یہ سترہ سو پچیس یعنی آج سے دو سو ستانوے برس پہلے کا واقعہ ہے۔ انگلستان کے ایک معزز شخص جان ایورٹ نے اپنے وکیل کی مدد سے ایک دیوانی عدالت میں اپنے شراکت دار جوزف ولیمز کے خلاف تفہیم حساب کا مقدمہ دائر کیا۔ جان ایورٹ کا دعویٰ تھا کہ وہ جوزف کے ساتھ مل کر مختلف مصنوعات کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔ ان مصنوعات میں قیمتی گھڑیاں، سونے چاندی کے زیورات، قیمتی قالین، نگینے، گھوڑے، تلواریں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ جان ایورٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انگلستان کے چند قصبوں سے انہوں نے یہ اشیا حاصل کیں اور دوسرے قصبوں میں بیچ ڈالیں۔ اس دعوے کے مطابق یہ دونوں شراکت دار اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہ قیمتی اشیا بہت ہی کم سرمایہ کاری کے ساتھ خریدتے ہیں اور پھر انہیں مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ جان کا دعویٰ تھا کہ جوزف کے ذمے کچھ سامان کی فروخت تھی اور اس فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کا بڑا حصہ جوزف نے خود رکھ لیا جبکہ اسے طے شدہ شرح سے دونوں کے درمیان تقسیم ہونا تھا۔ جان نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسے جوزف سے پیسے دلوائے جائیں۔
عدالت نے مقدمے کے حالات جان کر فوری طور پرمدعا علیہ کو نوٹس جاری کردیا کہ روبرو عدالت کے آئے اور اپنا دفاع کرے۔ نوٹس پاکر جوزف نے ایک ذمہ دار شہری کے طور پروکیل کیا اور عدالت میں چلا آیا۔ جوزف نے مدعی کے اس بیان کی تصدیق کی کہ وہ اس کا شراکت دار ہے لیکن یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ اس نے کوئی بے ایمانی کی ہے۔ جوزف نے جو تحریری حساب کتاب عدالت میں پیش کیا اس کے بڑے حصے کو جان نے بھی ایمانداری سی تسلیم کیا لیکن سونے کی ایک گھڑی کے منافع میں سے پورا حصہ نہ ملنے کی شکایت پر اصرار کیا۔ عدالت ان دونوں ذمہ دار شہریوں کے رویے سے بڑی متاثر ہوئی اور انہیں اس معاملے کو عدالت سے باہر سلجھانے کے لیے وقت دے کر اگلی تاریخ مقرر کردی۔ مقررہ تاریخ پر یہ دونوں اپنے وکلا سمیت دوبارہ معزز عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ ہم یہ معاملہ عدالت پر چھوڑتے ہیں۔ عدالت کے جج صاحب نے دونوں طرف کے دلائل سننے سے پہلے مقدمے کی مثل ذرا غور سے پڑھی تو علم ہوا کہ جس سامان کی قیمت فروخت دو سو پاؤنڈ بتائی گئی ہے، اس پر اصل خرچہ دس پاؤنڈ سے بھی کم ہے۔ اتنی غیر معمولی شرح منافع نے جج صاحب کو چونکا دیا اور انہوں نے مقدمے کے دونوں فریقوں سے کاروبار کی نوعیت کے بارے میں دریافت کیا۔ جج صاحب کے اس سوال پر دونوں وکیل فوری طور پر اپنے مؤکلوں کی مدد کو آئے اور عدالت کو بتایا کہ فلاں فلاں قانون کی فلاں فلاں شق کے مطابق اور اس کی ذیل میں دیے گئے ضابطے کے مطابق عدالت یہ سوال نہیں پوچھ سکتی۔ عدالت نے ان دونوں فاضل وکلا کو تنبیہ کی کہ فلاں فلاں قانون کی فلاں شق اور فلاں قاعدے کے مطابق عدالت بنائے دعویٰ کو جاننے کا پورا حق رکھتی ہے۔
عدالت کا اصرار بڑھتا رہا اور وکیلوں کے انکار میں بھی شدت آتی چلی گئی۔ عدالت آخر عدالت ہوتی ہے اس نے کچھ مزید سوالات پوچھنا شروع کردیے جن کا جواب دینے سے وکیلوں اور ان کے مؤکلوں نے انکار کردیا۔ جج صاحب نے دباؤ بڑھایا تو پتا چلا کہ معزز فریقین مقدمہ جان ایورٹ اور جوزف ولیمز دراصل ڈکیت ہیں۔ جن جن قصبوں میں اپنے کاروباری معاملات کا انہوں نے ذکرکیا تھا دراصل وہ جگہیں تھیں جہاں مسلح ڈکیتیاں کرکے انہوں نے قیمتی اشیاء حاصل کی تھیں اور دوسروں کو بیچی تھیں۔ عدالت یہ سارا معاملہ جان کر دنگ رہ گئی۔ وکیلوں نے دہائی دی کہ ڈکیتیوں کا مقدمہ سول عدالت میں نہیں چل سکتا اور ایک مقدمے میں دوران سماعت جج کے علم میں آنے والے واقعات کی بنیاد پر دوسرا مقدمہ نہیں بن سکتا وغیرہ وغیرہ۔ عدالت نے وکلا کی بحث تحمل سے سنی اور تیرہ نومبر سترہ سو پچیس کو دو ہفتے کی سماعت کے بعد یہ مقدمہ خارج کردیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالتیں ڈکیتوں کے درمیان لوٹ کے مال کی تقسیم میں حصہ دار نہیں بن سکتی۔ اس کے ساتھ ہی دونوں معزز وکلا پر پچاس پچاس پاؤنڈ کا جرمانہ کردیا، جو جان بوجھ کر یہ مقدمہ عدالت میں لائے تھے۔ قانون کی تاریخ میں یہ مقدمہ ہائی وے مین یعنی ڈاکوؤں کے مقدمے کے نام سے مشہور ہوا اور یہیں سے یہ قانونی اصول بنا کہ جو بھی عدالت میں کوئی مقدمہ لے کر آئے اسے صاف ہاتھوں کے ساتھ آنا ہوگا، یعنی اسے کسی جرم میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور مال مقدمہ بھی کسی جرم کے ذریعے حاصل شدہ نہیں ہونا چاہیے۔
اس فیصلے کے دو سال بعد اس مقدے کے مدعا علیہ یعنی جوزف ولیمز کواس کے جرائم پر پھانسی دے دی گئی۔ اس کی پھانسی کے تین سال بعد مقدمے کے مدعی یعنی جان ایورٹ کو بھی پھانسی ملی۔ اس مقدمے کو عدالت میں لڑنے والے ایک فاضل وکیل بذات خود بھی سترہ سو پینتیس میں ڈکیتی کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ انہیں بھی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی جسے غالبا وکلا برادری کے احتجاج پر بدل کر جلا وطنی سے بدل دیا گیا۔ فاضل وکیل نے یقینا کوئی اپیل وغیرہ کی ہوگی جس کی وجہ سے ان کو وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی‘ جہاں انہوں نے دوبارہ وکالت کا آغاز کردیا۔ کئی سال قانون کے سینے پر مونگ دلنے کے بعد ان وکیل صاحب کو سترہ سو اٹھاون میں وکالت سے روک دیا گیا۔
آپ کو اس مقدمے کے واقعات جان کر اگر یہ احساس ہورہا ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کی سیاسی صورتحال سے ہے تو میں واضح لفظوں میں عرض کردوں کہ اس خاکسار کے ذہن میں ایسا کچھ نہیں۔ خاص طور پر ایک مجرم کی وطن واپسی کے متعلق آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ آپ کی اپنی سوچ ہے اور آپ ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں وفاداریاں بدلنے والے آرہے ہوں تو یہ کالم نگار اس خیال کی بھی سختی سے تردید کرتا ہے۔ آپ نے اگر یہ اندازہ لگایا ہے کہ میں نے تحریک عدم اعتماد کے فریقوں کے بارے میں کوئی بات کی ہے تو میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس فقیر نے وطن عزیز کو لوٹ کا مال قرار دینے کی کوشش کی ہے تو میں آپ کی اس سمجھ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ یہ خاکسار صرف اور صرف صحافی ہے اور سیاست کا تجزیہ کرنا اس کا روزگار ہے۔ لیکن آج کل کے حالات میں ہر طرف سیاست سیاست ہورہی ہے اس لیے فدوی بحیثیت صحافی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس ماحول میں بھی اپنے سننے والوں، پڑھنے والوں اور دیکھنے والوں کے علم میں اضافہ کرے۔ ویسے تو پاکستان میں کسی کے بھی علم میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن میں نے بطور صحافی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے آپ کے علم میں کچھ اضافے کی کوشش ضرور کی ہے۔ سو آج میں اسی فرض کی تکمیل کررہا ہوں۔ ڈاکوؤں کے مقدمے کے حالات سے کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی جس کا ذمہ دار یہ غریب صحافی ہرگز نہیں۔ اب میں محض تذکیر کے لیے میں اپنے نکات ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں، جو میں نے آپ کا سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
1۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرے پر عدم اعتماد کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اپنے ہاتھ صاف ہوں۔
2۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دونوں فریق اپنا معاملہ باہر باہر نمٹا لیں تو اچھا ہوتا ہے، تیسرے کو بیچ میں ڈالیں گے تو ہو سکتا ہے دونوں پکڑے جائیں۔
3۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کبھی کبھار بہت ایماندار نظر آنے والا وکیل بھی ضروری نہیں کہ ایمان دار ہی ہو۔
وما علینا الاالبلاغ