"HAC" (space) message & send to 7575

سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات

انقلاب منظم سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ بپھرے ہوئے ہجوم لاتے ہیں 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹوکی پاکستان آمد سے قبل پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے منصوبہ بنایا کہ کسی طور پارٹی کو متحرک کیا جائے تاکہ جب محترمہ پاکستان پہنچیں تو انہیں ان کے والد کی وراثت بہتر شکل میں نظر آئے۔ بہت غوروخوض کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پارٹی میں انتخابات کرادیے جائیں۔ اس فیصلے کے سب بڑے محرک اور مؤید شیخ رفیق احمد مرحوم تھے جواپنی خدمات کے باعث بڑے محترم سمجھے جاتے تھے۔ شیخ صاحب نے پارٹی انتخابات کا بیڑہ اٹھایا اور انہیں تقریبا ًانہی خطوط پر کرانے کا اعلان کیا جن پر قومی انتخابات ہوئے تھے۔ اس وقت کسی بھی پارٹی کی نچلی ترین سطح کونسلر کا حلقہ انتخاب ہوا کرتا تھا جو آج کی یونین کونسل کا ایک تہائی تھا۔ شیخ صاحب اپنے شوق میں اس سے بھی آگے نکل گئے اور انہوںنے اس حلقے کو بھی یونٹوں میں تقسیم کر دیا تاکہ پارٹی کی نچلی ترین سطح پر بھی منتخب قیادت سامنے آئے۔ اس کے بعد ایک ووٹر لسٹ بنائی گئی جو پارٹی کے ممبروں پر مشتمل تھی، پولنگ اسٹیشن بنانے کا انتظام کیا گیا کہ پارٹی کے ارکان سہولت کے ساتھ ووٹ ڈال سکیں اور پھرووٹ ڈالنے کا دن بھی مقرر کردیا گیا۔ پارٹی الیکشن کا دن آگیا اور وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر امیدواروں اور ان کے حامیوں کے درمیان سر پھٹول ہوئی، اِکا دُکا فائرنگ کے واقعات بھی ہوئے ۔ جیتنے والے جیت گئے لیکن ہارنے والے اپنی ہار ماننے کو تیار نہ تھے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پارٹی جو اوپر سے لے کر نیچے تک یکجان تھی ،آپ اپنا شکار ہو گئی۔ شکست کھانے والوں کے لیے اب پارٹی میں رہ کر جینا دوبھر ہوگیا اور انہوں نے گوشہ نشینی کو ترجیح دی یا کسی دوسری سیاسی جماعت کے دامن میںپناہ لے لی۔ اس الیکشن نے پارٹی کے اندر ایسی بارودی سرنگیں نصب کردیں جو یکے بعد دیگرے اسے توڑتی رہیں۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جن کی آمد پر لاہور ان کی جھلک دیکھنے کی خواہش لیے ہوئے لوگوں سے بھر گیا تھا، صرف دوسال بعد یعنی 1988ء کے عام انتخابات میں بہت کچھ جیتنے کے باوجود پنجاب میں ہار گئیں۔ پیپلزپارٹی کے ان انتخابات کی کہانی مجھے نوید چودھری نے سنائی، جو اس وقت صدر آصف علی زرداری کے معاون برائے پنجاب ہیں۔ چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ ان داخلی انتخابات سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ داخلی انتخابات پارٹیوں کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ عملی سیاست میں کارکنوں کی رائے تو ضرور سامنے آنی چاہیے لیکن فیصلے رہنماؤں کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔پیپلزپارٹی سے پہلے اسی طرح کی ایک کوشش پچاس کی دہائی میں مسلم لیگ میں بھی ہوئی جس کی تفصیل ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’مسلم لیگ کا دور حکومت‘ میں موجود ہے۔ مسلم لیگ ان انتخابات کے بعد اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی کہ آج تک متحد نہیں ہوسکی۔ سیاسی جماعتوں میں الیکشن کا تازہ ترین تجربہ تحریک انصاف میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ بلا شبہ ان کے انعقاد سے عمران خان نے ملک بھر میں یہ تاثر پہنچایا ہے کہ وہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی جماعت میں تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو شایدانہیں پھر اسی جگہ لے جائے جہاں وہ تیس اکتوبر کے جلسۂ لاہور سے پہلے کھڑے تھے۔ یہ سب کچھ محمودالرشید، عارف علوی ، احسن مغل اور ایڈمرل ذوالفقار جیسے لوگوں کی کاوشیں تھی جنہوں نے تحریک انصاف کو ایک نیا جنم دیا۔ جب ایک بڑی کامیابی کو دیکھ کر لوگ اس میں شامل ہوئے تو نئے اور پرانے کارکنوں کے درمیان اختلافات کو سلجھانے کی بجائے عمران خان نے انہیں ایک ایسے راستے پر دھکیل دیا جہاں ’سابقون الاولون‘ کے لیے سوائے مشکلات اور بدنامی کے اور کچھ نہیں تھا۔آج سب موجود ہیں لیکن پرانے لوگ بے رحم سیاست کا شکار ہوکر کھیل سے باہر ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی انتخابات کے حوالے سے ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ آخر دو امیدوار کس بنیاد پر ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ کیاان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے زیادہ قریب ہیں یا یہ کہ وہ اپنی جماعت کے نظریات کو دوسرے سے بہتر سمجھتے ہیں؟ وہ اپنی انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں یا محض اپنی خدمات گنوانے تک ہی محدود رہتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں علمِ سیاسیات کی کتابیں بھی خاموش ہیں اور ماہرینِ سیاسیات بھی خاموشی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کے حامی فوری طور پر امریکہ اور یورپ کی سیاسی جماعتوں کی مثالیں سامنے لے آتے ہیںلیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وہاںکی پارٹیوں میں بھی تنظیم کے نام پر یہ سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ قومی انتخابات میں بہترین امیدوار کا فیصلہ کرنے کے لیے جزوی طور پر یہ طریقہ آزمایا جاتا ہے۔ اگر داخلی انتخابات ہی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتے تو پھر جماعت اسلامی آج اس ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتی اور پیپلزپارٹی کبھی عام انتخابات کا معرکہ سر نہ کرسکتی۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ملکوں میں انقلاب منظم سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ بپھرے ہوئے ہجوم لے کر آتے ہیں۔ یہی ہجوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو اقتدار میں لے کرآئے جبکہ باقاعدگی سے اندرونی الیکشن کا دعویٰ کرنے والی جماعت اسلامی چار نشستوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ عمران خان نے اپنی جماعت کے ساتھ جو کیا ہے اس کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ اب زیادہ دیر کی بات نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں