ماہِ رمضان المبارک اور میدانِ جہاد...(3)

(اخلاقی اور تربیتی پہلو)
فوجی دستوں کے تذکرے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انصار کے دستوں کی کمان سید الخزرج حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھی۔ جب انھوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو پہچان لیا اور جوش میں آکر نعرہ لگایا: ''اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَہ۔‘‘ یعنی آج کا دن خون کی ندیاں بہانے کا دن ہے۔ آپؐ نے فرمایا:اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَرْحَمَہ آج خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپؐ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓسے منصب واپس لے لیا اور ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کو بھیجا کہ وہ جا کر کمان سنبھال لیں۔ آپؐ نے اپنا عمامہ مبارک بھی قیس کے ہاتھ بھیجا تو حضرت سعدؓ نے اسے پہچان لیا اور بلا تردد عَلَم اور کمان اپنے بیٹے قیس بن سعدؓ کے حوالے کر دیے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبادہؓ سے آنحضورﷺکے حکم کے مطابق اس دستے کی کمان حضرت زبیربن العوامؓ کے حوالے کی گئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱،ص۸۴۸)
نبی اکرمﷺکداء جو مکہ کے زیریں علاقے میں واقع ہے کے راستے شہر میں داخل ہوئے۔ آپؐ اس وقت اپنی ناقہ قصویٰ پر سوار تھے اور لوگوں نے دیکھا کہ آپؐ نے کجاوے کے اوپر ہی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ آپؐ کی زبان پر تہلیل و تحمید جاری تھی۔ آپؐ مسلسل فرمارہے تھے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ ہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجزانہ انداز میں مکہ میں داخل ہونے کی تفصیلات صحیح احادیث کے ابواب مغازی، تاریخ میں البدایۃ والنہایۃ ج۱،ص۸۴۷ اور سیرۃ ابن ہشام ج۴، ص۴۸ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ آپؐ اس وقت سورۃ الفتح کی تلاوت فرمارہے تھے۔ اس کا تذکرہ امام بخاری نے فتح مکہ کے باب میں حضرت عبداللہ بن مغفلؓ کی زبانی کیا ہے۔ جس مکہ سے
آپ کو ظلم و ستم کے ساتھ نکالا گیا تھا، اس میں صرف آٹھ سال کی مختصر سی مدت میں فاتحانہ واپسی ایک عظیم معجزہ ہے۔ نکلتے وقت بظاہر بے بسی مگر حوصلہ بلند! فاتحانہ داخلے کے وقت پوری قوت مگر یہ عجز و انکسار! فداک روحی و نفسی و ابی وامی یا رسول اللہ! بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر! جب آپؐ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت حضرت اسامہ بن زیدؓ آپ کے پیچھے آپؐ کی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس موقع پر ایک شخص آپ کو راستے میں ملا، وہ آپ سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا لیکن اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ آپؐ نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ کے بندے پرسکون رہو۔ میں ایک ایسی قریشی خاتون کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کے ٹکڑے پکا کر کھایا کرتی تھیں۔ بعض روایات میں کسی خاتون کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آنحضور ﷺ سے ملاقات کے وقت لرزہ براندام ہوگئی تو آپؐ نے اس سے بھی یہی فرمایا۔ یہ عظمت اور یہ انکسار! سبحان اللہ! یہ آمنہ کے درِّ یتیم ہی کا کمال اور انسانیت پر احسانِ عظیم ہے۔ امام ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ میں یہ واقعہ لکھا ہے۔ (ج1، ص848)
نبی اکرم ﷺ نے عام اعلان کردیا تھا کہ جو بیت اللہ کی حدود میں داخل ہوجائے وہ مامون ہے۔ اسی طرح جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے وہ بھی محفوظ ہے۔ آپ نے ابوسفیان کے علاوہ حکیم بن حزام اور جبیر ابن مطعم کے گھروں کو بھی مامون قرار دیا، جو بھی ان میں چلا جائے اس سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو اپنے گھر میں داخل ہوجائے اور دروازہ بند کرلے اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھر کو بھی امن کا گہوارہ قرار دیا۔ آنحضورﷺ کا مذکورہ بالا تین سرداروں کے ساتھ یہ حسن سلوک آپ کی بلندیٔ شان کی دلیل ہے۔ یہ ان چودہ افراد میں شامل تھے جنھوں نے ہجرت کی رات آپ کے گھر کا محاصرہ کررکھا تھا۔ باقی گیارہ تو بدرمیں قتل ہوگئے اور یہ بچ گئے۔ قربان جائیںمحسن انسانیت کے حسنِ خلق پر!
