"HAC" (space) message & send to 7575

بیمار ہوئے جس کے سبب!

نواب محمد خان باروزئی بلوچستان کے علاقے سبی سے تعلق رکھتے تھے۔ پیپلزپارٹی سے اس وقت منسلک ہوئے جب اس کی بنیاد رکھی جارہی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کو ان جیسے صاف ستھرے اور بااثر لوگوں کی ضرورت بھی تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتے اور بلوچستان اسمبلی کے پہلے سپیکر بنے۔ نواب صاحب اگرچہ پختون تھے لیکن بلوچستان بھر میں ان کا احترام کیا جاتاتھا۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ نواب صاحب اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ بھی بنے لیکن ان کی وزارتِ عالیہ زیادہ دیر چل نہ سکی ، انہیں حکومت سنبھالے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا یوں بلوچستان کے پہلے پختون وزیراعلیٰ کوئی کارکردگی دکھائے بغیر ہی گھر چلے گئے۔ بہرحال ان کا یہ کارنامہ بھی کم نہیں کہ انہوں نے بلوچستان یہ ممکن کردکھایا کہ ایک پختون بھی اگر ہمت اور ذہانت سے کام لے تو وہ وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کی سیاسی حرکیات کو سمجھنا اور ایک پیچیدہ صورتحال میں اپنا راستہ بنا لینا ان کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی دلیل ہے۔ نواب محمد خان باروزئی پرانی وضع کے آدمی تھے اس لیے وزیر اعلیٰ بن کر بھی انہوں نے اپنے ذاتی کام سرکاری ملازموں کو سونپنے کی بجائے پہلے سے موجودا پنے خاص خدمت گاروں کو ہی سونپے رکھے۔ ایک دن کسی وجہ سے انہیں سرکاری ڈرائیور استعمال کرنا پڑا تو اس پر بہت جزبز ہوئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ سرکاری ڈرائیور کو انہوں نے جہاں جانے کی ہدایت کی تھی وہاں جانے کا راستہ ہی اسے معلوم نہ تھا۔ خیر کسی نہ کسی طرح اپنا کام نمٹا کر نواب صاحب واپس وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچے تو سرکاری ڈرائیور کو خوب ڈانٹ پلائی۔ وہ مسکین نوابی غصے کو برداشت کرتا رہا لیکن جب نواب صاحب نظروں سے اوجھل ہوگئے تو ان کے نوجوان بیٹے کو مخاطب کرکے بولا ’’صاحب، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں تو پکی نوکری پر ہونے کے باوجود اتنے غصے میں نہیں آتا لیکن نواب صاحب اتنے غصے میں کس کے بھروسے پر آگئے ، حالانکہ ان کی نوکری تو اتنی کچی ہے کہ کچھ پتا ہی نہیں کب چلی جائیـ‘‘۔ نواب صاحب کے نوجوان بیٹے نے ڈرائیور کی اس بات کو نظر انداز کیا اور خود بھی اپنے والد کے پیچھے وزیراعلیٰ ہاؤس کے اندر چلا گیا۔ یہ بات ایک عام سے ڈرائیور نے سادہ سے انداز میں کہی تھی اس لیے یاد تو رہ گئی لیکن سمجھ نہ آئی۔ حتیٰ کہ چھتیس سال گزر گئے۔ چھتیس سال بعد وہی نوجوان ایک ادھیڑ عمر شخص کی صورت اسی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بطور وزیراعلیٰ آپہنچا، فرق پڑا تو بس اتنا کہ اب وہ خود نواب محمد خان باروزئی کی جگہ نواب بن چکا تو تقدیر نے اسے نامور باپ کی طرح محدود مدت کے لیے صوبے کے سیاہ و سفید کا ذمہ دار بنا دیا تھا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے بات بلوچستان کے سابق نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی کی ہورہی ہے۔ نواب صاحب نے جب نگران وزارتِ اعلیٰ سنبھالی ان پر جو دلچسپ انکشاف ہوا کہ چھتیس سالوں میں بے شک دنیا بدل چکی ہے لیکن پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ اس ملک میں آج بھی صرف دو قسم کے حکمران ہیں ایک کچی نوکریوں والے اور دوسرے پکی نوکریوں والے۔ 1973ء کا دستور عوام کے نام پر حقِ حکمرانی جتانے کی کچی نوکری سیاستدانوں کو عنایت کرتا ہے لیکن حکومت پکی نوکریوں والے ملازم ہی کرتے ہیں۔ جب غوث بخش باروزئی نے حکومت سنبھالی تو انہیں جو کچھ بتایا گیا وہ کچھ ایسا تھا کہ جس کی روشنی میں الیکشن تو درکنار صو بے میں رہنا بھی محال تھا۔ یہ سب کچھ سن کر انہیں معلوم ہوا کہ کیوں نواب اسلم رئیسانی کوئٹہ کی بجائے اسلام آباد رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کیوں صوبے کا ہر اہم سیاستدان اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر ہورہا ہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ بلوچستان میں بیک وقت انتخابات کرانے کی بجائے وہ انہیں دو مرحلوں میں تقسیم کردیں تو نہ صرف الیکشن بہتر طریقے سے ہوجائیں گے بلکہ ان کی نگران حکومت کو بھی مزید کچھ عرصہ مل جائے گاجسے وہ بڑے آرام سے اسلام آباد میں رہ کرگزار سکتے ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ نے بغیر کوئی شور مچائے اس مشورے کور د کیا اور صوبے میں الیکشن کرا کے قومی دھارے میں اس کی شمولیت کی راہ ہموار کردی۔ نواب غوث بخش باروزئی لاہور آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آخر کیا سوچ کر آپ نے الیکشن کا خطرہ مول لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں صدیوں سے بلوچستان میں رہ رہا ہوں، گوادر کے ساحل سے لے کر کوئٹہ تک اور حب سے لے کر ایران کی سرحد تک تمام سرکردہ لوگوں سے میری خاندانی رسم وراہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ صوبے میں حالات خراب ہیں لیکن یقینی طور پر اتنے خراب نہیں جتنے یہ پکی نوکریوں والے دکھاتے ہیں، بلکہ اکثر معاملات کو الجھانے میں ہمارے سرکاری افسر وں کی دانستہ سیاست کاری یا زمینی حقائق سے بے خبری کا کردار اہم ترین ہے‘‘۔ میں نے عرض کی بیوروکریسی تو سرکار کی آنکھوں اور کانوں کا کام کرتی ہے تو کہنے لگے ’’درست کہتے ہو، لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس نے اپنے ذمے دماغ کا کام بھی لے لیا ہے۔ یہ لوگ پہلے ایک فیصلہ کرتے ہیں اور پھر اس کے مطابق شواہد پیش کرنا شروع کردیتے ہیں، یوں ایک صوبائی وزیر سے لے کر وزیر اعظم تک کو اس فیصلے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ سیاستدانوں کو اس عمل کو اس کی اصل شکل میں لانا ہوگا تاکہ نچلی ترین سے سطح سے ملنے والی اطلاعات اپنی اصل شکل میں حکمرانوں تک پہنچیں اور وہ درست فیصلے کرسکیں‘‘۔ درست فیصلے کہنا آسان اور کرنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر حکومت میں کوئی فیصلہ مکمل طور پر غلط یا درست نہیں ہوتا ۔ کم سے کم ردعمل پیدا کرتے ہوئے عمل کرتے چلے جانا ہی کسی حکمران کی کامیابی کی دلیل ہے۔سیاستدان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ردعمل کو حد سے باہر ہونے دیتا ہے نہ اس سے خوفزدہ ہوتا ہے، جبکہ کسی بھی قسم کا سرکاری افسر ہر قسم کی مخالفت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔عوامی غیظ وغضب کے بڑے سے بڑے مظاہرے کو سیاستدان اپنا امتحان سمجھ کر اس میں کامیابی کی کوشش کرتا ہے اور معمولی سی شورش میں ایک سرکاری افسر کو اپنا انجام نظر آرہا ہوتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنے تمام ہتھیار چلا کر آخر میں بھاگ نکلتا ہے۔ اس وقت ہمیں بلوچستان میں احساس محرومی سے لے کر دہشت گردی تک جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے ، آپ ان کی تہہ میں چلے جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی ابتدا کسی نہ کسی بیوروکریٹ کی بزدلی یا بے حکمتی سے ہوئی۔ سوات کی مثال لے لیجیے ، یہاں ملا فضل اللہ کے طالبان نے ایک دن میں قبضہ نہیں جمایا تھا بلکہ یہ سارا عمل ایک دہائی سے جاری تھا۔ یہاںمحکمہ مال کے نچلے ترین اہلکار سے لے کر کمشنر تک سب موجود تھے لیکن انہوں نے کبھی تو مسائل پر انتظامی قوت کاقالین بچھا کر سب اچھا دکھا دیا اورکبھی خود کسی چھوٹے موٹے سیاستدان کی بے اعتدالی کی طرف آنکھیں موند لیں۔ پھر ایک دن وہ آگیا کہ سوات میں انتظامیہ باقی بچی نہ کچھ اور، سب کچھ ایک فوجی آپریشن کی بھٹی میں جل کر راکھ ہوگیا۔ بد انتظامی کی ایک داستان ہے جو ہمارے سرکاری افسروں نے پی آئی اے ، ریلوے، کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں کئی سالوں کی بے حسی سے لکھی ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ ’’سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کیا جائے کہ حکومت و ریاست کا ہر شعبہ اتنی خرابیوں کا شکار ہے جن کا شمار ممکن نہیں‘‘۔ بے شک صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا اور اس کا آغاز بھی بہرحال کہیں نہ کہیں سے کرنا پڑے گالیکن کیا یہ طرز عمل مناسب ہے کہ ہم جن لوگوں کی ’’لیاقت‘‘ کے بھینٹ چڑھتے آرہے ہیں ایک بار پھر انہی کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر مزید بھٹک جائیں؟ ہمارے سیاستدانوں نے بڑی حکمت سے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کرکے امن کی ایک راہ نکالی تھی، لیکن سرکاری افسروں کا ایک گروہ ایک بار پھرمجموعی حقیقت کی بجائے منتخب حقائق پر مبنی پریزینٹیشنز لے کر سیاستدانوں کے گرد گھوم رہا ہے کہ کسی طرح انہیں مذاکرات سے پہلے ہی فوجی آپریشن پر قائل کرلیا جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس گروہ کے ساتھ کچھ ایسے سیاستدان بھی شامل ہوگئے ہیں جو خود اس کل جماعتی کانفرنس کا حصہ تھے جس نے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ انہیں حصہ ’’بقدرِجثہ‘‘ نہیں مل رہا۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمران بھی انہی ’’منتخب حقائق‘‘ کو دیکھتے ہوئے اصل حقائق کو نظر انداز کرتے نظر آرہے ہیں۔ خدا خیر کرے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں