ابوذرغفاریؓ کا قبولِ اسلام!

حضرت ابوذر غفاریؓ کا نام جندب بن جنادہ تھا۔ غفار قبیلہ صحرا میں رہتا تھا۔ ابوذرایک خطرناک ڈاکو کی حیثیت سے تمام قبائل میں معروف تھا۔ مائیں اپنے شریر بچوں کو اس کا نام لے کر ڈراتی تھیں۔ ڈاکہ زنی کے دوران ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں اپنا خوف پیدا کیا اور وہ اس ساری زندگی پر نادم ہوکر اللہ کے سامنے گڑگڑانے لگا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔ وہ راتوں کو اٹھ کر اپنے طریقے اور سوچ کے مطابق ایک اللہ وحدہٗ کی عبادت کرتا، مگر راستہ ابھی تک واضح نہیں ہوا تھا۔ یہ بات اہلِ کتاب کی زبانی سن رکھی کہ عن قریب اللہ کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ 
امام بخاریؒ نے حضرت ابوذر کے قبول اسلام کے بارے میں صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب انھیں کسی کے ذریعے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺکی بعثت ہوگئی ہے تو انھوں نے اپنے بھائی (اُنَیس) سے کہا تم گھوڑے پر سوار ہو کر مکے جاؤ اور اس شخص سے ملاقات کرو جو خود کو اللہ کا نبی کہتا ہے۔ پھر واپس آکر اس کے بارے میں مجھے پوری رپورٹ دے دو۔ ان کے بھائی مکہ گئے اور آنحضورﷺکو دیکھا اور آپ کی باتیں بھی سنیں اور لوگوں نے آپ کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بھی سنا۔ آپؐ کے اخلاق عالیہ کو بھی دیکھا اور پرکھا، پھر واپس چلے گئے۔ 
ابوذرغفاری کو جب اپنے تاثرات بتائے تو انھوں نے کہا: ما شفیتنی مما اَرَدْتُّ۔ یعنی مجھے جس چیز کی تلاش تھی اس کا تسلی بخش جواب تم سے نہیں ملا۔ پھر انھوں نے اپنا رخت سفر باندھا۔ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھانے کا معمولی سامان لے کر مکہ پہنچے۔ مسجد حرام میں آئے اور کسی سے پوچھے بغیر خود ہی رسول اللہ ﷺکو تلاش کرنے لگے۔ اس دوران ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے بھی ہوئی لیکن کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ ایک اور شخص بھی ملا جس سے علیک سلیک ہوئی لیکن وہ آنحضورﷺکے بارے میں کسی سے بھی سوال کرنے سے گریز کرتے رہے۔ ایک دن اور اسی طرح گزر گیا۔ یوں مسجدحرام میں زم زم کے پاس ابوذر غفاری کو حضرت علیؓ نے کئی مرتبہ دیکھا۔ خود ابوذر بیان کرتے تھے کہ انھوں نے ان ایام میں سوائے آبِ زم زم کے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ اسی سے اپنی پیاس اور بھوک بجھاتے رہے۔ آنحضورﷺکا ارشاد ہے کہ چشمۂ آبِ زم زم اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کے ذریعے سے معصوم بچے حضرت اسماعیلؑ کے پاؤں رگڑنے کی جگہ سے جاری فرمایا۔ اس پانی کے اندر یہ خوبی ہے کہ بھوک، پیاس اور بیماری سب کے لیے نفع بخش ہے۔ 
چند دنوں کے بعد جب حضرت علیؓ کو پھر انھوں نے دیکھا تو سوچا اس سے پوچھتا ہوں۔ اس روز حضرت علیؓ کے آگے آگے آنحضورﷺچلے جارہے تھے۔ ابوذر کے دل میں خیال ہوا کہ یہ جانے والے شخص ، اللہ کے نبی ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے حضرت علیؓ سے آہستگی سے پوچھا: یہ صاحب جو آپ کے آگے چلے جارہے تھے، کون ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا: اگر تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ میں جو کچھ تمھیں بتاؤں گا، تم اس کو اپنے پاس راز رکھوگے تو میں تمھیں بتا دیتا ہوں۔ ابوذرؓ نے وعدہ کیا کہ وہ کسی سے کوئی تذکرہ نہیں کرے گا۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا: فانہ حق وانہ رسول اللّٰہ۔ یعنی یہ اللہ کے رسول ہیں جن کی ہر بات سچ اور حق ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص476)
اگلا روز ہوا تو آنحضورﷺمسجد کی طرف تشریف لارہے تھے اور حسبِ سابق حضرت علیؓ آپ کے پیچھے چلے آرہے تھے۔ ابوذر نے دیکھ لیا اور وہ بھی خاموشی سے حضرت علیؓ کے پیچھے چل پڑے۔ حضرت ابوذر نے اس موقع پر محسوس کیا جیسے انتہائی صاف وشفاف پانی میں وہ تیر رہے ہوں۔ پھر حضرت علیؓ کے مشورے کے مطابق ابوذر ایک جانب بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ جب آنحضور ﷺنماز سے فارغ ہو کر گھر کی طرف چلے تو حضرت علیؓ بھی ان کے پیچھے ہولیے۔ پھر انھوں نے حضرت ابوذر غفاری کو اشارہ کیا تو وہ بھی ذرا فاصلے پر ان کے پیچھے چلتے آئیں۔ آنحضور ﷺاور حضرت علیؓ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو تھوڑی دیر بعد ابوذر بھی آگئے۔ حضرت علیؓ نے دروازہ کھولا تو ابوذر آنحضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب حضرت ابوذر نے آنحضور ﷺسے ان کا کلام سنا تو فوراً اسلام قبول کرلیا۔ یوںروایات کے مطابق وہ پانچویں شخص ہیں جنھیں سابقون الاولون میں قبول اسلام کی توفیق نصیب ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص476)
