گزشتہ دنوں شام کے وقت جیسے ہی دبئی پہنچے‘ ہوائی اڈے پر ہی محسوس ہونے لگا کہ ہم کسی نئی دنیا میں آ گئے ہیں۔ ہم پچھلے آٹھ‘ دس دن سے اپنی پیاری دلی (دہلی) کے گیس چیمبر میں بند پڑے تھے۔ وہاں سے نکلنے کی یہ صورت نکلی۔ ہماری کوشش رہتی تھی کہ اپنے گوڑگاؤں کے گھر میں ہی قید رہیں۔ سارے دروازے‘ کھڑکیاں اور روشن دان تقریباً بند ہی رکھتے رہے اور گھر میں رہتے ہوئے بھی ماسک لگائے رہتے تھے حالانکہ گھر کے باہر اور پیچھے 20‘ 22 بڑے درخت لگے ہوئے ہیں اور تقریباً 200 گملوں میں طرح طرح کے پودے لہلہا رہے ہیں۔ آکسیجن کی کمی تو نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ گھر سے باہر نکلے تو کہیں زہر کی ندی میں غوطہ نہ لگانا پڑ جائے۔ سڑک کے پار کا منظر اتنا دھندلا ہوتا تھا کہ کچھ دیکھا اور نہ دیکھا ایک برابر ہو جاتا تھا۔ اسی لیے پچھلے دس‘ بارہ دن سے گھنٹے بھر کا گھومنے کا پروگرام بھی تقریباً ملتوی رہا‘ لیکن دبئی کی اس روز کی صبح بھی کیا صبح تھی۔ انٹرنیٹ نے بتایا کہ یہاں آلودگی کا سکور صرف 48 ہے جبکہ دلی میں وہ 500 کو چھو رہا تھا۔ دہلی کے کچھ علاقوں میں رات کے وقت وہ 1000 تک چلا جاتا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ دنیا کے 30 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے 20 تو اکیلے بھارت میں ہی ہیں اور دہلی ان میں سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے۔ دیوالی اور آلودگی کے اس دور میں بدیش میں کئی دوستوں سے بات ہوئی۔ لندن‘ لاس اینجلس‘ فلوریڈا‘ برلن اور زیورخ میں آلودگی کا سکور 50 کے آس پاس ہے۔ چین جیسے ملک میں شہروں میں آلودگی کا سکور 100 سے کم ہے لیکن ہمارے جنوبی ایشیا کے بڑے ملکوں کی حالت خستہ ہے۔ دھیان رہے کہ دہلی بھارت کا دارالحکومت ہے اور اس شہر میں ایک وزیر اعلیٰ رہتا ہے اور ایک وزیر اعظم بھی رہتا ہے۔ جس شہر میں دو دو سرکاریں چل رہی ہوں اس کی ایسی حالتِ زار کیوں ہے؟ یہ سوال سپریم کورٹ نے کافی کڑوی زبان میں اٹھایا ہے۔ امید ہے کہ دونوں سرکاریں کچھ سخت قدم اٹھائیں گی۔ 2019ء میں بھارت کے تقریباً 17 لاکھ لوگوں کی موت کی وجہ یہ زہریلی ہوا تھی۔ اکیلی دہلی میں 17500 لوگ آلودگی کا شکار ہوئے۔ سرکاریں تو کچھ نہ کچھ قدم اٹھا رہی ہیں لیکن اصلی کام عام لوگوں کو کرنا ہے۔ جو لوگ اپنے گھر کے آس پاس درخت لگا سکتے ہیں وہ لگائیں ورنہ ہر گھر کے سامنے پودوں کے درجنوں گملے سجے ہونے چاہئیں۔ ہفتے میں کچھ دن کار اور سکوٹر چلانے کے بجائے پیدل چلیں‘ میٹرو اور بس کا استعمال کریں۔ کسان بھائی پرالی نہ جلائیں‘ اس کا انتظام سرکار کرے۔ ہفتے میں کچھ دن دہلی کے لوگ گھر سے ہی کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ ابھی کچھ دنوں تک جلسے‘ کانفرنسیں اور جلوس وغیرہ ملتوی رکھے جائیں۔ دہلی بھارت کو سکھائے پولوشن کنٹرول۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی اور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے والی نئی دہلی میں گزشتہ برس فضائی آلودگی اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ وہاں صاف ہوا میں سانس لینے کے لیے ایک آکسیجن بار بھی کھل گئی جہاں عام شہری خالص آکسیجن میں سانس لے سکتے تھے اور وہ بھی لوینڈر، لیمن گراس یا کئی دیگر اقسام کے تیل کی خوشبوؤں کے ساتھ۔ مگر اس خالص آکسیجن میں صرف پندرہ منٹ سانس لینے کی قیمت 299 روپے چند شوقین مزاج یا امیر لوگ ہی ادا کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں قدرتی ماحول کی قدر و قیمت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس ماحول کو ہم لوگ اپنی غلط کاریوں سے بے دریغ نقصان پہنچا رہے ہیں اگر اس سے ملتا جلتا ماحول ہمیں بنانا پڑے تو اس پر کتنی لاگت آئے۔
دبئی توچھوٹا موٹا بھارت ہی لگتا ہے!
