چند سال قبل وہ شخص ہم سے بچھڑ گیا، جس کے دل میں ہر ایک کے لیے محبت و اخلاص اور غلبۂ حق کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ 5 اور 6 جنوری2013ء کی درمیانی شب تھی، ڈیڑھ بجے کے قریب ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلیفون ذرا فاصلے پر لائونج میں پڑا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس وقت جو فون آیا ہے وہ معمول کا فون نہیں ہے، معلوم نہیں کیا خبر لایا ہے، اللہ خیر کرے۔ میں جلدی سے بستر سے نکلا، ریسیور اٹھایا۔ منصورہ ایکسچینج آپریٹر برادرم عبدالودود خان نے نہایت غمگین اور گلوگیر لہجے میں انتہائی اندوہناک خبر سنائی کہ ہمارے قائد اور مربی جناب قاضی حسین احمد دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ دل یقین نہیں کررہا تھا مگر ایسی خبر مرکزی ایکسچینج سے جھوٹی نہیںہوسکتی تھی۔ عبدالودود کو قاضی صاحب کے ساتھ جماعت کے ہر کارکن کی طرح بے پناہ محبت ہے مگر اس کا ایک اور تعلق بھی کئی سال تک قاضی صاحب سے بہت قریبی رہا۔ اس نے قاضی صاحب کے گارڈ کی حیثیت سے ان کے سفر و حضر میں ان کا ساتھ دیا۔ اس کا تعلق بھی صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہے۔ میری زبان پہ بے ساختہ آگیا۔ یہ خبر کس نے دی ہے اور کب؟ اس نے کہا اسلام آباد سے قاضی صاحب کے بچوں نے ابھی اطلاع دی ہے۔ ترآنکھوں کے ساتھ میری زبان پر انّا للہ جاری ہوگیا۔ پھر میں نے اپنے اہلِ خانہ کو اطلاع دی۔ ہر شخص غمزدہ اور دم بخود تھا۔ ہر شخص کو اپنے وقتِ مقررہ پر یہاں سے چلے جانا ہے مگر کچھ لوگوں کا جانا تو پوری قوم و ملت کو غمزدہ کر دیتا ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا۔
تحریکِ اسلامی، ملتِ اسلامیہ پاکستان، پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کی حریت و آزادی کی تحریکوں کے لیے یہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ یہ خبر ظاہر ہے پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں لمحات میں پھیل گئی۔ بس پھر کیا تھا، اطلاع دینے کے لیے اور اس اطلاع کی تصدیق و تفصیل جاننے کے لیے ٹیلیفون کالوں اور موبائل پر ایس ایم ایس پیغامات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر جنازے پر ''کل من علیھا فان‘‘کی تلاوت کرکے پر تاثیر تذکیر کرنے والا عظیم مربّی و مزکّی آج خود اس آیت کے مطابق دنیائے فانی سے کوچ کر گیا تھا۔ دل کہتا تھا کہ کاش آج موت کو موت آجاتی مگر نہیں، بے چاری موت اور فرشتۂ اجل سب اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں!
قاضی حسین احمد اپنے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ زیارت کا کا صاحب کے ایک دینی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد صاحب مولانا قاضی عبدالرب ؒاور داداجان قاضی دُرِّ مکنونؒ، ماموںجی مولانا لطف اللہؒ اور ناناابو مولانا عبدالحق جہانگیرویؒ، سبھی اجلّ علما تھے۔ دیوبندی مکتبِ فکر کے قائدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ خاندان کے بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف جہادی تحریک بھی چلائی اور قاضی صاحب کے ننھیال و ددھیال میں کئی بزرگان شہادت سے بھی سرفراز ہوئے۔ یوں یہ خاندان محض علمی روایات ہی کا وارث و امین نہیں تھا بلکہ جہادی معرکوں کا بھی شہ سوار تھا۔ مولاناعبدالقدوس قاسمیؒ، مولانا عبدالسبوح قاسمیؒ، قاضی عطاء الرحمنؒ، ڈاکٹر عتیق الرحمان اور خود قاضی صاحب دینی و عصری علوم سے بہرہ ور تھے۔ قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن اور جامعہ پشاور سے ایم ایس سی جغرافیہ میں تعلیم مکمل کی۔ کچھ عرصہ تک وہ جہانزیب کالج سیدو شریف (سوات) میں بطور لیکچرر بھی کام کرتے رہے۔ پھر ملازمت چھوڑ کر پشاور میں اپنا کاروبار منظم کیا۔ اللہ نے ان کے کاروبار میں بڑی برکت دی۔ یہ میڈیسن کا کاروبار تھا جو اب تک ڈائگنوسٹک سنٹر بن کر بخیروخوبی چل رہا ہے۔ قاضی صاحب کی اہلیہ، چاروں بچے عزیزم آصف لقمان قاضی، عزیزی ڈاکٹر انس فرحان قاضی، عزیزہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور عزیزہ خولہ سلجوقی سبھی جماعت کی اگلی صفوں میں کام کر رہے ہیں بلکہ پورا خاندان جو سیکڑوں ارکان پر مشتمل ہے، اسی فکر کا داعی اور اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے جو خاندان کے اس نایاب سپوت نے اپنایا اور زندگی بھر نبھایا۔ آخری وقت میں بھی اپنے بچوں کو وصیت فرمائی کہ جماعت اسلامی کا ساتھ کبھی اور کسی حال میں بھی نہ چھوڑنا۔ زندگی بھر اس راہ پہ گام زن رہنا جس پہ میں نے اپنی ساری زندگی پوری یک سوئی کے ساتھ گزاری ہے۔
قاضی صاحب زمانہ طالب علمی میںاسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوئے، خاندان کا ماحول دیوبندی اور جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے متصادم نہیں تو اختلافی ضرور تھا۔ قاضی صاحب کے دو بڑے بھائی جناب عطاء الرحمان اور ڈاکٹر عتیق الرحمان بھی جمعیت کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کے بزرگوں کی وسعتِ ظرفی تھی کہ عمومی طور پر علمائے دیوبند کے برعکس انھوں نے اپنے ہونہار سپوتوں کے اس راستے پر چلنے کی مزاحمت نہیں کی۔ قاضی صاحب عملی زندگی میں داخل ہوئے تو فوراً جماعت کے کارکن بنے۔ پھر1970ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ زمانۂ طالب علمی میں اپنے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمان صاحب کے پاس لاہور آیا کرتے تھے، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں زیر تعلیم اور کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیرتھے۔ اسی عرصے میں مرکز جماعت اچھرہ میں مولانا مودودیؒ سے ان کی براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں اور مولانا کی شخصیت کو دیکھتے ہی وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ کون جانتا تھا کہ صوبہ سرحد کا ایک عام سا طالب علم اور دیوبندی علماء کا سپوت مولانا کی اس تحریک کا بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوگا، نہ صرف اس کی اگلی صفوں میں کام کرے گا بلکہ مولانا کی جانشینی اور جماعت کی قیادت کی ذمہ داری بھی اللہ اس سے لے گا۔ اس میدان میں اللہ کا یہ بندہ امارت وقیادت کے مقام پر فائز ہوا تو سید مودودیؒ کی طرح سر سے کفن باندھ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے کی طرف دیکھنے کی بجائے آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ سیّد نے جو نقوشِ پا چھوڑے تھے وہ تو قیامت تک آنے والے قافلوں کے لیے جرأت و حوصلے کا سامان پیدا کرتے رہیںگے۔ قاضی صاحب نے بھی ان نقوشِ پا پر چل کے دکھایا اور ہر آمر کو للکارتے رہے۔ ان کی جدوجہد کا سارا زمانہ معترف ہے، دوست بھی اور دشمن بھی!
مثلِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی!
قاضی صاحب سید مودودیؒ کے پیروکار اور علامہ اقبالؒ کے مدّاح و فداکار تھے۔ انھیں کلامِ اقبالؒ، اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں، یوں مستحضر تھا کہ بسا اوقات احساس ہونے لگتا جیسے پورا کلام انھیں ازبر ہے۔ وہ کئی بار خود فرماتے کہ لوگ مبالغہ کرتے ہوئے انھیں کلام اقبال کا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ ہم ان کا یہ تبصرہ سن کر کہا کرتے تھے کہ اس میں کوئی مبالغہ تو نظر نہیںآتا۔ آپ جس موضوع پر گفتگو کریں خواہ تقریر ہو یا انٹرویو، آپ کا خطبہ ہو یا کوئی مضمون، ڈرائنگ روم میں گپ شپ ہو یا کوئی پریس کانفرنس کلامِ اقبالؒ اس میں پھولوں کی طرح مہکتا اور موتیوں کی طرح چمکتا ہے۔ میں تو کلامِ اقبالؒ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ علامہ کے بے شمار اشعار قاضی صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کلام اقبال کا بیشتر حصہ آفاقی اور عالمگیر حقیقتوں پر مشتمل ہے مگر ان کے اشعار کے مطابق جب بھی اور جو بھی اپنے آپ کو جس قدر ڈھال لے گا یہ اشعار اس کا لباس اور اوڑھنا بچھونا بن جائیں گے۔ قاضی صاحب ایسی ہی شخصیات میں سے ایک انقلابی شخصیت تھے۔ یوں سمجھیے کہ وہ اقبال کے شاہین تھے۔ راقم الحروف کو قاضی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا براہ راست طویل موقع نصیب ہوا۔ یہ عرصہ ستائیس سال پر محیط ہے۔ ان کو سفر و حضر میں، امن وحرب میں، اندرونی و بیرونی محاذوں پر، آسایش وراحت اور ابتلا وآزمایش میں، ہر جگہ دیکھنے اور پرکھنے کے مواقع ملتے رہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان کا تصور آتا ہے تو وہ اس شعر کا مصداق نظر آتے ہیں۔ ؎
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر، میرِ کارواں کے لیے
قاضی صاحب آتش نمرود میں بے خطر کود جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی ناصح وخیراندیش خطرات کی سنگینی کا حوالہ دے کر احتیاط وپرہیز کی ترغیب دیتا تو جواب میں کہا کرتے تھے کہ ہم تو درویش ہیں، کندھے پہ ردائے درویشی لیے پھرتے ہیں۔ ہم سے کوئی کیا چھین لے گا۔ ہم اللہ کی راہ میں کام کرتے ہوئے کیوں پسپائی و مداہنت اختیار کریں۔ ہم درویشی کی چادر جہاں چاہیں بچھالیں! ؎
نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
یہ شعر بھی قاضی صاحب کی زبان سے بارہا سنا، جو فی الحقیقت ان کی آزادیٔ طبع اور فِکری حریت کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے !