آنحضورﷺ کی بعثت سے قبل مبّشرات لوگوں کے سامنے آتی رہیں، ان کے علاوہ بعداز بعثت بلکہ بعد از ہجرت بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کئی لوگ سابقہ کتب اور انبیاکی تعلیمات کی روشنی میں آپ کی حقیقت تک پہنچتے رہے۔ انھی واقعات میں سے ایک واقعہ مدینہ منورہ میں پیش آیا۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے بیٹے یوسف بن عبداللہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زید بن سُعنہ یہودی کی ہدایت کا فیصلہ فرمایا تو زید کے دل میں ایک بات سوجھی۔ اس ضمن میں خود زید کہتے ہیں: میں نے محمدؐکے چہرے میں نبوت کی تمام علامات دیکھ لیں سوائے دو باتوں کے۔ وہ چہرے سے مجھے معلوم نہ ہوسکیں۔ ہماری کتابوںمیں بیان کیا گیا تھا کہ اس نبی کا حلم، اس کی سختی پر غالب ہوگا اور جب اس کے مقابلے میں جہالت کی شدت کا اظہار کیا جائے گا تو اس کے حلم میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ چنانچہ میں نے آپﷺ کے ساتھ ملنا جلنا شروع کردیا۔ اس تعلق کی وجہ سے میرے ساتھ آپﷺ کا لین دین بھی ہوگیا۔ ایک بار آپﷺ نے مجھ سے ادھار پر کچھ کھجوریں لیں۔
وعدے کا وقت جب قریب آگیا تو میں آپ کے پاس گیا۔ اس وقت آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ میں نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے آپﷺ کی قمیص اور چادر سے پکڑ کر کھینچا اور اپنی رقم کا مطالبہ کیا۔ میں نے سخت غصے کے ساتھ آپ کی طرف دیکھا اور کہا: یامحمد الا تقضینی حقی؟ اے محمدﷺ! کیا آپﷺ مجھے میرا حق واپس نہیں کرتے؟۔ آپﷺ نے میری باتیں سن کر حلم کا مظاہرہ کیا۔ اس وقت عمربن خطابؓ نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں غصے سے یوں حرکت کررہی تھیں جیسے کشتی بھنور میں ہو۔ پھر عمرؓ نے کہا اے اللہ کے دشمن! تو رسول اللہﷺ سے وہ کچھ کہہ رہا ہے جو میں سن چکا ہوں اور وہ کچھ کررہا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے اپنے رسولﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر اللہ کے رسولﷺ رکاوٹ نہ بنتے تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر قلم کر دیتا۔
اس موقع پر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عمرؓ کی طرف بڑے اطمینان او رمحبت کے ساتھ دیکھ رہے تھے اور آپﷺ کے چہرے پر تبسم تھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اے عمرؓ! میں بھی اور فریق ثانی بھی تم سے اس سلوک کی نسبت کسی اور سلوک کے زیاددہ محتاج تھے۔ اے عمرؓ! تجھے چاہیے تھا کہ مجھے اچھے انداز میں ادائیگی کی تلقین کرتا اور اسے اچھے انداز میں مطالبے کا حکم دیتا۔ اے عمرؓ اس کو ساتھ لے جاؤ اور اس کا حق ادا کردو۔ اس کی کھجوریں ادا کرنے کے بعد 20صاع (ایک صاع تقریباً تین کلوگرام کا ہوتا ہے) کھجوریں زائد دے دینا۔ یہ سن کر زید بن سُعنہ نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد حضرت زید بن سُعنہؓ زندگی بھر آنحضورﷺ کے ساتھ وفاداری نبھاتے رہے۔ غزوہ تبوک کے سال میں ان کی وفات ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ص428 بحوالہ دلائل النبوۃ از ابونعیم)
آنحضورﷺ فاتح القلوب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
(اے پیغمبرﷺ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھَٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ (آلِ عمران3:159)
نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضورﷺ سے ملنے کے لیے مدینہ کی طرف آیا۔ اس وفد میں ایک شخص ابوالحارث بن علقمہ تھا، جو عالم دین اور پادری ہونے کے ساتھ ان کے روسا میں بھی شمار ہوتا تھا۔ اس کی اپنی قوم میں بڑی قدرومنزلت تھی۔ اتفاق سے اس کے خچر نے اسے گرا دیا تو اس کا بھائی آنحضورﷺ کو بدعائیں دینے لگا۔ یہ سن کر ابوالحارث نے کہا کہ ایسا مت کہو تم خود ہلاک اور برباد ہوجاؤ گے، وہ شخص اللہ کے نبیوں میں سے ہے، جس کی بشارت انجیل میں عیسیٰؑ نے دی اور جس کا تذکرہ تورات میں بھی ہے۔ یہ سن کر بدعائیں دینے والے بھائی کی قسمت جاگ اٹھی۔ اس نے کہا خدا کی قسم میں مدینہ پہنچ کر اس پر ایمان لاؤں گا۔ یہ سن کر وہ عالمِ سُو کہنے لگا ارے نہیں میں تو محض تم سے مذاق کررہا تھا۔ اس کے بھائی نے کہا جو کچھ بھی ہے میں تو اب ایمان لاؤں گا۔ چنانچہ یہ شخص وہاں پہنچا اور مسلمان ہوگیا۔ صاحبِ علم پادری ہدایت سے محروم رہا۔ ایک بظاہر جاہل شخص حق شناس بن کر حق وصداقت کا علم بردار بن گیا۔ کیا عجیب قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں! (طبقات ابن سعد، ج۱،ص165-164)
آنحضور ﷺ کے متعلق اہلِ کتاب کسی ابہام میں نہیں تھے، محض اپنی ہٹ دھرمی، ضد اور فسادِ قلبی کی وجہ سے وہ آپ کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔ آپﷺ سے قبل آنے والے ہر نبی نے آپﷺ کی آمد کا تذکرہ کیا ہے۔ بالخصوص سیدنا عیسیٰؑ نے اتنی وضاحت کے ساتھ آپ کی بشارت دی کہ آپ کا نام تک اپنی قوم کو بتا دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور یاد کرو عیسیٰؑ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔(الصف61:6)
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے ایک عہد لیا تھا کہ وہ اپنے بعد آنے والے رسولِ برحق کی تصدیق کریں گے۔ ارشاد باری ہے:
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔(آلِ عمران3:82-81)
اہلِ کتاب پر اللہ کی ایسی پھٹکار نازل ہوئی کہ جن چیزوں کے حق ہونے کو وہ بخوبی جانتے تھے، آنحضورﷺ کی آمد پر ان کا انکار کردیا۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ ان کے برعکس عرب کے مشرک قبائل جو ان سے یہ باتیں سنا کرتے تھے، اللہ کی توفیق سے آگے بڑھے اور حق کو سینے سے لگا لیا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' اور اب جو کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے، باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت ہے ان منکرین پر۔‘‘ (البقرہ2:89)
اہلِ کتاب کے بارے میں نہایت معتبر شہادت ام المومنین حضرت صفیہؓ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک دوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
والد: خدا کی قسم، ہاں۔چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟
والد: ہاں۔چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟
والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، ج2، ص165)
امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی زبانی ایک روایت بیان کی ہے کہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اللہ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں بھیجا، مگر اس سے عہد لیا کہ اگر اس کی زندگی میں محمدﷺ کی بعثت ہو تو لازماً ان پر ایمان لائے گا اور ان کی مدد کرے گا۔ یہی عہد اللہ کے نبیوں نے اپنی امتوں سے لیا۔‘‘ آج بھی خوش قسمت یہود ونصاریٰ حقیقت کو پالیتے ہیں اور بدبخت بغض وعناد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