چھ مہینے ہوتے ہیں کہ حکومت پنجاب کے مشیر برائے ترقی و معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے چند صحافیوں کو بلایا کہ انہیں پنجاب کی معاشی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ بتایا جا سکے۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے واقع وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ایک کمرے میں اس ملاقات کا بندوبست کیا گیا۔ نہایت عمدہ چھپے ہوئے کچھ کتابچے تھے جو ہمارے سامنے میز پر رکھے تھے جن میں اگلے تیس سال کے بارے میں پنجاب کی آبادی اور اس کی ضروریات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب ماضی میں پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں اس لیے ان کتابچوں میں پاکستان کے آئندہ تیس سال کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا گیا تھا۔ ڈاکٹر سلمان شاہ معاشیات کے بارے میں بولتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے خیالات‘ دلائل اور معلومات کا ایک دریا ہے‘ جو بہتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن بھی انہوں نے بولنا شروع کیا تو اپنے مخاطبین کی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آسان زبان میں تین نکتے سمجھائے۔ پہلا یہ کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کو ہنر مند بنا کر ملک میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے‘ دوسرا یہ کہ ملک کے بڑے شہروں کو ان صنعتی سرگرمیوں کے مراکز کے طور پر تیار کیا جائے اور تیسرے یہ کہ زراعت میں جدید ترین رجحانات متعارف کرا کے پیدوار بڑھائی جائے۔ یہ تین نکات ایسے ہیں‘ جن سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی روزگار‘ رہائش اور خوراک کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے‘ اس لیے ان تین خطوط پر آج ہی سے کام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بات ختم کی اور سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے پوچھا‘ کیا پاکستان کی موجودہ بیوروکریسی یہ کام کر سکتی ہے؟ ان کا جواب تھا: نہیں‘ ان کاموں کے لیے ہمیں بیوروکریسی کو بھی از سر نو ترتیب دینا پڑے گا۔ گویا چوتھا کام یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سرکاری شعبے میں لایا جائے جو جدید شہروں کی ضروریات کو سمجھ سکیں‘ زراعت میں وہ لوگ آئیں جنہیں دنیا میں ہونے والی جدید ترین تحقیق کا اندازہ ہو اور صنعتی ترقی ان کے سپرد ہو جنہیں مشین اور انسان کے تال میل سے کچھ بنانا آتا ہو۔
ڈاکٹر سلمان شاہ جو کچھ بتا رہے ہیں دراصل پاکستان کے لیے معاشی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی بے روزگاری اب مسئلے سے بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہر سال جو بیس لاکھ لوگ ملک کی افرادی قوت میں داخل ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کسی پیداواری ہنر سے بے بہرہ ہیں۔ دنیا میں جن ملکوں نے صنعتی ترقی کی انہوں نے سب سے پہلے اپنے لوگوں کی تربیت پر توجہ دی‘ لیکن ہمارے ہاں یہ کام کبھی ریاستی توجہ کا مستحق نہیں ٹھہرا۔ پچھلی حکومت نے ذوالفقار چیمہ کو نیشنل ووکیشنل اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا تو انہوں نے اپنے طور پر اس ادارے کے ذریعے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی کوشش کی تھی‘ ورنہ ان سے پہلے یہ کام کسی نے محنت سے کیا تھا نہ ان کے بعد کسی کو یہ توفیق ہوئی۔ ہمارے نوجوانوں کی عمومی حالت یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی کام لیا جا سکتا ہے تو سوائے مزدوری کے کچھ نہیں اور ہنر مند نہ ہونے کی وجہ سے رویہ بھی غیر پیشہ ورانہ ہو چکا ہے۔ اپنے اسی فن اور رویے کے ساتھ یہ لوگ بیرون ملک بھی جا رہے ہیں تو کم ترین معاوضے والی نوکریوں پر جبکہ ان کے مقابلے میں بھارت‘ بنگلہ دیش اور فلپائن کے لوگ اپنی ہنر مندی اور اچھے رویے کی وجہ سے چھاتے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے ایک چینی سرمایہ کار نے پاکستان کی افرادی قوت کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ ''یہاں کی لیبر صرف اینٹیں اٹھانے یا رکھنے کا کام کر سکتی ہے اور وہ بھی غلط طریقے سے‘‘۔ دنیا میں مزدوروں کی پیداواری صلاحیت کے جو بھی جائزے شائع ہوتے ہیں‘ ان میں بنگلہ دیش کا نام شامل ہو چکا ہے‘ لیکن پاکستانی لیبر کسی قطار شمار میں ہی نہیں۔ ہنر مند نہ ہونا ان نوجوانوں کا قصور نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کا قصور ہے‘ لیکن مصیبت یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس بارے میں کچھ نہیں کر رہی۔ یوں بے ہنر نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد معاشرے کو کس طرف لے جائے گی‘ کوئی نہیں جانتا۔
صنعتی ترقی میں بڑے شہر اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ چین نے بھی اسی راستے پر چل کر ترقی کی ہے۔ انہوں نے شہروں کو صنعت کا مرکز بنایا اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان کی ایک ایک فیکٹری ہمارے شہروں کے برابر ہے۔ دنیا بھر میں بڑے شہر ہی سب سے بڑی منڈیاں ہوا کرتے ہیں۔ قومیں انہی کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں نجانے کیوں یہ تصور پیدا ہو گیا تھا کہ دیہات کو ترقی دینا دراصل ترقی ہے۔ اس سوچ پر چلتے ہوئے دیہات تک بجلی گیس تو پہنچ گئی لیکن شہروں کی آبادی میں اضافہ نہیں رکا۔ اس لیے قابل عمل راستہ یہی ہے کہ اپنے شہروں پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کے کئی شہر ماضی میں خاص مصنوعات کے حوالے سے ممتاز رہے ہیں‘ لیکن پالیسیوں کا الٹ پھیر انہیں برباد کیے جا رہا ہے۔ سیالکوٹ میں سرجری کے آلات اور کھیلوں کا سامان‘ وزیر آباد کے چھری کانٹے‘ حیدر آباد کی چوڑیاں‘ چنیوٹ کا فرنیچر‘ سرگودھا میں بجلی کے سوئچ‘ شکار پور میں اچار کی طرح کئی مثالیں موجود ہیں جن پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہی شہر ترقی کے انجن بن سکتے ہیں۔
مہنگائی ختم کرنے کا ہر دعویٰ باطل ہے‘ اگر اس کے ساتھ زراعت پر کام نہ کیا جائے۔ ہم چاہے یوٹیلٹی سٹورز کو سبسڈی دیں یا اجناس کی درآمد کھول دیں مہنگائی اسی وقت ختم ہو گی جب زراعت پر توجہ دی جائے گی۔ دنیا بھر میں کاشتکار حکومت کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے کہ اس نے ملک کو خوراک مہیا کرنا ہوتی ہے۔ امریکا‘ یورپ‘ بھارت کوئی ملک دیکھ لیں زراعت کو سبسڈی دے کر ہی چل رہے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر زراعت کو مناسب سبسڈی دی جائے تو ڈیڑھ سال کے اندر اندر پاکستان میں انقلاب آ سکتا ہے۔ ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جو ترقی ہوئی اس کی بنیاد سبز انقلاب تھا‘ جس کی بنیاد پر ملک میں صنعتی ترقی بھی تیز ہو گئی۔ ایک بار کاشتکار کو یقین دلا دیا جائے کہ اس کی اضافی پیداوار کی مناسب قیمت پر خریداری یقینی ہو گی تو ملک میں اشیائے ضرورت اتنی وافر ہو سکتی ہیں کہ کسی کو مہنگائی کا شکوہ ہی نہیں رہے گا۔ اگر یہ نہیں کرنا تو پھر حکومت جو چاہے کرتی رہے‘ مہنگائی کم نہیں ہو سکتی۔ یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ دیہی ترقی زراعت کی ترقی نہیں ہے۔ گاؤں میں بجلی گیس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں کی زمینیں بھی سونا اگلنے لگیں‘ اس کے لیے بہت کچھ اور کرنا پڑتا ہے۔
پچھلے دنوں جب وزیر اعظم ملائیشیا گئے تھے تو واپسی پر انہوں نے اپنے طیارے میں اسد عمر سے ملک کی معاشی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی تھی۔ اس کے بعد ملک کے کئی ماہرین معاشیات بھی انہیں حقائق سے آگاہ کر چکے ہیں‘ گویا ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کا ملکی معیشت پر قبضہ ختم ہو رہا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے استاد شاگرد کی اس جوڑی نے اپنے غیر حقیقی خیالات پر مبنی جو معیشت ہم پر ٹھونسی ہے اس کا اختتام ہو رہا ہے اور لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو پھر ڈاکٹر سلمان شاہ سے بھی تفصیلی بات چیت کر لیں اور ان کے تجویز کردہ منصوبے کے مطابق ملک میں کام کا آغاز کر دیں تو مہینے اور سال نہیں ہفتوں کے اندر معاملات ٹھیک ہونے لگیں گے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو منصوبہ ان کے بغل میں ہے اور کچھ نہیں کرنا تو لگے رہیں خیالی مافیاؤں سے لڑنے۔