معروف کشمیری رہنما غلام نبی آزاد کا کانگرس کو چھوڑ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان سے پہلے شرد پوار اورممتا بینر جی جیسے کئی بڑے نیتا بھی کانگرس چھوڑ چکے ہیں، لیکن غلام نبی کا باہر نکلنا ایسا لگ رہا ہے جیسے کانگرس کا دم ہی نکل گیا ہو۔ کانگرس کے کچھ چھوٹے موٹے نیتاؤں نے غلام نبی آزاد کے مودی سے متاثر ہونے کی بات کہی ہے، جو کچھ حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ نریندر مودی نے بیحد جذباتی ہو کر غلام نبی کو راجیہ سبھا سے رخصت کیا تھا۔ لیکن کئی دیگر کانگرسی نیتاؤں کی طرح غلام نبی آزاد بھاجپا میں شامل نہیں ہو رہے۔ وہ شاید اپنی پارٹی بنائیں گے، جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہی سرگرم رہے گی۔ وہ کوئی آل انڈیا پارٹی نہیں بنا سکتے۔ جب شردپوار اور ممتا بینرجی جیسے بڑے نام اپنی آل انڈیا پارٹی نہیں بنا سکے تو غلام نبی کے لیے یہ ناممکن ہی رہے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں بھاجپا کے ساتھ ہاتھ ملا کر چناؤ لڑ لیں؛ اگرچہ ان کی طرف سے یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ آل انڈیا سطح کی کوئی پارٹی بنائیں گے اور سلمان نظامی نے اس حوالے سے بتایاہے کہ غلام نبی آزاد قومی سطح پر پارٹی لانچ کرنے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر ایک تاج ہے اور ہم نے یہاں ہی سے پارٹی لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؛ تاہم اگلے دنوں میں پتا لگ جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ غلام نبی آزاد محض اکیلے ہی کانگرس سے نہیں گئے۔ وہ جاتے جاتے اس پارٹی کی بنیادیں بھی ہلا گئے ہیں۔ غلام نبی کے کانگرس چھوڑنے کے ساتھ ہی چار‘ پانچ بڑے رہنمائوں کی جانب سے کانگرس چھوڑنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دو دنوں کے دوران لگ بھگ ڈھائی ہزار لیڈروں‘ جن میں سابق ممبران اسمبلی ، سابق وزیر ، ڈی ڈی سی اور بی ڈی سی ممبران بھی شامل ہیں‘ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے۔ بہت سارے لیڈرز نے کہا ہے کہ وہ غلام نبی آزاد کی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ پچھلے تقریباً 50سال سے کانگرس ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح کام کر رہی ہے۔ کانگرس کی دیکھا دیکھی سبھی پارٹیاں اسی راستے پر چل پڑی ہیں۔ بھاجپا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ غلام نبی آزاد حقیقت میں اب ''آزاد‘‘ ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے نام کی کس قدر لاج رکھی‘ یہ تو وہی جانیں لیکن اندرا گاندھی، سنجے گاندھی، راجیوگاندھی اور سونیاگاندھی کی غلامی میں ان کی پوری سیاسی زندگی کٹی ہے۔ مجھے خوب یاد ہے: کانگرس میں غلام۔ جب میرے عزیز دوست نرسمہا راؤ جی بھارت کے وزیراعظم تھے اور میں ان سے ملنے جایا کرتا تھا تو میرے پتا جی کی عمر والے کچھ منتری اور غلام نبی جیسے منتری بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور تب تک کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے، جب تک میں نہ بیٹھ جاتا۔ غلام نبی‘ جو آج آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں‘ سنجے گاندھی کے ساتھ ان کے تعلق پر دیگر کانگرسی نیتاؤں کے تبصرے پڑھنے لائق ہیں۔ جو نیتا غلام نبی کی مذمت کر رہے ہیں، ان کے دل میں بھی ایک غلام نبی دھڑک رہا ہے لیکن بے چارے لاچار ہیں۔ راہل گاندھی کے بارے میں غلام نبی کے تبصرے نئے نہیں ہیں۔ بھارت کے عوام اور تمام کانگرسی پہلے سے وہ سب جانتے ہیں۔ گاندھی، نہرو، پٹیل اور سبھاش بابوکی کانگرس اب نوکر، چاکر کانگرس (این سی کانگرس) بن گئی ہے۔ اب اگر اشوک گہلوت یا کمل ناتھ یا چدمبرم یا کسی دوسرے رہنما کو کانگرس صدر بنا دیا جائے تو وہ بھی کیا کر لے گا؟ یہ ایک شعر اس پر بھی لاگو ہوگا:
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
