پلک جھپکنے میں ایک سال بیت گیا۔ دورِ طالب علمی کے ساتھی محمد اسلام صاحب نے ایک صبح فون پر بتایا ''آپ کے پرانے ہمجولی جہانگیر بدر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔‘‘ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ایک تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ جہانگیر بدر کمال کا انسان تھا۔ مرحوم سے بہت پرانی یاد اللہ تھی۔ جب میں 1968ء میں لاہور جمعیت کا ناظم بنا تو جہانگیر بدر ہیلی کالج جامعہ پنجاب میں ایم کام کے طالب علم تھے۔ ان سے پہلی ملاقات بارک اللہ خاں مرحوم نے کروائی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ہمارے خالص ''لاہوڑیے‘‘ دوست ہیں۔ اس ملاقات کے بعد کئی مرتبہ مرحوم سے جامعہ پنجاب، ہیلی کالج اور انارکلی میں ملاقاتیں ہوئیں۔
جہانگیر بدر صاحب بہت بے تکلف انسان تھے ، عموماً لوگ جامعہ پنجاب سٹوڈنٹس یونین کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے انھیں میرا مدمقابل سمجھ کر یہی تصور کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان دوری رہی ہوگی۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ بلاشبہ الیکشن کے دنوں میں کافی تناؤ پیدا ہوا تھا، مگر یہ محض ایک عارضی مرحلہ تھا۔ آج میں جہانگیر بدر مرحوم کے بارے میں اپنی یادیں تازہ کرتا ہوں تو ایک قابل قدر شخصیت سامنے آتی ہے۔ جب میں مرحوم کے جنازے کے لیے جامعہ پنجاب پہنچا تو بہت بڑا ہجوم تھا۔ مجھے یاد آیا کہ ان فضاؤں میں جہانگیر بدر اور ہم زور بیان دکھاتے تھے۔ آج ''الوداع جہانگیر بدر الوداع، بدر تم ہمیشہ یاد رہو گے۔‘‘ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سوچا ''آج وہ کل ہماری باری ہے۔‘‘
جہانگیر اندرونِ شہر لاہور میں ایک آرائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں بدر الدین کی اکبری دروازے کے اندر دکان تھی۔ بدر نے اپنی ساری زندگی خالص لاہوری ماحول میں گزاری۔ ان کے لب و لہجے میں آخر تک لاہور کی شناخت پوری شان و شوکت کے ساتھ موجزن رہی۔ وہ حرف ''ر‘‘ کو ''ڑ‘‘ ہی بولا کرتے تھے، بے تکلف دوستوں کے ساتھ ہمیشہ گھل مل جاتے۔ میرے ایک بزرگ دوست اور مشہور شاعر عبدالرحمن بزمی مرحوم بھی لاہور سے خوب واقف تھے۔ وہ کوثر نیازی مرحوم کے ہم زلف اور جماعت اسلامی کے رہنما عبدالحمید کھوکھر مرحوم کے بہنوئی تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ نیروبی میں گزارا۔ مولانا مودودی کا پورا لٹریچر پڑھ رکھا تھا اور ادبی ذوق اعلیٰ پائے کا تھا۔ میرے نیروبی جانے سے پہلے وہ لندن چلے گئے تھے۔ ان سے لندن اور لاہور میں کئی ملاقاتیں رہیں۔ لندن کی ملاقات میں انھوں نے مجھ سے پوچھاکہ جہانگیر بدر نے آپ کے مقابلے پر الیکشن لڑا تھا، ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
میں نے کہا کہ سیاسی و نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ بہت اچھے انسان اور اپنی پارٹی کے مخلص سیاسی ورکر ہیں۔ دورِ طالب علمی میں شروع میں ہم سے اچھا دوستانہ تعلق رہا۔ بعد میں طلبہ سیاست میں ہم حریف بن گئے، مگر باہمی احترام اور تعلق کبھی نہ ٹوٹا۔ دورِ طالب علمی کے بعد بھی ہمارے آپس میں روابط اور ایک دوسرے کے بارے میں خیر خواہانہ جذبات کبھی ماند نہیں پڑے۔ فرمانے لگے آپ کی یہ باتیں سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ لندن میں جہانگیر بدر مجھ سے ملے تھے اور میں نے آپ کے بارے میں ان سے یہی سوال کیا تھا۔ انھوں نے میرے سوال کے جواب میں اس سے بھی زیادہ اچھے الفاظ میں آپ کا تذکرہ کیا۔ جہانگیر بدر صاحب سے اپنی واقفیت کے متعلق فرمانے لگے کہ میرے سسرال بھی اندرون لاہور مقیم تھے۔ میری ساس مرحومہ اور جہانگیر بدر کی والدہ مرحومہ آپس میں بہت قریبی سہیلیاں تھیں۔ میری ساس اور میری اہلیہ دونوں بتاتی تھیں کہ بدر کی والدہ انتہائی نیک اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ جب جہانگیر بدر نے آپ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ جماعت اسلامی کے لوگوں کے متعلق سیاسی مخالفین بھی مثبت رائے رکھتے ہیں۔
جہانگیر بدر مجھ سے ایک سال بڑے تھے، مگر دیکھنے میں ہمیشہ وہ مجھ سے چھوٹے لگتے تھے۔ ان کی پیدائش 25؍ اکتوبر 1944ء کی ہے جبکہ میری تاریخ پیدایش 17؍ اکتوبر1945ء ہے۔ میں کبھی کبھار انھیں بھائی جان کہتا تو وہ محظوظ ہو کر عجب سے میری طرف دیکھتے اور مجلس میں موجود ہر شخص اسے مذاق سمجھتا۔جہانگیر بدر آخر دم تک چاق و چوبند اور مستعد رہے۔ وہ ایک ایسے مہم جو تھے، جس نے بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ 1968-69ء میں ہیلی کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ میں نے بطور ناظم لاہور انھیں اس موقع پر مبارک باد پیش کی اور جمعیت کے دفتر سعید منزل میں انھیں چائے پر مدعو کیا۔ ان کے ساتھ ملک محمد اعظم یونین میں نائب صدر تھے، جو ہمارے بہت اچھے کارکن تھے۔ یونین کی پوری کابینہ ہمارے دفتر میں آئی اور جمعیت کے سب ساتھیوں نے انھیں مبارک باد دی۔
مرحوم ہمارے مخالف کیسے بنے، یہ دلچسپ کہانی ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جب ایوب حکومت سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو مزدور کسان کے علاوہ نوجوان، بالخصوص طلبہ کی بڑی تعداد ان کی طرف مائل ہوئی۔ اس عرصے میں بدر صاحب کو بھی بھٹو صاحب کی شخصیت نے متاثر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹس ونگ میں شامل ہوگئے۔ اسی عرصے میں جامعہ پنجاب کی یونین بحال ہوگئی۔ انتظامیہ کی طرف سے یونین کے الیکشن جنوری 1970ء میں منعقد کرنے کا اعلان ہوا۔ جمعیت نے راقم کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ۔ مقابلے پر کئی امیدوار تھے، ان میں جہانگیر بدر کے علاوہ میرے دوست شاہد محمود ندیم جو بعد میں پی ٹی وی کے ڈائریکٹر جنرل بنے، خواجہ محمد سلیم جو بہت اچھے مقرر تھے اور معروف صحافی امتیاز عالم بھی صدارتی امیدوار تھے۔
یہ سب امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں کام کر رہے تھے۔ ان سب کوپیپلز پارٹی کی قیادت نے جہانگیر بدر مرحوم کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادہ کرلیا۔ عملاً جامعہ پنجاب کا یہ پہلا انتخاب تھا، جو جمعیت اور اینٹی جمعیت دھڑوں کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی صورت اختیار کر گیا۔ اس انتخاب میں جہانگیر مضبوط امیدوار تھے۔ انھیں ہیلی کالج سے بھاری اکثریت ملی، جبکہ باقی تقریباً تمام قابل ذکر شعبوں ،لاء کالج، اورینٹیئل کالج میں جمعیت کا پلڑا بھاری رہا۔ جہانگیر بدر کم و بیش دو ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے، جبکہ جمعیت کو 2100 سے کچھ زائد ووٹ ملے۔ یوں سخت مقابلے کے بعد یہ انتخاب جمعیت نے جیت لیا۔
اگلے سال پھر جہانگیر بدر صدارتی انتخاب میں کھڑے ہوئے، مگر اس بار بہت مارجن سے ہمارے امیدوار حفیظ خان صدر منتخب ہوگئے۔ بعد کے ادوارمیں ہمارے آپس میں مسلسل رابطے رہے۔ میں کینیا چلا گیا اور جہانگیر بدر پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر، پھر جنرل سیکرٹری، ایم این اے، سینیٹر اور مرکزی وزیر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔ میں بیرون ملک سے واپس آیا تو جہانگیر بدر جب بھی قاضی حسین احمد صاحب سے ملنے کے لیے منصورہ تشریف لاتے تو مجھے فون کر دیتے کہ میں بھی اس ملاقات میں شریک رہوں۔ یہ ملاقاتیں بڑی دلچسپ اور سیاسی امور کے بارے میں تبادلہ خیالات پر مشتمل ہوتی تھیں۔
جب مجھے پنجاب جماعت کا امیر بنایا گیا تو بدر صاحب نے خصوصی طور پر مبارک باد دی ۔ میں نے عرض کیا جہانگیر بھائی آپ کا شکریہ۔ جماعت میں کسی پر کوئی ذمہ داری آن پڑے تو لوگ حلف اٹھاتے ہوئے روتے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں ایسے مواقع پر مبارک باد کی بجائے احباب اظہار ہمدردی اور دعائیں کرتے ہیں کہ یہ بوجھ اٹھانے کا حق ادا کیا جاسکے۔ اس پر انھوں نے قہقہہ لگایا اور اپنے لاہوری انداز میں کہا ''حافظ صاحب اسی وجہ سے جماعت اسلامی سیاست میں آگے نہیں بڑھ رہی۔ آپ لوگوں میں قیادت کا شوق، جذبہ اور ambitionمفقود ہوتا ہے‘‘۔ میں نے کہا یہ آپ کی رائے ہے مگر ہمارے آگے نہ بڑھنے کی وجوہات دیگر ہیں۔
جہانگیر بدر مرحوم نے اقبال ٹاؤن میں اپنا گھر بنایا، جو منصورہ سے قریب تھا۔ ان کے ہاں خوشی اور غم میں جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا اور وہ تو اکثر مواقع پر منصورہ آتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی تعزیت کے موقع پر میں ان کے گھر گیا تو پیپلز پارٹی کے جتنے لوگ وہاں موجود تھے، ان سب کو ایسے الفاظ میں میرا تعارف کروایا کہ جس سے محبت و اپنائیت کا گہرا احساس ہوا۔ آخری ایام میں گردوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ میں فون پر حال معلوم کرتا رہتا تھا۔ اگر کبھی ٹیلی فون اٹینڈ نہ کرپاتے تو مس کال دیکھ کر فوراً رابطہ کرتے اور شکریہ ادا کرتے کہ میں ان کا حال معلوم کرنے کے لیے فون کرتا ہوں۔ میں نے ایک دن عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں آپ سے ملاقات کروں، پھر اس خیال سے حاضری نہیں دیتا کہ آپ ڈائیلسز کی وجہ سے معلوم نہیں کس کیفیت میں ہوں گے۔ وہ یہی کہتے کہ اصل چیز تو دعا ہے، جو بندے کے حق میں نفع بخش ہوتی ہے، میں آپ کی دعاؤں کا محتاج ہوں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی انسانی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ جنازہ بہت بڑا تھا، مرحوم کے ورثا سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ میں تعزیت کے لیے گھر حاضر ہوا تو برادرم تنویر صادق، عزیزان علی بدر اور جہانزیب بدر نے اسی اپنائیت اور محبت سے استقبال کیا جو مرحوم دوست کاخاصا تھا۔ علی بدر کو دیکھیں تو بالکل یہی لگتا ہے کہ جہانگیر بدر سامنے آگئے ہیں۔ اللہ مرحوم کے گلستان کو آباد رکھے۔