"DVP" (space) message & send to 7575

بھارتی پارلیمنٹ: بغیربریک کی گاڑی

بھارت سرکار نے زرعی قوانین ہڑ بڑی میں واپس لے لیے اور راجیہ سبھا کے 12 ممبران کو موجودہ سرمائی اجلاس کے لیے معطل بھی کر دیا۔جن اراکین پارلیمان کو معطل کیا گیا ان میں سی پی ایم کے ایلا رام کریم، پھولو دیو نیتم، چھایا ورما، آر بورا، راجامانی پٹیل، کانگریس کے سید ناصر حسین اور اکھیلیش پرساد سنگھ، سی پی آئی کے بنوئے وسواش، ترنمول کانگریس کے شانتا چھیتری اور ڈولا سین اور شیوسینا کی پرینکا چتورویدی اور انیل دیسائی شامل ہیں۔ اس اقدام کی اپوزیشن کی 16 جماعتوں نے مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر ان اراکین پارلیمان کی معطلی کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا تو وہ پورے سرمائی اجلاس کا بائیکاٹ کریں گی۔ اپوزیشن کی میٹنگ میں کچھ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کا مشورہ دیا۔ اس میٹنگ میں جن 16 اپوزیشن جماعتوں نے شرکت کی ان میں انڈین نیشنل کانگریس، ڈی ایم کے، شیو سینا، این سی پی، سی پی ایم، سی پی آئی، عام آدمی پارٹی، آر جے ڈی، آئی یو ایم ایل، ایم ڈی ایم کے، ایل جے ڈی، این سی، آر ایس پی، ٹی آر ایس، کیرالہ کانگریس اور وی سی کے شامل تھیں۔ ان دونوں مدعوں کولے کر اپوزیشن جماعتیں اگر پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کردیں تو حیرا نی نہیں ہونی چاہیے‘ حالانکہ کچھ اپوزیشن ایم پیز کی رائے ہے کہ بائیکاٹ نہیں کیا جانا چاہئے۔ میں بھی سوچتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسز کا اگر اپوزیشن بائیکاٹ کرے گی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ حکمران جماعتوں کو زیادہ آسانی ہو گی۔ وہ اپنے پیش کئے گئے بلوں کو بغیر بحث کے قانون بنوا لیں گی۔ اس سرکار کا جیسا رویہ ہے یعنی اس نے نوکر شاہوں کو پوری چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جیسے چاہیں ویسے بل بنا کر پیش کر دیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کچھ قانون تو شاید اچھے بن جائیں گے لیکن کچھ قوانین زرعی قوانین کی طرح بڑے درد سر بھی بن سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر ایسا ہوا تو کیا اس کاالزام اپوزیشن کے سر نہیں آئے گا؟ اپوزیشن ممبران نے پچھلے اجلاس میں جو ہنگامہ راجیہ سبھا میں مچایا تھا وہ کافی شرمندگی پیدا کرنے والا تھا۔ کچھ مخالف ارکان نے سکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ دھکا مکی اور مار پیٹ بھی کی۔ اس منظر کو دیکھ کر نائب صدر وینکیا نائیڈو اتنے پریشان ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پچھلے 60 سال سے میں بھی پارلیمنٹ کو دیکھ رہا ہوں‘ ایسا منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور اس بار تو اس سین کوٹی وی چینلوں پر سارا ملک دیکھ رہا تھا۔ حکمران جماعت نے کوشش بھی کی کہ انضباطی کارروائی کرنے سے پہلے اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ کیا جائے لیکن اس کا بھی انہوں نے بائیکاٹ کردیا۔ ایسے میں ہنگامہ کرنے والے 12 ممبران کو معطل کر دیا گیا۔ راجیہ سبھا کے رول 256 کے مطابق ایسی کارروائی اجلاس کے چالو رہتے ہی کی جاتی ہے جو اَب سے پہلے 13 بار کی گئی ہے لیکن ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس اجلاس میں کئے گئے جرم کی سزا اگلے اجلاس میں دی گئی۔ پچھلے اجلاس میں ہوئے اس ہنگامے کی وجہ سے اس اجلاس کو بے مزہ کردینا ٹھیک نہیں ہے۔ ہنگامے باز ایم پیز کو چاہئے کہ راجیہ سبھا اور نائب صدر وینکیا نائیڈو سے وہ لوگ انہیں دکھی کرنے پر معافی مانگیں اور مستقبل میں پارلیمانی روایت کی پاسداری کا وعدہ کریں تاکہ پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤس اس بار بہتر طریقے سے چل سکیں۔ اگر ان دونوں ہاؤسز کا اپوزیشن دَل بائیکاٹ کریں گے تو وہ ملک میں چل رہے جمہوری نظام کو پہلے سے بھی زیادہ کمزور کرنے کے مجرم ہوں گے۔ مودی سرکار کی موٹر گاڑی یوں بھی بہت تیز بھاگتی ہے۔ اگر مخالف پارٹیاں گھر بیٹھ جائیں گی تو یہ گاڑی بغیر بریک کی ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے اس کے ویسا ہو جانے میں اپوزیشن جماعتیں اپنا فائدہ دیکھ رہی ہوں لیکن یہ ملک کے لیے بہت مہلک ثابت ہو گا۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس سنگین صورتحال میں مزید آواز اٹھائیں اور بھارتیہ جمہوریت کی صحت کی حفاظت کریں۔
بھارت سے جاتی واد (ذات پات)کیسے ختم کریں؟
سپریم کورٹ آف انڈیا نے جاتیہ بھیدبھاؤ کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں کہہ ڈالی ہیں۔ ججوں نے 1991ء میں تین لوگوں کے قاتلوں کی سزا پر مہر لگاتے ہوئے پوچھا ہے کہ اتنے قوانین کے باوجود بھارت میں سے ذات پات کی بنیاد پر نفرت کیوں ختم نہیں ہو رہی؟ عدالت کی اپنی حدیں ہیں‘ وہ صرف قانون لاگو کروا سکتی ہے۔ وہ خود کوئی قانون بنا نہیں سکتی۔ یہ کوئی سماجی ویلفیئر کی تنظیم بھی نہیں ہے کہ وہ ذات پات کے خلاف کوئی مہم چلا سکے۔ یہ کام پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کو کرنا چاہئے لیکن وہ تو بے چارے انجان بنے رہتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام ہے ووٹ اور نوٹ کے لیے کٹورا پھیلائے رکھنا۔ ان میں اتنی سوجھ بوجھ کہاں ہے کہ ان کی گزارش پر لوگ اپنی ذات پات سے مکت ہو جائیں؟ ان کی دکان چل ہی رہی ہے جاتی واد کے دم پر! ڈاکٹر لوہیا نے ذات توڑو تحریک چلائی تھی لیکن ان کی مالا جپنے والے نیتا ہی آج جاتی وادکے دم پر تھرک رہے ہیں۔ ذاتوں کی مردم شماری کی لاش کو دفنائے ہوئے 90 سال ہو گئے لیکن وہ اب اسے پھر سے زندہ کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔ ''میری جاتی ہندوستانی‘‘ تحریک کی وجہ سے من موہن سنگھ سرکارنے جاتیہ مردم شماری بیچ میں ہی رکوا دی تھی لیکن بھارت میں ذات پات کو زندہ رکھنے والے ''جاتیہ ریزرویشن‘‘ کو ختم کرنے کی آواز آج کوئی بھی پارٹی یا سیاست دان نہیں لگا رہا۔ بھارت میں سرکاری نوکری اور تعلیم میں جب تک ذات پات کی بنیاد پر بھیک بانٹی جائے گی، جاتی واد کا زہریلا پودا ہرا ہی رہے گا۔ مٹھی بھر انوسوچتوں اور پچھڑوں کے منہ میں چوسنی لٹکا کر دیش کے کروڑوں محروموں اور غریبوں کوسڑتے رہنے کے لیے مجبور کرتے رہیں گے۔ اس وقت بھارت میں جاتی واد کے خلاف زبردست سماجی مہم کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ذات پات کے تحت ریزرویشن ختم کی جائے۔ دوسرا، ذاتوں کو ناموں سے ہٹایا جائے۔ تیسرا، کسی بھی ادارے یا تنظیم جیسا کہ ہسپتال، سکول، دھرم شالہ یا شہر‘ محلہ وغیرہ کے نام جاتیوں کی بنیاد پر نہ رکھے جائیں۔ چوتھا، انٹر کاسٹ شادیوں کو بڑھاوا دیا جائے۔ پانچواں، عام چناؤ میں کسی خاص چناؤ حلقے سے کسی خاص امیدوار کو کھڑا کرنے کی بجائے پارٹیاں اپنی اجتماعی لسٹیں جاری کریں اور اپنے جیتے ہوئے امیدواروں کو بعد میں الگ الگ چناؤ حلقے کی ذمہ داری دے دیں۔ اس سے چناؤ میں چلنے والا جاتی واد اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ اپنا ووٹ دیتے وقت امیدوار کی جاتی (ذات) نہیں پارٹی کی سوچ اور پالیسی کو اہمیت دیں ۔ اس کی وجہ سے جمہوریت کی کوالٹی تو بڑھے گی ہی ذات پات کی بنیادپر تھوک ووٹ کباڑنے والے مجرموں اور ٹھگوں سے بھارتی سیاست کا کچھ نہ کچھ چھٹکارا بھی ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں