اسے عمران خان کی افتاد طبع ہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ زبانی کلامی نمٹ جانے والے جھگڑے کوبھی ایک باقاعدہ جنگ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ذرا سی مزاحمت کے مقابلے میں اپنی پوری فوج لاکر کھڑی کردینا ان کی طرف سے اتنا یقینی ہوتا ہے کہ اب حریف ان کی اس ترپ کی چال کو ان کی کمزوری بنا کر کھیلنے لگے ہیں۔ ایک بار بار دہرائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ان کو تاؤ دلانے کے لیے پہلے دو چار للکارنے والے اپنی پسند کے میدان میں آکر شور مچاتے ہیں، پھر کوئی ٹولی صفیں درست کرکے یلغارکا تاثر پیدا کرتی ہے اور خان صاحب غصے میں آکر اپنا سار الشکر اپنے دشمن کے منتخب کردہ میدان میں لے آتے ہیں۔پڑاؤ ڈالتے ہی کماندار ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوکر خبر دیتے ہیں کہ حضور کی آمد سے پہلے ہی غنیم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ چکا ہے۔ خان صاحب فتح کے شادیانے بجانے کا حکم دیتے ہیں، سپاہی جھومر ڈالتے ہوئے رجز پڑھتے ہیں اور بدمست ہوکر سو رہتے ہیں۔ پھر دشمن ان کی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر شب خون مارتا ہے اور انہیں لہو لہان کرکے چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد دھوکے، فریب اور دھاندلی کی دہائی دے کر کسی کو ثالث کیاجاتا ہے کہ زیادہ نہیں تو مرہم پٹی کا خرچہ ہی مل جائے تاکہ وہ اپنی سپاہ کو مال غنیمت کی خوشخبری تو دے سکیں۔ للکار، یلغار کا تاثر ، اور ان کی ہزیمت گزشتہ چار پانچ سال سے
پاکستانی سیاست میں ایک خاصے کی چیز بن چکی ہے۔ گیارہ اکتوبر 2011ء کے ان کے تاریخی جلسے سے لے کر کراچی کے حلقہ دوسو چھیالیس کے ضمنی انتخاب تک تحریک انصاف کی حکمت عملی کا سرسری سا جائزہ ہی بتا دیتا ہے کہ خان صاحب چڑیا کا شکار کریں یا ہاتھی کا، انہوں نے ہر صورت میں توپ ہی چلانی ہے، اس سے چھوٹا ہتھیار انہیں پسند ہے نہ اب کسی اور کو ان کے ہاتھوں میں اچھا لگے گا۔
کراچی کاضمنی انتخاب ان کے اندازِ سیاست کی کلاسیکل مثال ہے۔ نبیل گبول نے ''اپنوں‘‘ کے کہنے پر جب یہ نشست چھوڑی توایک چھوٹی سی خبر بنی اور بس۔ اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے، صولت مرزا کے معاملے اور برطانیہ میں الطاف حسین کی مشکلات سے متاثر ہو کر تحریک انصاف نے یہ جانا کہ اب ایم کیو ایم کا جانا ٹھیر گیا ہے اس لیے اس کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دینے کے لیے عمران اسماعیل ہی کافی ہے۔ عمران اسماعیل نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے ہی تحریک انصاف کے مخصوص انداز میں مہم شروع کی تو ایم کیو ایم نے طرح دی۔ جب وہ
اپنے احباب کی قیمتی گاڑیوں کے اجتماع کو ریلی قرار دے کر حلقے میں نکلے تو ہلکی سی مزاحمت پر ہی انہوں نے عمران خان کو مدد کے لیے بلا لیا۔ خان صاحب نے اپنے لشکر کو کراچی ائیر پورٹ پر جمع ہونے کا حکم دیا اور اس حکم کے مطابق پورے پانچ سو افراد اکٹھے ہوگئے۔ پھر یہاں سے عزیز آباد پہنچنے تک یہ پانچ سو افراد ڈیڑھ سو کے جم غفیر میں تبدیل ہوکر پانچ سو پولیس اہلکاروں کی حفاظت میں جناح گراؤنڈ کا فاتحانہ چکر لگا کر تتر بتر ہوگئے۔ جناح گراؤنڈ پہنچ کر خان صاحب کو اپنے ساتھ آئے ہوئے ہجوم کی کیفیت معلوم ہوئی تو انہوں نے گاڑی سے اتر کر سرزمین کراچی کے مفتوحہ ہونے کا تاثر دینا کافی جانا اور واپس بنی گالہ کے صحت افزا ماحول میں تشریف لے گئے۔ اس کے بعد عمران اسماعیل عزیز آباد کے قریب پھٹکے نہ تحریک انصاف نے کوئی انتخابی دفتر وغیرہ قائم کرنے کا تکلف کیا۔ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے چیلنج کو ایک پختہ کار سیاسی جماعت کے طور پر لیا اور مناسب وقت پر ایک بڑا جلسہ کرکے اپنی مضبوطی واضح کردی۔ وہ دیوار جسے گرانے کے عمران اسماعیل کو کافی سمجھا جارہا تھا وہ اتنی مضبوط نکلی کہ اس کو گرانے میں تحریک انصاف پسینہ پسینہ ہوئی جاتی ہے۔
ایم کیو ایم کی طرح جماعت اسلامی نے بھی اپنے پتے سینے کے ساتھ لگائے رکھے۔ انہوں نے پہلے تو یہ تاثر دیا کہ اس سیٹ پر تحریک انصاف سے کوئی لین دین ہوسکتا ہے اور اس دوران بغیر کسی تصادم کے اس حلقے میں اپنے کارکنوں کو منظم کرلیا۔ جب یہ کارکن پوری طرح مہم چلانے کے لیے تیار ہوگئے تو اس نے تحریک انصاف سے مطالبہ کہ وہ اپنا امیدوار دستبردار کرا لے۔ یہ مطالبہ اتنا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ اس حلقے میں ایم کیو ایم کے بعد کوئی جماعت واقعی زمین پر موجود ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ تشدد کے بدترین دور میں بھی اس جماعت کے کارکن لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، غریب آباد کے علاقوں میں ڈٹے رہے۔ پھر اس کا صوبائی دفتر بھی اسی حلقے کی سڑک پر آج بھی قائم ہے جہاں سیاسی کارکنوں کی آمدورفت ایک دن کے لیے بھی نہیں رکی۔ پھر اس نے اس حلقے کی شاہ رگ یعنی شاہراہ ِ پاکستان پر بغیر کسی تصادم کے ایک بڑا جلسہ کرکے ثابت کردیا کہ اس حلقے سے جماعت اسلامی کا جیت جانا کسی بدامنی کا باعث نہیں بنے گا جبکہ تحریک انصاف نے جو ماحول بنا دیا ہے اس میں بفرضِ محال اس کا امیدوار جیت بھی گیا تو کراچی میں کشیدگی بڑھنے کا موجب ہوگا۔
سیاست میں کشیدگی اور تناؤ کی صورتحال میں ووٹر اپنا ماضی کا فیصلہ بدلنے کی بجائے اس پر ڈٹ جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ ایک ہموار اور خوشگوار ماحول ہی ووٹر کو آزادانہ فیصلہ کرنے اور اس پر نظر ثانی کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ خود تحریک انصاف کی اٹھان کسی کشیدگی کی مرہون منت نہیں بلکہ ایک آزادانہ جمہوری ماحول کی دین ہے۔ اس نے کراچی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں جس انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی ہے وہ مہم جوئی معلوم ہوتی ہے۔ ایک ضمنی انتخاب، جس کی جیت ہار سے کوئی حکومت بنے گی نہ کوئی سیاسی جماعت ختم ہوگی، پر تحریک انصاف کی طرف سے توانائی کے اسراف نے ایم کیوایم کو مضبوط تر اور جماعت اسلامی کو منظم تر کردیا ہے۔ اس لیے مقابلہ بھی انہی دونوں جماعتوں کے درمیان رہ گیا ہے اور تحریک انصاف بارہ آنے کا گلاس توڑ کر پھر وہیں کھڑی ہے جہاں سے چلی تھی۔