر کا حصہ ہے۔جہاں تک سائنس اور ٹیکنالوجی کا تعلق ہے مغربی ڈاکٹر ابھی سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے تک مریضوں کو بیہوش کرنا نہیں جانتے تھے جبکہ اس خطے کے آیورویدک گرنتھوں نے ڈھائی ہزار سال پہلے یہ چیز بیان کر دی تھی۔ آج سے 400 سال پہلے تک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک تھا۔ سمندری راستوں اور گاڑیوں کا جو علم ہندوستانیوں کو تھا، کسی بھی ملک کو نہیں تھا۔ لیکن مغرب کی لوٹ پاٹ اور دور اندیشی نے ہندوستان کا قد ایک دم بونا کردیا۔ اب آزاد ہونے کے باوجود ہم اسی غلام ذہنیت کے شکار ہیں۔وینکیا نائیڈو نے مغرب کی اسی چیلا گیری کو وارننگ دی اور مقامی تعلیم اور مقامی زبانوں کے احیا پر زور دیا۔