دو سال ہوتے ہیں کہ کوئٹہ ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو بجلی کے کھمبوں پر لٹکے بینرز پر جنرل راحیل شریف کی تصویریں نظر آئیں۔ ذرا غور سے دیکھا تو یہ بینرز مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی کارکنوں کی طرف سے لگا ئے گئے تھے۔ کسی بینر پر ''قدم بڑھاؤ‘‘ کی طرح کا مشورہ تھا، کسی پر بلوچستان میں امن قائم کرنے پر مبارکباد دی گئی تھی، کوئی دشمنوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کررہا تھا اور کسی نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ملک کے دیگر مسائل بھی حل کریں۔ ان بینرز سے کچھ آگے نکلے توشہر کی طرف جانے والی سڑک پر ایک بڑا بورڈ لگا تھا جس پر جنرل راحیل شریف کے ساتھ کسی صاحب نے اپنی تصویر چھپوائی تھی اور اس پر نمایاں انداز میں لکھا تھا ، ''شکریہ راحیل شریف‘‘۔ باریک لفظوں میں وہ اسباب لکھے گئے تھے جن کی بنیاد پر صاحبِ اشتہار نے زرِ کثیر خرچ کرکے یہ بورڈ لگوایاتھا۔ چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر باریک مواد تو نہیں پڑھا جاسکا لیکن'' شکریہ راحیل شریف‘‘ کے دو لفظ ذہن پر نقش ہوکر رہ گئے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر تو ان دولفظوں نے گویا طوفان مچادیا، لوگوں نے ایک فقرے میں جنرل صاحب کے کار ہائے نمایاں بیان کرنا شروع کردیے اور آخر میں'' شکریہ راحیل شریف ــ‘‘لکھ کر اپنے سپاہ سالار کو داد دی۔ ایک صحافی کے طور پر میرے لیے یہ بالکل نیا تجربہ تھا کہ ایک چیف آف آرمی سٹاف کو سیاست میں حصہ لیے بغیر اتنی شہرت مل رہی تھی کہ سیاستدان بھی ان سے تعلق جوڑنے میں فخر سمجھ رہے تھے۔ ان کے چار پیشرو پاکستان میں مارشل لاء لگا کر بھی وہ شہرت حاصل نہ کرسکے تھے جو جنرل راحیل شریف نے بطور ایک فوجی کے حاصل کی تھی۔ یہ بینرزاور بعد میں شکریہ راحیل شریف کی سوشل میڈیا مہم دیکھ کر ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناتے ذہن میں جن اندیشوں کے جن سنپولیوں نے سر اٹھایا تھا وہ دو سال تک کلبلاتے رہے۔ حتیٰ کہ جنرل راحیل شریف نے لاہور گیریژن سے الوداعی ملاقاتوں کا آغاز کردیا اور میرے ذہن کے سنپولیے اپنی موت آپ مرگئے۔
جنرل راحیل شریف نے سپاہ سالاری کے دوران جو بڑے کام کیے ان میں سے ایک پاک فوج کے ادارہء اطلاعات یعنی آئی ایس پی آر کی تنظیمِ نو تھا۔آئی ایس پی آر کا وجود تو بہت پرانا ہے مگر ان کے دور میںلیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ اس کے سربراہ بنے اور انقلاب لے آئے۔ انہوں نے اس کومحض صحافیوں سے رابطے تک محدود رکھنے کی بجائے عوام سے رابطہ رکھنے والا ادارہ بنا ڈالا۔ جنرل راحیل شریف کا اگلے مورچوں کا دورہ ہو بے گھر وزیرستانیوں کے ساتھ عید ملنے کی تقریب ہو، کسی شہید کی نمازِ جنازہ ہو یافوجی امور پر کسی اجلاس کی صدارت ، آئی ایس پی آر کی بدولت پاکستانیوں کو پہلی بار علم ہواکہ پاک فوج کا سپاہ سالار ان کا طاقتور ہمدرد اور ایسا دوست ہے جس کی موجودگی میں تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی پاکستان کے لیے خدمات اپنی جگہ مگر یہ طے ہے کہ ان خدمات کو مثبت انداز میں عوام تک پہنچانے میں آئی ایس پی آر کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
جنرل راحیل شریف کے شخصی تاثر اور مقبولیت کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ ان کی مدد سے منتخب حکومت کا تختہ بھی الٹا جاسکتا ہے۔ ان کو سیاست میں کھینچنے کی جتنی کوششیں ہوئیں ، سب ناکام رہیں۔ کوئی انہیں امپائر بن کر انگلی کھڑی کرنے کا مشورہ دیتا رہا تو کسی نے انصاف کی دہائی دیتے ہوئے مسیحا بن جانے کی درخواست کی۔ان کی جگہ کوئی کمزور اعصاب کا شخص ہوتا تو بہت پہلے ہی اس دلکش جال میں پھنس چکا ہوتا لیکن انہوں نے اس طرح کی درخواستوں کے جواب میں باوقار خاموشی اختیار کیے رکھی اور درخواست گزار اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ دوہزار چودہ کے دھرنے میں انہیں بہ امرِ مجبوری سیاسی میدان میں قدم رکھنا بھی پڑا تو خود کو مصالحت تک ہی محدود رکھا اور جب انہیں اپنے مخاطبین کی افتاد طبع کا اندازہ ہوا تو انہوں نے اس مصیبت سے بھی جلد ہی چھٹکارا پا لیا۔ غالباً یہ تجربہ انہیں سمجھا گیا تھا کہ اگر انہوں نے اس میدان میں دوسرا قدم اٹھایا تو پھر اس کے جھاڑ جھنکار میں الجھ کر وہ پاکستان کے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