اب کانگرس کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ واحد سونیا گاندھی ہی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو پیچھے ہٹائیں، اپنی بیٹی کو اپنا گھر چلانے کو کہیں اور پارٹی میں اوپر سے نیچے تک چناؤ کروا کرخود بھی سنیاس لے لیں۔ کانگرس کی دیکھا دیکھی بھارت کی تمام پارٹیاں چمگادڑ بن گئی ہیں یعنی ان کے قدم چھت سے جڑے ہوئے ہیں۔ سونیا جی اگر کانگرس کو 'ادھومول‘ بنوا دیں یعنی اس کی جڑیں پھر سے زمین میں لگوا دیں تو یہ بھارت کی جمہوریت کی بڑی سیوا ہو گی۔
ظلم و ناانصافی کے مینار کو کون گرائے گا
سپرٹیک کے ذریعے نرمت نوئیڈا کے دو مشترکہ ٹاوروں کا گرایا جانا اپنے آپ میں تاریخی واقعہ ہے۔ پہلے بھی عدالت کے احکامات اور سرکاروں کے اپنے حساب سے کئی عمارتیں بھارت کی مختلف ریاستوں میں گرائی گئی ہیں لیکن جو عمارتیں قطب مینار سے بھی اونچی ہوں اور جن میں 7000 لوگ رہ سکتے ہوں‘ ان کو عدالت کے حکم پر گرایا جانا سارے بھارت کے قبضہ مافیا کیلئے ایک کڑوا سبق ہے۔ ایسی غیر قانونی عمارتیں سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں سارے بھارت میں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ نیتاؤں اور افسروں کو رشوتیں دے کر ایسی غیر قانونی عمارتیں کھڑی کی جاتی ہیں اور پھر متوسط طبقے کے گاہکوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا جاتا ہے۔ وہ اپنا پیٹ کاٹ کر قسطیں بھرتے ہیں، بینکوں سے ادھار لے کر ابتدائی رقم جمع کرواتے ہیں اور بعد میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ جو فلیٹ ان کے نام کیا گیا ہے، ابھی اس کے تیار ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ لوگوں کو مقررہ مدت کے دس‘ دس سال بعد تک ان کے فلیٹ نہیں ملتے۔ اتنا ہی نہیں‘ نوئیڈا میں بنے کئی ٹاورز ایسے ہیں، جن کے فلیٹوں میں بے حد گھٹیا سامان لگایا گیا ہے۔ یہ ایسے ٹاورز ہیں کہ جنہیں گرانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ گر جاتے ہیں، جیسا کہ گوڑ گاؤں کا ایک کثیر منزلہ ٹاور کچھ دن پہلے منہدم ہو گیا تھا۔ نوئیڈا کے یہ ٹاورز کامیابی کے ساتھ گرا دیے گئے ہیں لیکن ظلم و ناانصافی کے جن ٹاوروں کے دم پر یہ ٹاور کھڑے کیے گئے ہیں ان ٹاوروں کو گرانے کی کوئی خبر ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ جن نیتاؤں اور افسروں نے یہ غیرقانونی تعمیرات ہونے دی ہیں، ان کے ناموں کی فہرست اتر پردیش کی یوگی سرکار کی جانب سے فوراً جاری کی جانی چاہئے۔ ان نیتاؤں اور افسروں کو بلاتاخیر سزا دی جانی چاہئے۔ ان کی خاندانی جائیدادوں کو ضبط کیا جانا چاہئے۔ جو نوکری میں ہیں انہیں برخاست کیا جانا چاہئے۔ جو ریٹائر ہو گئے ہیں، ان کی پنشن بند کی جانی چاہئے۔ عدالتوں کو چاہئے کہ ان میں سے جو بھی قصور وار پائے جائیں ان افسران کو فوراً جیل بھیجا جائے۔ کچھ نیتاؤں اور افسروں کو چوراہوں پر کھڑا کر کے ہنٹروں سے ان کی چمڑی بھی ادھیڑ دی جائے تاکہ آئندہ ظلم و ناانصافی کا سوچ کر بھی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اگر یہ کرتب کر کے دکھا سکیں تو ان کا امیج بھارت کے ایک مسیحا کی طرح کا بن جائے گا۔ ان 30‘ 30 منزلہ عمارتوں کو بنانے کی اجازت دینے والی 'نوئیڈا اتھارٹی‘ کو سپریم کورٹ نے ''ناانصافی کے مرکز‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ اگر مرکز اور اتر پردیش سرکاریں اس مدعے پر خاموشی اختیار کرتی ہیں تو میں اپنے صحافی بھائیوں سے توقع کروں گا کہ ان غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کے دوران جو بھی چیف منسٹر‘ منسٹر‘ ایم ایل اے بینی فشری رہے ہوں‘ وہ ان کی فہرست جاری کریں اور ان کے ظلم و ناانصافی کا پردہ فاش کریں۔ عدالتوں میں برسوں تک ماتھا رگڑنے کے بجائے جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت کو اس وقت سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ اینٹ‘ چونے کی غیر قانونی عمارتوں کو گرانا تو بہت قابلِ تحسین ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ناانصافی اور لا قانونیت کی عمارت کو گرانا! کس کی ہمت ہے، جو ان کو گرائے؟