پچھلے دنوں جب شام کے وقت دبئی پہنچے تو ہم نے اس بار وہ دبئی دیکھا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ کورونا وبا کا کمال تھا۔ یوں تو میں درجنوں بار دبئی اور ابوظہبی آ چکا ہوں لیکن کورونا کا قہر دبئی جیسی ریاست کو ایسے نئے روپ میں ڈھال دے گا ایسی امید نہیں تھی۔ اب سے تقریباً 40 سال پہلے میں ایران سے بھارت آتے ہوئے کچھ گھنٹوں کے لیے دبئی میں رکا تھا۔ جس ہوٹل میں رکا تھا اس سے باہر نکلتے ہی مجھے دوڑ کر اندر جانا پڑا کیونکہ خوفناک گرمی اور دھوپ تھی۔ اس کے علاوہ اس ہوٹل کے آس پاس کھلا ریگستان تھا اور تھوڑی دور سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا‘ لیکن اگر آج آپ دبئی جائیں تو آپ کو سمجھ نہیں آئے گی کہ آپ لندن میں ہیں یا نیویارک میں ہیں یا شنگھائی میں ہیں۔ اُن دنوں بھی بازار وغیرہ تو یہاں تھے لیکن آج کل تو یہاں اتنے بڑے مال بن گئے ہیں کہ انہیں دیکھتے دیکھتے آپ تھک جائیں گے۔ سڑکوں کے دونوں طرف اتنی اونچی اونچی عمارتیں بن گئی ہیں کہ اگر آپ ان کے نیچے کھڑے ہو کر انہیں اوپر تک دیکھ لیں تو آپ کی ٹوپی گر جائے۔ آج کل تو دبئی کے آس پاس جو ریگستانی علاقے تھے انہیں ایک دم ہر ا بھرا کر دیا گیا ہے اور وہاں آزاد پلاٹ کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہمارے کئی دوستوں نے وہاں محل نما بنگلے بنا لیے ہیں۔ جو لوگ بھارت سے صرف کپڑوں کا سوٹ کیس لے کر آئے تھے انہوں نے اپنی محنت اور چالاکی سے اب اتنا پیسہ کما لیا ہے کہ وہ کپڑوں کی جگہ درہم سوٹ کیسوں میں بھر کر گھوم سکتے ہیں۔ یہاں بھارتی کاروباریوں‘ صنعت کاروں‘ افسروں کا بول بالا تو ہے ہی ہمارے بہت سے ملازم اور مزدور بھی کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 200 ملکوں کے لوگ اس متحدہ عرب امارات میں کام کرتے ہیں۔ اس میں تمام مذاہب‘ نسل‘ رنگ اور حیثیت کے لوگ ہیں لیکن ان کے بیچ کبھی تشدد‘ دنگا اور تناؤ وغیرہ کی خبر نہیں آتی۔ سبھی لوگ پیار محبت سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں 30 لاکھ سے بھی زیادہ بھارتی ہیں۔ سات ریاستوں سے مل کر بنے اس متحدہ امارات میں آپ جہاں بھی جائیں‘ آپ کو بھارتی لوگ دِکھتے رہیں گے۔ بھارت کے پڑوسی ملکوں کے لوگ بھی یہاںکافی تعداد میں ہیں لیکن ان کے بیچ بھی کوئی تناؤ نہیں دکھائی دیتا۔ ابوظہبی اس یونین کا صدر مقام ہے لیکن بھارت میں ممبئی کی طرح متحدہ عرب امارات میں دبئی ہی کاروبار اور شان و شوکت کا مرکز ہے۔ آج کل یہاں چل رہی عالمی نمائش کو دیکھنے کے لیے باہر سے کافی لوگ آ رہے ہیں لیکن اس بار دبئی ہوائی اڈے‘ سڑکوں اور بازاروں میں پہلے جیسی بھیڑ دکھائی نہیں پڑتی۔ پھر بھی مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ دبئی بھارت کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایک چھوٹا موٹا بھارت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن بھارت دبئی جیسا بن جائے اس کے لیے بھارت میں تیل جیسی کوئی جادو کی چھڑی ملنی چاہئے لیکن ایسا شاید ممکن نہیں۔