حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی پوری مخلوق سے حتیٰ کہ حیوانوں، پرندوں اور نباتاتی حیات سے بھی محبت تھی۔ آپ کو خالقِ باری نے دل ہی ایسا دیا تھا کہ جس میں محبت کے زمزمے رواں دواں رہتے تھے۔ اپنے اہل و عیال سے محبت اور حسنِ سلوک کو آپ نے اہل ایمان کی اعلیٰ ترین اخلاقی خوبی قرار دیا ہے۔ آپ اس معاملے میں سب انسانوں سے ممتاز تھے۔ اپنے صحابہؓ کے ساتھ ایسی اپنائیت، محبت اور وابستگی تھی کہ ہر صحابی سمجھتا تھا کہ آپؐ کو سب سے زیادہ محبت میرے ساتھ ہے۔ آپؐ کا کمال ہے کہ آپؐ نے ہر صحابی کو ایسا اعزاز بخشا کہ جس میں دوسرے اس کے ثانی نہیں۔ یہ بالکل درست اور بدیہی بات ہے کہ سب سے زیادہ محبت تو یارِ غار ابوبکر صدیقؓ ہی کے ساتھ تھی، اس کے باوجود نبیٔ جو دو عطاؐ کا یہ کمال ہے کہ جس صحابی کے حالات کا مطالعہ کیجیے، ہر ایک کا بے بدل اعزاز سامنے آجاتا ہے۔
ایوب بن بُشَیْر کے بقول حضرت ابوذر غفاریؓ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہﷺ ملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ: میں جب بھی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے ملا تو آپؐ نے ہمیشہ مجھ سے مصافحہ کیا۔ ایک دفعہ آپؐ نے مجھے گھر سے بلوایا۔ میں اس وقت اپنے گھر پر نہیں تھا، جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپؐ لیٹے ہوئے تھے۔ آپ اٹھ کر مجھ سے لپٹ گئے اور گلے لگایا۔ آپؐ کا یہ معانقہ بہت خوب اور بہت ہی خوب تھا (یعنی بڑا لذت بخش اور بہت ہی مبارک تھا)۔ (سنن ابی دائود)
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب آپؐ کے محبوب و مشفق چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپؐ کے حکم سے ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے اور مہاجرین حبشہ نے ان کو اپنا متفقہ امیر و ترجمان بنالیا۔ نجاشی کے دربار میں انھوں نے ہی اسلام کی ترجمانی کی تھی جس سے متاثر ہو کر شاہِ حبشہ نے دراصل اسی وقت دل سے اسلام قبول کرلیا تھا اگرچہ اس کا اظہار بعد میں آنحضوؐر کا خط ملنے پر کیا۔ حضرت جعفرؓ چودہ سال حبشہ میں بسر کرنے کے بعد اس وقت واپس مدینہ آئے جب نبیٔ برحقؐ، خیبر کے قلعوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ طویل سفر کے باوجود حضرت جعفرؓ خیبر روانہ ہوگئے اور وہیں جا کر آپؐ سے ملاقات کی۔ اس وقت ایک طویل جدوجہد اور مشکل جنگ جوئی کے بعد آپؐ نے اللہ کی تائید اور صحابہؓ کی بے مثال جرأت و استقامت کے نتیجے میں خیبر کے جملہ قلعے فتح کر لیے تھے۔
آپؐ نے حضرت جعفرؓ کو دیکھا تو بے ساختہ ان کی طرف بڑھے، ان کو گلے لگا لیا اور ان کا ماتھا چوما۔ اپنے چچا زاد بھائی کو دیکھ کر آپؐ انتہائی خوش تھے۔ آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ خیبر کے قلعوں کی شاندار فتح پر میرا دل زیادہ شاداں و فرحاں ہے یا جعفرؓ کی آمد اور ملاقات کی خوشی اس سے زاید ہے۔ امام شعبی تابعیؒ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے جعفرؓ بن ابی طالب کا استقبال کیا تو آپؐ ان سے لپٹ گئے اور دونوں آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔ (سنن ابی دائود، شعب الایمان للبیہقی)
غزوۂ احد میں جب فتح شکست میں بدلتی نظر آئی اور اسلامی فوج میں انتشار پیدا ہوا تو آپؐ کے گرد چند صحابہ نے حصار بنا لیا۔ آپؐ میدان میں ڈٹے رہے۔ اللہ نے سورہ آل عمران میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: یاد کرو جب تم بھاگے چلے جا رہے تھے، کسی کی طرف پلٹ کر دیکھنے تک کا ہوش تمھیں نہ تھا، اور (اللہ کا) رسولؐ تمھارے پیچھے تم کو پکار رہا تھا۔ اس وقت تمھاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمھیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیئے، تاکہ آیندہ کے لیے تمھیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمھارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔ اللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔ (آل عمران 3:153)
حضوؐر اس وقت صحابہؓ سے فرما رہے تھے کہ وہ بھگدڑ کا مظاہرہ نہ کرو۔ آپؐ میدان میں جم کر کھڑے تھے اور بلند آواز سے فرما رہے تھے ''اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہ‘‘۔ یعنی اللہ کے بندو! میری طرف آئو۔ اس وقت حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے حواس کو مکمل برقرار رکھا۔ نہ گھبراہٹ نہ خوف، نہ پائوں میں لغزش، نہ ہاتھوں میں رعشہ۔ آنحضورؐ کے پاس کھڑے ہو کر آپؐ کے لیے ڈھال بن گئے اور دشمن پر بڑی مہارت و جرأت سے تیر بھی چلاتے رہے۔ حضورؐ خود اپنے دست مبارک سے اپنے جان نثار کو تیر پکڑا رہے تھے اور کوئی ایک تیر بھی خطا نہیں ہو رہا تھا۔ وہی موقع تھا جب نبیٔ رحمتؐ نے حضرت سعدؓ کو وہ تمغہ عطا فرمایا جس کی نظیر پوری جماعت صحابہ میں نہیں ملتی۔ آپؐ فرما رہے تھے: ''سعد دشمن پر تیر چلاتے جائو، میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘ ساتھ ہی آپؐ نے اپنے قیمتی ہیرے کے لیے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! سعد کی تیر اندازی میں قوت اور نشانے میں اصابت عطا فرما، اور سعد کی دعائوں کو قبول فرما۔ (جامع ترمذی بروایت حضرت علیؓ)
اس دعا کا اثر تھا کہ حضرت سعدؓ دنیا کے بہترین جرنیل اور تاریخ انسانی کے عظیم ترین فاتح ثابت ہوئے۔ اس وقت کی سپر طاقت ایران کو ملیا میٹ کر کے وسیع و عریض زمین پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا۔ وہ مستجاب الدعوات بھی تھے اور ان کی قبولیتِ دعا کی بھی بڑی ایمان افروز تفصیلات حدیث اور تاریخ میں ملتی ہیں۔ اسی معرکۂ احد میں انصار کی عظیم بیٹی حضرت امِ عمارہؓ نے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ زبانِ رسالت مآبؐ سے ان کی تحسین فرمائی گئی۔ ان کے لیے تحسین کے الفاظ کے ساتھ وہ دعا رسولِ امینؐ کے لبوں پر آئی جس سے بڑے انعام کا کوئی مومن تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آپؐ نے فرمایا: یوم احد کی مشکل گھڑیوں میں میں نے امِ عمارہؓ کو دیکھا کہ وہ میرے دائیں جانب دشمن سے برسرِ پیکار تھیں، میں نے بائیں اور آگے دیکھا تو وہاں بھی وہ اپنا خنجر چلا کر دشمن کو پیچھے دھکیل رہی تھیں۔ امِ عمارہؓ تو خاتونِ احد ہے۔ ام عمارہؓ صحابہ و صحابیات کے درمیان خاتونِ احد کہلاتی تھیں اور پورے معاشرے میں ان کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔
اسی معرکے کے دوران حضرت امِ عمارہؓ، ایک کافر ابن قیمہ کے ہاتھوں زخمی ہوئیں۔ ان کے بازو پر شدید زخم آئے۔ آنحضوؐر نے اپنی چادر سے پٹی پھاڑ کر امِ عمارہؓ کے زخم پر باندھی اور ان سے درد کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں: یا رسول اللہﷺ! اس درد و تکلیف کا کیا ہے۔ آپؐ اللہ سے میرے لیے اور میرے اہل و عیال کے لیے دعا کیجیے کہ ہم جنت میں آپؐ کے قرب میں رہیں۔ آپؐ نے اپنی عظیم صحابیہ کی اس درخواست پر اللہ سے دعا مانگی کہ انھیں اپنے اہل و عیال سمیت جنت میں آپؐ کا قرب نصیب ہو۔ (البدایہ والنہایہ ، ص 584، المغازی للواقدی، ج ۱، ص 272-273) سبحان اللہ کیا لوگ تھے اور کیا شان تھی!
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓ آپؐ کی لختِ جگر تھیں۔ آپؐ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور وہ بھی آپؐ پر جان قربان کرتی تھیں۔ حضرت خدیجہؓ و جناب ابو طالب کی وفات کے بعد جب قریش نے آنحضورؐ کو اذیتیں پہنچانے میں شدت اختیار کی تو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ آپ کے دفاع کے لیے گھر سے باہر آجایا کرتی تھیں۔ آپؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ''لَا تکرھوا البنات فانھن المونسات الغالیات‘‘ (مسند امام احمد، روایت حضرت عقبہ بن عامرؓ) یعنی بیٹیوں سے نفرت کا اظہار مت کیا کرو (جیسا کہ جاہلیت میں ہوتا تھا) بلاشبہ وہ تو (والدین کے لیے) ان کے غم بانٹنے والی اور بہت قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں۔
تمام والدین جانتے ہیں کہ سعادت مند بیٹے بھی والدین کے دکھ درد میں ان کے شریک اور ضرورت کے وقت ان کی خدمت کرتے ہیں مگر بیٹیاں اس معاملے میں زیادہ ہی والدین کا خیال رکھتی ہیں۔ وہ واقعی محبت کرنے والی اور قیمتی متاع ہوتی ہیں۔
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آنحضورؐکے ساتھ غم کی گھڑیوں میں ڈٹ کر کھڑی ہوجاتی تھیں۔ دشمن آپؐ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اذیت پہنچاتے یا آپؐ کی پشت مبارک پر نماز کی حالت میں مرے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر رکھ دیتے تو سیّدنا محمدؐ عربی کی یہ لختِ جگر گھر سے دوڑ کر آتیں اور آپؐ کے دشمنوں کو برا بھلا کہہ کر آپؐ کی ڈھال بن جاتیں۔ اکثر شاموں کو آپؐ دن بھر کی دعوتی سرگرمیوں کے بعد جب گھر پلٹتے تو آپؐ کے مبارک بالوں میں دشمنوں کی طرف سے پھینکی جانے والی گرد کو وہ پانی سے دھوتیں اور کبھی فرطِ جذبات اور محبت کی فراوانی سے آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے۔ ایسے ہر موقع پر آنحضوؐر اپنی محبوب بیٹی کو تسلی دیتے اور بہت زیادہ پیار فرماتے۔ پھر کہتے: لخت جگر! کوئی فکر نہ کرو، اللہ تمھارے باپ (کی محنت) کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ دین غالب ہو کر رہے گا۔ (امام البہیقی دلائل النبوۃ)
ام المٔومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو شکل و صورت، سیرت و عادت اور چال ڈھال میں صاحبزادی فاطمہ زہراؓ سے زیادہ رسول اللہؐ کے مشابہ ہو۔ جب وہ حضورؐ کے پاس آتیں تو آپؐ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہو کر ان کی طرف بڑھتے ان کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور اس کو چومتے اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے۔ جب آپؐ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپؐ کے لیے کھڑی ہوجاتیں، آپؐ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں، اس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپؐ کو بٹھاتیں... (سنن ابی دائود)