علائو الدین شیخ صاحب فیصل آباد کے ایک خوشحال کاروباری ہیں۔ امیر آدمیوں کی طرح رہتے ہیں۔ ضرورت اور آسائش میں کیا فرق ہے ،اس بارے میں انہیں سوچنے کی ضرورت اس وقت پڑی جب پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کے عفریت نے زندگیاں برباد کرنا شروع کردیں۔ پہلے پہل جب لوڈ شیڈنگ کم تھی اور راجہ پرویز اشرف اس کے خاتمے کے لیے وعدوں پر وعدے کیے جارہے تھے تو شیخ صاحب نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا لیکن احتیاط کے طور پر گھر میں ایک بڑے سائز کا یو پی ایس لگوا لیا۔ جب وعدے ٹوٹتے اور لوڈشیڈنگ بڑھتی چلی گئی تو انہیں کاروبار کی فکر ہوئی جس کے لیے خاصی بڑی رقم خرچ کرکے ایک جنریٹر لگوایا گیا۔ اپنے اہل خانہ کے اصرار اوراستطاعت کے باوجود انہوں نے گھر میں جنریٹر اس خیال سے نہیں لگوایا کہ اس کے شور سے پڑوس کے لوگ متاثر ہوں گے۔ پڑوس والوں کو یہ خیال نہیں آیا اس لیے انہوں نے جنریٹر لگوا لیے لہٰذا ان کے شور سے خود شیخ صاحب متاثر ہونا شروع ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ جنریٹر نہیں لگوائیں گے کیونکہ اگر ایک پاکستانی کی قسمت میں بجلی نہیں ہے تو پھر اس کی اولاد کو بھی اس مصیبت کا عادی ہوجانا چاہیے ۔دوسرے یہ کہ گھر میرے آرام کی جگہ ہے میں اپنے آرام کی جگہ پر ایک بجلی گھر کھول کر نئے عذاب میں نہیں پڑنا چاہتا۔شیخ صاحب کی اس منطق کا سب سے زیادہ شکار ان کی اولاد ہوئی لیکن والد کی فرمانبرداری ہمیشہ جنریٹر کی فرمائش پر غالب آتی رہی۔ان کا ایک بیٹا جو کاروبار میں ان کے ساتھ شریک ہے جنریٹر خریدنے کا حامی ہے اور باقی سارا خاندان اس کی سرکردگی میں شیخ صاحب کو فیصلہ بدلنے پر مائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ ہر مشرقی گھر کی طرح یہاں بھی حتمی اختیار چونکہ ’اباجی‘ کا ہے اس لیے جنریٹر کے لیے ہموار شدہ رائے عامہ بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ شیخ صاحب سے تعلق ہونے کی وجہ سے مجھے بھی ایک دوبار ان کی خاندانی بحث میں ثالث کا کردار ادا کرنا پڑا اور میں نے کسی نہ کسی طرح بات بدل کر ہی جان چھڑا ئی ۔ پچھلے اتوار مجھے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب کے گھر میں جاری اس تاریخی بحث کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہوں نے مشروط طور پر جنریٹر کی خریداری کی منظوری دے دی ہے۔ میں نے تفصیل جاننا چاہی تو معلوم ہوا کہ اگر الیکشن میں پیپلزپارٹی جیت کر حکومت بنانے کے قابل ہوجاتی ہے تو جنریٹر خرید لیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں ملک میں بجلی آنے کے امکانات ختم ہوجائیں گے اور اگر پاکستان مسلم لیگ ن حکومت بناتی ہے تو چھے مہینے انتظار کیا جائے گا کہ اگر اس نے اس عرصے میں کوئی واضح لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو بھی جنریٹر خرید لیا جائے گا کہ جو چھے مہینے میں بھی اتنا اہم کام نہیں کرسکتے وہ آئندہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ شیخ صاحب چونکہ قول نبھانے والے آدمی ہیں اس لیے ان کے وسیع و عریض خاندان کے سو فیصد ووٹ پاکستان مسلم لیگ ن کو ملے ہیں۔ اگرچہ ان ووٹوں کے ساتھ ہی شیخ صاحب کا قول اور مسلم لیگ ن کی ساکھ چھے مہینے کے لیے داؤ پر لگ گئی ہے۔ سرگودھا میں بجلی کا سامان بنانے کے چھوٹے چھوٹے کارخانے گھر گھر قائم ہیں ۔ ان کارخانوں میں کام کرنے والوں کی اکثریت کا معاوضہ ان کے تیارکردہ مال سے منسلک ہوتا ہے، یعنی جتنا مال وہ دن بھر میں تیار کریں گے اس کے حساب سے معاوضہ انہیں ہرشام مل جائے گا۔بجلی ان کارخانوں کا بنیادی خام مال ہے، اب ہوا یہ ہے کہ بڑے سرمایہ داروں نے تو اپنے کارخانوں میں جنریٹر لگا لیے لیکن چھوٹے درجے کے کاروباریوں کے لیے اتنے سرمائے کا انتظام ہی مشکل تھا اسی لیے چھبیس سال کے محمد اسرار کو اپنا کارخانہ بندکرنا پڑا۔ اس بے چارے نے چند ہزار اکٹھے کرکے اپنے گھر کی بیٹھک میں جو فیکٹری لگائی تھی اسے لوڈ شیڈنگ کا دیمک چاٹ گیا۔ ہوا یوں کہ کاریگروں کو بجلی جانے کے اوقات میں فارغ بیٹھنا پڑتا تھا اور اس پر اضافہ یہ کہ مشینیں جتنی دیر میں اپنی پوری کارکردگی پر پہنچتی تھیں اتنی دیر میں دوبارہ بجلی چلی جاتی تھی۔ جب کاریگروں نے یہ دیکھا کہ صبح سے لے کر شام تک وہ اتنا مال بھی نہیں بنا پاتے کہ ان کے کھانے کا خرچ ہی نکل آئے تو انہوں نے ایسے جگہوںکا رخ کیا جہاں جنریٹر لگے ہوئے تھے اور وہاں وہ کم اجرت پر بھی کام کرنے کو تیار تھے۔ وہ تمام چھوٹے چھوٹے کارخانے جو ہزاروں مزدوروں کو روزگار دے رہے تھے لوڈشیڈنگ کا شکار ہوکر بند ہوگئے اور مجبوری کے عالم میں محمد اسرار کو بھی کارخانے دار سے مزدور بننا پڑا اور وہ تقریباََ آدھی اجرت پر ایک ایسی جگہ کام کرتا ہے جہاں جنریٹر لگا ہے۔ اس کا کارخانہ بند ہوا تو آمدن بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنی بہن کی شادی کی تاریخ ایک سال آگے کرنا پڑی اور خود اپنی شادی کو ملتوی کرنا پڑا۔ محمد اسرار سے میری ملاقات پاکستان تحریک انصاف کے سرگودھا میں ہونے والے جلسے میں اتفاقی طور پر ہوگئی تھی۔ جلسے کے بعد میں نے یونہی اس کے تاثرات پوچھے تو اس نے بتایا کہ یہ جلسہ دیکھ کر اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ نواز شریف کو ہی ووٹ دے گا، کیونکہ توقع ہے کہ اس کی پارٹی بجلی کا مسئلہ حل کرلے گی۔ اس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی باتیں سن کر نہیں لگتا کہ تحریک انصاف ملک کو اس عذاب سے نکال سکے گی۔ اسرار کا کارخانہ، اس کی بہن کی شادی اور خود اس کی شادی کا دارومدار بجلی کی آمد پر ہے، اس کا خیال ہے کہ اس کے تینوں مسائل کا حل نواز شریف کے پاس موجود ہے اور شاید ایک سال تک یہ مسائل حل ہوجائیں۔ انوار کاکڑ کوئٹہ میں رہتے ہیں اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما ہیں۔ الیکشن سے دوہفتے پہلے کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں وہ اور میں بیٹھے کچھ بات کررہے تھے کہ اچانک مجھ سے معذرت کرکے کچھ دور ایک اور صاحب کی میز پر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئے تو بتانے لگے کہ دراصل ان صاحب کو مجھ سے ایک کام تھا۔ میں نے فوری پوچھا کہ ذاتی یا سیاسی؟ میری بات سن کر مسکرا ئے اور کہا سیاسی۔ میں نے کہا اب بتائے بغیر جان نہیں چھوڑوں گا۔ کہنے لگے ایسی خاص بات نہیں بس ان کا ایک پیغام ہے جو نواز شریف تک پہنچانا ہے۔ اب میں متوجہ ہوگیا ،میں نے پوچھا کہ یہ صاحب ہیں کون؟ میرے سوال کے جواب میں آف دی ریکارڈ کی شرط لگا کرانوار نے جو کچھ بتایا وہ چونکا دینے والا تھا، بس یوں سمجھ لیجیے کہ وہ صاحب مسلح بلوچ نوجوانوں اور امن کے خواہش مند بلوچوں کے درمیان ایک کڑی تھے۔ میں نے پوچھا پیغام کیا ہے تو بتایا کہ ان صاحب کا گمان یہ ہے کہ نواز شریف کو بلوچستان کے قبائلی اور نسلی مسائل میں گھسیٹنے کی کوشش ہورہی ہے اور اگر ایک بار نواز شریف ان میں الجھ گئے تو پھر بلوچستان کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوپائے گا۔ یہ دوست میاں صاحب کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ اس حوالے سے محتاط رہیں۔ میں نے انوار سے پوچھا کہ آخر یہ پیغام نواز شریف کو ہی کیوں ، صدر زرداری اور دوسرے لوگوں کو بھی تو دیا جاسکتا ہے۔ انوار نے کہا کہ تم مانو یا نہ مانو، بلوچستان میں ایسا کوئی شخص نہیں جو امید بھری نظروں سے نواز شریف کو نہ دیکھ رہا ہو، خواہ اس نے اسلحہ اٹھا رکھا ہے یا دل ہی دل میں بے چین ہے ۔ میں نے انوار سے کہا فرض کرو نواز شریف اقتدار میں آجائیں تو بلوچستان انہیں کتنی مہلت دے گا، انوار نے بے ساختہ کہا ’چھے مہینے‘ پھر ایک توقف کے بعد کہا ’شاید ایک سال‘۔