دوہزار پندرہ کے وسط میں انہیں ان دوستوں سے پالا پڑا جو جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کو نظام کائنات کے لیے ضروری تصور کرتے تھے۔ ان لوگوں نے آنسو بھری آنکھوں،رندھے ہوئے گلوں اور نہایت فصاحت سے
انہیں سمجھایا کہ اس خوارو زبوں قوم پر رحم کرتے ہوئے حکومت کا ٹینٹوا دبا کر اپنے لیے مزید تین سال حاصل کرلیں۔ جب سہ سالہ توسیع کی فریاد نہ سنی گئی تو بات دوسال اور پھر ایک سال پر آگئی۔ ان کے کچھ ہمدرد تو ایسے بھی تھے جو ازخود حکومت کے پاس پہنچ کر اس معاملے کی تفصیلات طے کرنے لگے۔ پچھلے سال نومبر میں جب ان کی سپاہ سالاری کے دوسال مکمل ہوئے تو توسیع کا راگ اپنے بلند ترین سروں کو چھونے لگا۔ہمارے ملک میںجہاں حکومت طلبی اور جاہ پرستی سرے سے کوئی عیب ہی نہیں، جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر خود کو بلند تر ثابت کردیا اور سرکاری طور پر بیان جاری کردیا کہ مدت ِ ملازمت میں ایک دن کا بھی اضافہ ان کے پیشِ نظر نہیں۔
جنرل راحیل چیف آف آرمی سٹاف بننے سے پہلے ہی دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے رہے ہیں اور اپنا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائیوں کو مربوط انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ جب حکومت نے آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو گویا ان کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری پوری قوم نے لے لی۔ انہوں نے صاف ذہن کے ساتھ یہ کام شروع کیا اور روزانہ کی بنیاد پر پیش قدمی جاری رکھی۔ ایک فوجی کے سادہ اور پرجوش انداز میں کام کرتے ہوئے انہوں نے دہشت گردی کی تعریف اتنی وسیع کردی کہ
اس سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں۔ مثلاََ انہوں نے کرپشن کو بھی دہشت گردی کی ایک شکل بنا کر پیش کیا اور سندھ میں اس الزام کے تحت گرفتار ہونے والے بھی دہشت گرد قرار پائے جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور ان کے درمیان ایسی خلیج پیدا ہوگئی جو اب تک پاٹی نہیں جاسکی۔ اسی طرح ''دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘ کا بیان جب ان کے ماتحتوں سے ہوتا ہوا نیچے تک پہنچ کر پالیسی میں ڈھلا تو مذہبی طبقہ بھی ان سے بدگمان ہونے لگا۔ پھر ان کی زبان سے گورننس اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرامد کی بات نکلی توان کی مقبولیت سے نالاں سول حکومت کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے جواب دینا پڑا۔بیانات اور جوابی بیانات کی اس مشق سے نکلا تو کچھ نہیں البتہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کچھ مشکل ضرور ہوگئی۔یہ مشکل چھوٹی سہی مگر جنرل کے جانشین کو وراثت میں ملے گی۔
کہتے ہیں سپاہی کا مرتبہ اس کی وردی پر جمی کارزار کی دھول اور سینے پر لگے زخموں سے ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جو لڑائی شروع کی تھی وہ ابھی جاری ہے مگر ان کی وردی پر لگی اگلے مورچوں کی مٹی بتاتی ہے کہ ہمارے کماندار نے سرداری کی پروا کی نہ غنیمت کا لوبھ رکھا۔غلطیاں کون نہیں کرتا، اختلاف کس سے نہیں ہوتا مگر ایسے کتنے ہیں جو بے پناہ مقبولیت اور طاقت کو جھیل جائیں ؟ ہم نے ان گنت چھوٹوں کو دیکھا جنہیں اختیار ملا تو بڑے ہوگئے ، جب واپس لیا تو مزید چھوٹے ہوگئے۔ یہ سپاہی تو خوب نکلا جو منصب دار ہوکر بڑا ہوا اورمنصب چھوڑ کر زیادہ بڑا۔ ایسے کھرے سپاہی کوبھی کوئی شکریہ نہ کہے ؟