آپؐ نے خانہ کعبہ میں داخلے کے وقت تکبیر بلند آواز سے کہی تھی اور صحابہ نے بھی مسلسل تکبیر کے نعرے لگائے مگر کچھ دیر بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں منع فرمایا کہ وہ سکوت اختیار کریں۔ یعنی دل میں تکبیر، تحمید، تہلیل اور تقدیس پڑھیں۔ پھر صحابہ کے سامنے نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر سورۃ الفتح کا آخری رکوع بھی تلاوت فرمایا۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اس رکوع کی تلاوت فرمائیں۔ صاحبِ قرآنﷺان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے تو پورے ماحول پر سکینت کی چادر تن گئی تھی۔ صحابہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حرمِ مکہ کے درو دیوار بھی جھوم اٹھے اور مقامِ ابراہیم و چشمۂ زمزم پر بھی ایک روحانی کیفیت طاری تھی۔ حجرِ اسود بھی جیسے گوش برآواز تھا اور صفا و مروہ بھی نبیٔ رحمت اور ان کے قدسی صفت صحابہ کی زیارت سے گویا جھوم اٹھے تھے۔ تلاوت کے بعد آپؐ اپنی سواری سے اترے اور مقام ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل پڑھے۔ طواف کے دوران آپؐ اپنی چھڑی سے حجراسود کو مس کرتے اور بوسہ دیتے۔ اسی موقع پر آپؐ نے مقام ابراہیم کو، جو خانہ کعبہ کی دیوار کے بالکل قریب تھا، وہاں سے ہٹانے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے خود اس مقام کا تعین فرمایا جہاں وہ آج تک نصب ہے، آپؐ نے اس کے بعد زمزم کا پانی پیا اور اس سے وضو کی تجدید بھی فرمائی۔ 
حضرت عباسؓ نے زمزم کے کنویں سے پانی کا ڈول نکالا اور آپؐ کو پلایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں چاہتا تھا کہ خود پانی کے ڈول کھینچوں مگر میں نے اس حکمت کے تحت ایسا نہیں کیا کہ کہیں لوگ اس خیال سے کہ اللہ کے نبیؐ نے ڈول کھینچے تھے، ڈول کھینچنے میں کھینچا تانی اور دھکم پیل کا مظاہرہ نہ کرنے لگیں اور بنو عبدالمطلب کو اس حق سے محروم نہ کردیں۔ خانہ کعبہ کا کلید بردار عثمان بن طلحہ جو ہجرت سے پہلے آپؐ کو چابی دینے سے انکار کر چکا تھا، آج نہایت عجز وانکسار کے ساتھ آپؐ کو چابی دے رہا تھا۔ آپؐ نے خانہ کعبہ کے اندر سے تمام بتوں کو توڑ کر باہر پھینکوایا اور تمام تصویریں بھی ہٹوادیں۔ خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت اور بہت سی تصاویر آویزاں تھیں۔ آپؐ کی زبان پر اس وقت قرآن کی یہ آیات جاری تھیں: جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ سب سے آخر میں سب سے بڑا بت توڑا گیا اور یہ ہبل کا بت تھا۔ (مغازی للواقدی ج2، ص832، البدایۃ والنہایۃ ج4، ص 848)۔بتوں سے خانہ کعبہ کو پاک صاف کر دینے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کے اندر دو رکعت نماز نفل ادا فرمائی۔ اس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت بلال بن رباحؓ آپؐ کے ساتھ شامل تھے۔ حافظ ابن قیم صحیح بخاری کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ آنحضورؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے کو اپنی پشت کی جانب رکھا اور دروازہ بند کرکے نماز ادا فرمائی۔ (زاد المعاد ج2، ص 395) 
نماز ادا کرنے کے بعد آپؐ نے قریش کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا۔ سب لوگوں نے یک زبان کہا کہ ہم آپؐ سے حسن سلوک کے امیدوار ہیں۔ آپؐ بہترین بھائی اور نہایت مہربان بھتیجے ہیں (اخ کریم وابن اخ کریم)۔ آپؐ نے فرمایا کہ آج میں تم سے وہی بات کہوں گا جو میرے بھائی یوسفؑ نے اپنے برادران سے کہی تھی۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم۔ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن۔ اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَائُ۔(آج تم سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے گا۔ اللہ تمھیں بخش دے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جائو تم سب کے سب آزاد ہو)۔ خانہ کعبہ کی چابی آپ نے عثمان بن ابی طلحہ کو عطا کی جو آج تک اس کے خاندان بنوشیبہ کے پاس ہے۔ 
آپؐ نے مکہ کے تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان فرما دیا تھا مگر دس افراد ایسے تھے جن کے جرائم اتنے زیادہ اور بڑے تھے کہ انھیں اس سے مستثنیٰ رکھا گیا اور فرمایا کہ ان لوگوں کا خون مباح ہے اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے پردوں سے لپٹے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ ان لوگوں کے نام مورخین نے بیان کیے ہیں۔اگرچہ ان سب لوگوں کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا مگر اکثریت کو آنحضور ؐ نے بعد میں معاف فرما دیا۔ تین افراد قتل ہوئے۔ جنھیں قتل کیا گیا تھا وہ فی الفور صحابہ کے سامنے آگئے تھے، چنانچہ قتل ہوگئے ورنہ آنحضورؐ کی رحمت سے یہی امید تھی کہ ان کو بھی معاف فرما دیتے۔ قتل ہونے والے تین افراد میں (1)عبد اللہ بن خطل، (2) الحویرث بن نقیذ بن وہب اور (3)مقیس بن صبابہ شامل تھے۔ (الواقدی ایضاً۔ طبقات ابن سعد ج2،ص98، یہ واقعہ سیرت ابن ہشام ج4، ص 52-53 اور مغازی للواقدی ج2، ص857 پر تفصیلاً بیان ہوا ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں