ابولہب آنحضورﷺکا چچا ہونے کے باوجود آپ کے ساتھ اتنی دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا کہ باقی سب مخالفین اس کے مقابلے میں ہیچ تھے۔ یہی نہیں اس کی بیوی بھی اپنی بدبختی اور شقاوت میں تمام حدیں پھلانگ جاتی تھی۔ آغازِ نبوت سے قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں۔ بعض روایات کے مطابق نکاح بھی ہوچکے تھے، مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب آنحضورؐ نے نبوت کا اعلان کیا تو ابولہب اور اس کا پورا گھرانہ آپ کا بدترین دشمن بن گیا۔ ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ آنحضورؐکی بیٹیوں کو طلاق دے دیں۔ انھوں نے نہ صرف طلاق دی بلکہ عتیبہ نے آنحضورؐ سے شدید گستاخی بھی کی۔ یہ واقعہ تفاسیر، تاریخ اور احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے۔
ابولہب اور اس کی بیوی باؤلے کتے کی طرح آنحضورؐ کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ سورۂ اللہب میں دونوں میاں بیوی کی تباہی وبربادی کا اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا ہے۔ ان پر قیامت کے دن تک لعنت بھیجی جاتی رہے گی۔ اس واقعہ کی تفصیلات تو بہت ہیں، مگر ہم مختصر طور پر چند باتیں یہاں پر نذرِ قارئین کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور اکرمؐ پر سورۃ اللّہب نازل ہوئی تو ابولہب کی بیوی امّ جمیل بنت حرب بہت سیخ پا ہوئی۔ وہ غصے کی حالت میں آنحضورؐ کی تلاش میں نکلی۔ اس کے ہاتھ میں پتھر تھا اور وہ گاتی آرہی تھی:
مُذَمَّمًا اَبَیْنَا
وَ دِیْنَہٗ قَلَیْنَا
وَ اَمْرَہٗ عَصَیْنَا
نقلِ کفر کفر نباشد۔ وہ کم بخت اللہ کے نبیؐ کی ہجو کہہ رہی تھی۔ یعنی جس شخص کی مذمت کی جاتی ہے (نعوذ باللہ) ہم نے اس کا انکار کردیا ہے، ہم اس کے دین کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم اس کے حکم کو ٹھکراتے ہیں۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی آپؐ کے پاس بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس دشمنِ خدا کو آتے ہوئے دیکھا تو کہا: ''یارسول اللہؐ! یہ بدبخت آرہی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ آپؐ پر ہاتھ اٹھائے گی اور گستاخی کرے گی۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''فکر نہ کرو وہ مجھے نہیں دیکھ سکے گی‘‘ اور آپؐ نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ عظیم میں ارشاد فرمایا ہے: ''اے نبیؐ جب آپ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں تو ہم آپؐ کے درمیان اور منکرینِ آخرت کے درمیان واضح پردہ حائل کردیتے ہیں۔‘‘ (بنی اسرا ئیل 17:45)
امّ جمیل بڑھتی ہوئی آئی اور حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا: ''تمھارا ساتھی کہاں ہے؟ اس نے میری ہجو کہی ہے۔‘‘ آپؓنے برجستہ جواب دیا: ''اس گھر کے مالک کی قسم میرے ساتھی نے تیری ہجو بالکل نہیں کہی۔‘‘ یہ سن کر وہ پلٹی۔ حضورؐ تو اسے دکھائی ہی نہ دیے اور وہ یہ کہتی ہوئی گھر لوٹی: ''قریش اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں۔‘‘ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے اس میں کوئی غلط بیانی نہیں کی کیونکہ اس کی ہجو آنحضورؐ نے نہیں کی، بلکہ ربِّ کعبہ نے خود کی ہے۔
ابولہب کے بیٹے عتیبہ نے آنحضورؐ کے ساتھ جو گستاخی کی اس کا تذکرہ بھی سیرت کی کتابوں میں تفصیلاً آیا ہے۔ ابن عساکر نے محمدبن اسحاق کے حوالے سے ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے حالات میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس کے راویوں میں عثمان بن عروہ بن زبیرؓ ہیں۔ ہبار بن اسود کی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ ابولہب اور اس کا بیٹا تجارت کے لیے ملک شام کی جانب روانہ ہوئے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ رخت سفر باندھا۔ سفر پر روانگی سے قبل عتیبہ نے کہا: ''بخدا میں محمد کے پاس جاؤں گا اور اس کے رب کے بارے میں اس کے عقائد کی وجہ سے اسے ضرور اذیت پہنچا کر رہوں گا۔‘‘ اس کے بعد وہ حضورؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: ''اے محمد میں اس کا انکار کرتا ہوں جس کے بارے میں تم کہتے ہو: وہ قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔‘‘[النجم8,9:53]
اس بدبخت نے آنحضورؐ کے ساتھ درشت کلامی اور گستاخی کے علاوہ ایک اور بہت بڑا جرم کیا کہ چہرۂ انور کی طرف تھوکا، مگر وہ ناپاک تھوک وجہِ اطہر پہ گرنے کی بجائے دور جاگرا۔ اس کی گستاخی پر حضور اکرمؐ نے دعا مانگی: ''اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو مسلط کردے۔ عتیبہ اپنے خیال میں بڑا کارنامہ سرانجام دے کر اپنے باپ کے پاس آگیا۔ ابولہب نے پوچھا: ''پیارے بیٹے! تو نے اسے کیاکہا؟‘‘ اس نے بتایا کہ میں نے یہ اور یہ کہا۔ اس نے پوچھا: ''اس پر محمد نے کیا کہا؟‘‘ عتیبہ نے بتایا کہ اس نے یہ بددعا دی ہے (جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے)۔ یہ سنتے ہی ابولہب کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا: ''اے بیٹے خدا کی قسم! اس کی بددعا سے میں تمھیں محفوظ نہیں سمجھتا۔‘‘ ہبار مزید بیان کرتے ہیںکہ ہم سفر شام کے لیے روانہ ہوئے اور ابراہ کے مقام پر ہم نے قیام کیا۔ وہاں ایک گرجا گھر تھا، اسی میں ہم اترے۔ گرجا گھر کے پادری نے ہم سے کہا: ''عرب بھائیو! تم یہاں کیسے آنازل ہوئے ہو، یہ تو بڑی خطرناک جگہ ہے، یہاں شیر یوں گھومتے پھرتے ہیں جیسے عام علاقوں میں بکریاں!‘‘
یہ سن کر ابولہب کے اوسان خطا ہوگئے اور اس نے ہم سے کہا: ''تم جانتے ہو کہ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ میرے مقام و مرتبہ سے بھی تم واقف ہو اور میرے تم پر جو حقوق ہیں ان سے بھی بے خبر نہیں ہو۔ اس شخص (محمد رسول اللہ) نے میرے بیٹے کو بددعا دی ہے، جس سے میں سخت فکر مند ہوں۔ پس تم سارا سامان اس گرجا گھر کے صحن میں جمع کردو اور اس کے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگا دو۔ پھر اس سامان کے ارد گرد تم سب سو جاؤ۔‘‘ہبار کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ رات جب سو گئے تو جنگل سے شیر آیا۔ ہم سب کے چہروں کو اس نے سونگھا مگر کسی کو کچھ نہ کہا۔ پھر سامان کے بلند ڈھیر پر چڑھ گیا، عتیبہ کے چہرے کو سونگھا اور اسے چیرپھاڑدیا۔ ابولہب کا برا حال تھا اور وہ کہے جارہا تھا: ''میں جانتا تھا میرا بیٹا محمد کی بددعا سے کبھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘
عتیبہ، ابولہب اور اس کی بیوی تینوں کا بہت برا انجام ہوا۔ ابولہب چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوا اور گل سڑ کر مرگیا۔ اس کی لاش تین دن تک پڑی رہی کوئی اس کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ جو قریب جائے گا اسے چھو ت کی وہی بیماری لگ جائے گی جس سے وہ مرا ہے۔ جب بدبو پھیل گئی تو لوگوں نے اس کے اہل وعیال کو عار دلائی۔ اس پر انھوں نے ان طعنوں سے تنگ آکر کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر لاش اٹھوائی جنھوں نے اسے لمبی لکڑیوں پر رکھ کر ایک گڑھے میں پھینکا اور اوپر سے دور کھڑے ہو کر یوں پتھر پھینکے جیسے اسے رجم کیا جارہا ہو۔ اس کی بیوی جو ام جمیل کے نام سے معروف تھی ابوسفیان کی بہن تھی۔ اس کا نام ارویٰ بنت حرب تھا۔ وہ بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اس کی گردن میں مونج کی رسی ڈال کر اسے جہنم میں پھینکا گیا ہے۔ وہ اپنے قیمتی ہار پر فخر کیا کرتی تھی اور ڈینگیں مارتی تھی کہ میں یہ قیمتی ہار بیچ کر محمدؐ کی مخالفت میں لگا دوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی گردن میں وہ طوق ڈالا جس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہوگا۔
اسلام کا دامن کتنا وسیع ہے اور نبی رحمتؐ کے حوصلے کتنے بلند ہیں کہ آپ کے بدترین دشمن بھی جب سچی توبہ کرکے آپ کے پاس آئے تو آپ نے کسی کو عار نہیں دلائی، بلکہ ان کے قبول اسلام پر آپ خوشی سے سرشار ہوگئے۔ بدترین دشمنوں کی اولاد آپ کے پاس آئی تو آپ نے انھیں دھتکارنے کی بجائے سینے سے لگایا۔ ابولہب کے بیٹے عتبہ نے حالت کفر میں اپنے باپ کے زیراثر آنحضورؐ کی بیٹی کو طلاق دے دی تھی، تاہم اس کی کوئی گستاخی تاریخ میں مذکور نہیں جس طرح اس کے بدبخت بھائی کی ہرزہ سرائی اوپر منقول ہے۔ لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کے چچا حضرت عباسؓاسے اور اس کے بھائی معتب کو لے کر آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان دونوں نے قبول اسلام کی خواہش ظاہر کی تو آنحضوؐر بہت خوش ہوئے اور اپنے چچا حضرت عباسؓ کو بھی مبارک باد پیش کی جنھوں نے اپنے بھتیجوں کو کفر کی ضلالت سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لاکھڑا کیا۔ واضح رہے کہ ابولہب کی بیٹی درّہ بنت ابی لہب فتح مکہ سے بھی پہلے ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں۔ آپؐ نے ان کی بہت تعظیم وتوقیر کی اور انھیں اپنے گھر میں مہمان بھی رکھا۔ یہ ابولہب کی بیٹی تھی، مگر آپؐ فرمارہے تھے، میری بہن آئی ہیں۔ میری بہن کو خوش آمدید مرحبا! کفر واسلام کی کشمکش میں یہ واقعات بڑے ایمان افروز ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے ان میں بہترین دروس ہیں۔