مجیب الرحمٰن شامی صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک بار جنرل ضیاالحق نے انہیں مشاورت کے لیے بلایا اور ان کے سامنے پارلیمانی نظامِ حکومت کی خرابیاں بیان کرکے صدارتی نظام نافذ کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا ''آپ جیسے دانشور صدارتی نظام کی حمایت نہیں کرتے‘‘۔ شامی صاحب نے یہ تجویز سن کر ایک لمحہ توقف کے بغیر اس پر رضامندی ظاہر کردی۔ ان کو اپنی تجویز کا حامی پاکر جنرل ضیاالحق کی آنکھوں میں چمک آگئی اور انہوں نے پوچھا ''اس پر عملدرآمد کا طریقہ کیا ہوگا؟‘‘ شامی صاحب نے جواب دیا: ایک شرط پر۔ جنرل ضیاالحق اشتیاق سے ہمہ تن سوال ہوگئے۔ انہوں نے کہا، ''اگر آپ صدارتی نظام نافذ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیں کہ آپ صدر کے امیدوار نہیں ہوں گے‘‘۔ یہ سن کر جنرل ضیاالحق کا چہرہ غصے میں سیاہ پڑ گیا اور انہوں نے بات بدل ڈالی۔ اس گفتگو کے بعد صدارتی نظام کی بات ختم ہوگئی۔ جنرل ضیاالحق بطور صدر ہی حکومت کرتے رہے؛ البتہ دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے انہوں نے صدر کو اسمبلی توڑنے اور مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر کا اختیار دے دیا۔ ان کے بعد ایک بار پھر پارلیمانی نظامِ حکومت لوٹا تواس میں سے صدر کے اسمبلی شکن اختیارات نکالنے میں سیاستدانوں کے اگلے دس برس گزرگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اختیار کے خاتمے کے ساتھ ہی جنرل پرویز مشرف 'عزیز ہموطنوں‘ کی خدمت کی غرض سے چند ماہ کیلئے چیف ایگزیکٹو اور پھرآٹھ سال تک صدر ہی رہے۔
صدارتی نظام کا تصور پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گورنر جنرل قائداعظم تھے اور عملی طور پر اختیار نہ رکھنے کے باوجود ملک کی طاقتور ترین شخصیت تھے۔ ان کا ہر لفظ حکم تھااور وزیراعظم سمیت کوئی شخص ان کے سامنے چون و چرا نہیں کرسکتا تھا۔ سیاسی نظام پر گورنرجنرل کی اس غیررسمی گرفت کو پاکستان کے دوسرے گورنرجنرل خواجہ ناظم الدین صرف قائداعظم کیلئے مخصوص سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے حکومت کے روزمرہ امور میں کبھی دخل اندازی نہیں کی تھی۔ ان کے بعد جب غلام محمد جیسا عیار بیوروکریٹ اس عہدے پرآیا تو اس نے اپنے لیے وہی کردار حاصل کرنا چاہا جو قائداعظم ادا کررہے تھے۔ غلام محمد صاحب نے غیرقانونی طور پر اسمبلی توڑی تو اس کے اس اختیار کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے جواز بخش دیا۔ اس کے بعد گورنرجنرل کا عہدہ تھا یا صدر کا منصب، طویل عرصے کیلئے سازشوں اور سازشیوں کا ہتھیار بن گیا۔ اس کے ساتھ ہمارے سیاستدانوں کی پے درپے نالائقیوں نے بھی ایسا ماحول پیدا کردیا کہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب دار کی طرف سے ان کے خلاف کیا گیا ہر اقدام درست ہی معلوم ہوتا تھا۔ راتوں رات وفاداریاں بدل لینا، وزیراعظم کو بلیک میل کرنا، اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے کسی بھی حد سے گزر جانے کا طرز عمل تھا بھی ایسا کہ عوام کا معتدبہ حصہ ان سے بیزار ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی بیوروکریسی اور مقتدرہ میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ ملک میں نظم وضبط کیلئے امریکی صدارتی نظام کی طرز پر ملک کا اعلیٰ ترین انتظامی عہدہ صدر ہونا چاہیے تاکہ اسے سیاسی بلیک میلنگ سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اسی پس منظر میں جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے عزیز ہموطنوں کی خدمت کا عزم کیا تو 1962 میں اپنے لیے نیا دستور بنا کر اس میں صدر کا عہدہ اپنے لیے چن لیا۔ بلاشبہ ان کا دور حکومت پاکستان میں ترقی کا دور تھا۔ جنرل ایوب خان کی بطور منتظم کامیابی نے ملک میں ایک مستقل خیال پیدا کردیا کہ ترقی کیلئے جمہوریت کی کوئی خاص ضرورت نہیں‘ صرف صدارتی نظام ہونا ہی کافی ہے۔ بانیانِ پاکستان میں سے ایک چودھری خلیق الزماں تو جنرل ایوب کی کارکردگی سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ اپنی کتاب میں جمہوریت کو پاکستان کیلئے بے معنی قرار دے کر مستقل آمریت کے قیام کی تجویزتک دے گزرے۔ معاشی ترقی کے اس دورکی وجہ سے کئی دلوں میں صدارتی نظام اور ترقی کے باہمی تعلق نے جڑ پکڑ لی۔ اس کے بعد یہ پودا جمہوریت کی دراڑوں میں نم پاکر ہمیشہ پھلتا پھولتا رہا۔
جنرل ضیاالحق اقتدار میں آئے تو ایک بار پھر وہی سوال اٹھا کہ ملک چلانے کیلئے کون سا نظام موزوں ہے۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے جید کارکن ظفراحمد انصاری کے ذمے یہ کام لگایا کہ ملک کو پٹڑی پر ڈالنے کیلئے اصلاحات تجویز کریں۔ انہوں نے جو رپورٹ پیش کی اس کی تیاری میں مولانا تقی عثمانی بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ ظفراحمد انصاری خود یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے، جدید سیاسی نظریات سے بخوبی آگاہ تھے اور انیس سو تہتر کا دستور بنانے میں ان کا کردار بھی اہم تھا۔ اس پس منظر کے باوجود انہوں نے جو نظام پاکستان کیلئے تجویز کیا اس کے مطابق فرانس کی طرز کا صدارتی نظام، سیاسی جماعتوں کے بغیر متناسب نمائندگی کے تحت قانون ساز اسمبلی کے الیکشن اور ملک میں ایک درجن سے زائد انتظامی یونٹ یعنی صوبے بنانا تجویز کیا گیا تھا۔ ان کی یہ تجاویز انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے معروف ہوئیں۔ اس رپورٹ کے بعد شعوری یا غیرشعوری سطح پر صدارتی نظام اور صوبوں کی تشکیل نو ملکی ترقی کیلئے ضروری قرار پائی جبکہ جمہوریت اور سیاستدان ترقی کے راستے میں مستقل رکاوٹ کے طور پر دیکھے جانے لگے۔ اپنے سیاستدانوں کی حرکتیں دیکھیں تو آج بھی یہ خیال اتنا بے بنیاد معلوم نہیں ہوتا۔
جنرل پرویز مشرف نے اصلاحات تجویز کرنے کا کام جنرل تنویرنقوی مرحوم کو سونپا تھا۔ انہوں نے بھی دلجمعی سے اپنا کام کیا اور دو بنیادی اصلاحات تجویز کیں۔ ان کا ایک نکتہ تو یہ تھا ملک کے سبھی ڈویژن صوبے بنا دیے جائیں اور ضلعی سطح پر ایک بااختیار مقامی حکومت قائم کی جائے۔ ان کی پہلی تجویزمیں کچھ خاص نہیں تھا لیکن ضلعی حکومتوں نے پاکستان میں باقاعدہ ایک سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کردی۔ کراچی سے لے کرچترال تک اختیارات نیچے تک منتقل ہوئے تو ترقی کی رفتار تیز ہوگئی۔ بعض لوگوں نے اس نظام کوملک میں صدارتی نظام کا دیباچہ قرار دیا مگر یہ طے ہے کہ اس سے عام آدمی کو اختیار ملا۔ ظاہر ہے عام آدمی کو اختیار ملنا تو پیشہ ور سیاستدانوں کیلئے قیامت ہوگیا۔ جیسے ہی پرویز الٰہی نیم جمہوری نظام میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے انہوں نے دنیا کے اس بہترین بلدیاتی نظام کو تباہ کردیا۔ ان کے بعد مکمل جمہوریت میں شہباز شریف اقتدار میں آئے توانہوں نے اس نظام کو مکمل طور پر برباد کرکے ملک کو پیچھے دھکیل دیا۔
پاکستان میں صدارتی نظام دراصل یکے بعد دیگرے آنے والے سادہ ذہن آمروں کا خیال ہے۔ اس لیے جب بھی صدارتی نظام پر کوئی بات شروع ہوتی ہے تو اسے انہی آمروں سے منسوب کرکے رد کردیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے صدارت نظام کو غیرجمہوری یا آمرانہ نظام سے مشابہت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل صدارتی نظام اتنا ہی جمہوری ہے جتنا پارلیمانی نظام۔ چونکہ ہمارے آمر ہوں یا جمہوری حکمران اپنے ذاتی مسائل کے علاوہ کچھ بھی سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری رہے ہیں اس لیے آمروں کو دستورمیں غلطی دکھائی دیتی ہے تو سیاستدان اصلاح کے ہر تقاضے میں سازش دیکھتے ہیں۔ ایک جنرل پرویزمشرف کے سوا کوئی سامنے کی بات سمجھنے کو تیار نہیں ہوا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں نظام حکومت چاہے پارلیمانی ہے یا صدارتی، ہر صورت میں وہاں ایک طاقتور بلدیاتی نظام موجود ہے جوعوام کی شرکت سے ترقی کا رخ متعین کرتا رہتا ہے۔ صدر یا وزیراعظم اپنے آپ کو پالیسی، قانون سازی اور بہترین ٹیم بنانے تک محدود رکھتے ہیں۔ ہمارے اکابرین کی طرح صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام کی بے معنی بحثوں میں نہیں الجھے رہتے۔