آنحضورﷺنے ابوذرؓ سے ارشاد فرمایا: ارجع الی قومک فاخبرہم حتّٰی یاتیک امری۔ یعنی اپنی قوم کی طرف واپس چلے جاؤ اور ان کو اسلام کی طرف بلاؤ۔ پھر ان کے درمیان ہی رہو جب تک کہ میرا حکم نہ پہنچے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں جانے سے پہلے بیت اللہ میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اہلِ مکہ شرک میں مبتلا ہیں، وہ یہ کلمہ سن کر تمھیں نقصان پہنچائیں گے۔ عرض کیا: میرا جی نہیں مانتا کہ میں اس کلمے کا اعلان کیے بغیر رہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ مسجد میں آئے اور بلند آواز سے کہا: اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ واَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ 
اس کلمۂ توحید کا سننا تھا کہ کفار ہر جانب سے حضرت ابوذرؓ پر پل پڑے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ منظر دیکھا تو دوڑ کر آئے اور کفار کو ایک جانب ہٹاتے ہوئے فرمایا: ویلکم الستم تعلمون انہ من غفار، وان طریق تجارتکم الی الشام من غفار۔ یعنی تمھاری بربادی ہو، کیا تم جانتے نہیں ہو یہ بنو غفار کا اہم شخص ہے اور شام کی طرف تمھارے تجارتی قافلے بنوغفار میں سے گزرتے ہیں۔ پھر حضرت عباس ابوذرؓ کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے۔ حضرت ابوذر کو اتنا مارا پیٹا گیا تھا کہ ان کا چہرہ سوج گیا تھا اور جسم زخمی تھا۔ کلمۂ حق کہنے کا لطف ہی کچھ ایسا تھا کہ اگلے روز بے ساختہ ابوذر غفاری پھر کفار کی مجلس میں گئے اور بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا۔ آج پھر انھوں نے ان کو مارا پیٹا اور آج بھی حضرت عباسؓ نے ان کو چھڑایا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص477)
ابوذر غفاریؓ اس واقعہ کے بعد جب آنحضورﷺسے ملے تو آپؐ نے فرمایا کہ اے ابوذر میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ کفار اس کلمے کو سن کر تم پر حملہ آور ہوجائیں گے۔ عرض کیا: یارسول اللہ ﷺخدا کی قسم یہ لوگ میرے نزدیک اتنے ہلکے اور بے وقعت ہوگئے ہیں کہ میری نظروں میں یہ خس وخاشاک سے بھی حقیر ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر اس کلمے کو ان کے سامنے دہراؤں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں تم نے حجت قائم کردی ہے اب واپس اپنے قبیلے میں جاؤ اور انتظار کرو کہ جب میں تمھیں وہاں سے نکلنے کے لیے کہوں تب نکلنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: فہل انت مبلّغ عنی قومک؟ لعل اللہ ینفعہم بک ویأجرک فیہم۔ یعنی اے ابوذر کیا تم میری طرف سے یہ پیغام اپنی قوم تک پہنچا دو گے؟ اگر ایسا کرو گے تو امید ہے کہ اللہ تمھاری دعوت کے نتیجے میں ان کو نفع(ہدایت) بخش دے اور تمھیں بھی ان کے قبول اسلام کی وجہ سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے۔ اس کے بعد ابوذر غفاریؓ خود فرماتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے درمیان آیا اور سب سے پہلے اپنے بھائی اُنَیس کو پورے واقعات سنائے اور اسلام کی دعوت دی، وہ مسلمان ہوگیا۔ پھر ہماری قوم کے بہت سے لوگ اسلام میںد اخل ہوگئے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص477)
اس قبیلے کا سردار اس زمانے میں خفاف بن ایماء بن رحضہ غفاری تھا۔ جنگِ بدر تک یہ کفر پر قائم رہا، مگر اس کے کچھ عرصے بعد اس نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ جب نبی اکرم ﷺمکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف گئے تو قبیلۂ غفار کے کافی لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کے پڑوس میں رہنے والے قبیلے بنواسلم نے جب غفار کو اسلام کی طرف راغب دیکھا تو انھوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ غفار اور اسلم دونوں قبائل کے لوگ آنحضورﷺکے پاس جب آئے تو بنواسلم کے لوگوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ! ہمارے بھائی بند بنوغفار نے جس طرح اسلام قبول کیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی قبول کرلیا ہے۔ آپؐ نے خوش ہو کر دونوں قبائل کو دعا دی فرمایا: غفار غفراللہ لہا، واسلم سالمہا اللہ ۔ (مسلم)۔ یعنی اللہ تعالیٰ بنوغفار کی مغفرت فرمائے اور اللہ تعالیٰ بنواسلم کو سلامتی سے نوازے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص477)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں