نجم الدین اربکان (1926-2011ء)

جدید ترکی دو ادوار پر مشتمل ہے۔ ایک خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے اور سیکولر و مغرب زدہ مصطفی کمال کے دورِ اقتدار سے شروع ہوا اور دوسرے کا آغاز نجم الدین اربکان کے‘ اسلامی فکر کے ساتھ میدانِ سیاست میں داخلے سے ہوا، جس کی پیش رفت اب تک جاری ہے۔ مغربی دنیا اور عالم اسلام کی سیکولر لابی کی طرف سے اس دور کو اسلامسٹوں کا عہد کہا جاتا ہے۔ صدر اردوان بھی جناب اربکان کے تربیت یافتہ ہیں۔ اب تک دستور تو سیکولر ہے مگر زمامِ اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ اربکان صاحب 2011ء میں 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
27 فروری 2011 ء کو موبائل فون پر پیغامات موصول ہونے لگے کہ ترکی کے مردِ مومن انجینئرنجم الدین اربکان اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ نجم الدین اربکان کی وفات پر عالمی اسلامی تحریکوں نے تعزیتی بیان میں کہا کہ مرحوم اسم بامسمّٰی تھے۔ وہ دینِ اسلام کا روشن ستارہ، امت مسلمہ کی آنکھوں کا تارہ اور باطل کی آنکھوں کا کانٹا تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ خراجِ عقیدت سچائی و صداقت کا ترجمان ہے۔ بلاشبہ مرحوم دنیا بھر کے اہلِ علم و دانش کی نظروں میں ایک پاکباز سیاست دان کے طور پر معروف تھے۔ وہ ایک سخت کوش، عالی ہمت اور صاف دل و دماغ کے مالک، مدبر سیاست دان تھے۔ ان کے پیش نظر عالمِ اسلام کا اتحاد تھا۔
اربکان صاحب ترکی کے ایک چھوٹے سے شہر سنوپ (Sinop) میں 29 اکتوبر1926ء کو‘ ایک معزز اور پڑھے لکھے خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد صبری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔ نجم الدین اربکان نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا طویل سفر شروع ہوا اور یکے بعد دیگرے وہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے۔ 1948ء میں استنبول یونیورسٹی سے انہوں نے مکنیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی جس میں یونیورسٹی میں ریکارڈ قائم کیا۔ یہ ریکارڈ آج تک نہیں توڑا جا سکا۔ اس کے بعد انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی گئے اور آخن یونیورسٹی سے1956ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد جرمنی یا یورپ میں قیام کرنے کے بجائے اپنے وطن واپس آگئے۔ 
جرمنی میں ترک آبادی کا ایک بڑا حصہ مقیم ہے۔ اربکان صاحب کو بھی کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے یورپ کو منتخب کریں مگر انہوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ فرمایا کہ سرزمینِ وطن کا میرے اوپر حق ہے اور ملت اسلامیہ کا مجھ پر قرض ہے۔ میں یہ حق ادا کرنا اور قرض چکانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے 1957ء میں استنبول یونیورسٹی میں بطور لیکچرار اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ 1965ء میں اسی یونیورسٹی میں انہیں پروفیسر کا درجہ حاصل ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی ملازمت چھوڑ کر اپنی فنی مہارت اور دوستوں کے تعاون سے انڈسٹری کی طرف توجہ دی۔ انڈسٹری میں انہوں نے ٹینک سازی اور انرجی و ایندھن کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کیا۔ 1960ء میں یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران ہی تجرباتی طور پر انہوں نے انرجی اور ایندھن پیدا کرنے کا ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا تو مرحوم نے یونیورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہا مگر اپنی مادرِ علمی سے غیر رسمی تعلق بعد میں بھی قائم رکھا۔ اس کی بہبود کے لیے ہمیشہ مشورے اور تعاون پیش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے صنعتی مرکز کو بھی جامعہ کے طلبا و طالبات کے لیے وقف کر دیا۔ اس میں تین سو ملازمین اور اہل ہنر و فن شریک تھے۔ یہ مرکز اب تک چل رہا ہے اور اس کی سالانہ پیداوار تیس ہزار ڈیزل انجن ہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران جرمن حکومت کے لیے ایک ٹینک Leopard one A ڈیزائن کیا‘ جو جرمن فوج کے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔
ترکی میں 1925ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے اور لادینی نظام کے اجرا کا دور شروع ہوا۔ مصطفی کمال ایک سکہ بند فری میسن اور عالمی صہیونی تحریک کا ایجنٹ تھا۔ عالمی قوتوں نے بڑی شاطرانہ چالوں سے اسے ہیرو بنایا اور پھر اس کے ذریعے خلافت کے مرکز کو لادینیت کا گڑھ بناکر اپنے منصوبوں کی تکمیل کرتے رہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ترک خلیفہ اور خلافتِ عثمانیہ کا ماٹو ہی غازیانِ دین (Defenders of Faith) تھا مگر نئے نظام میں دین و مذہب کو مکمل طور جلا وطن کر دیا گیا۔ خلافت کے خاتمے اور لادینی دور کے آغاز ہی سے اسلام پسند طبقات نے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ بدیع الزمان سعید نورسی (1873ء تا1960ء) کی شخصیت نے پورے ماحول میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ نورسی تحریک دلوں کی دھڑکن بن گئی مگر مصطفی کمال پاشا کے ظالمانہ اور آہنی اقدامات نے اسے عوامی تحریک بننے سے روکے رکھا۔ بدیع الزمان سعید نورسی مرحوم نے زندگی کا بیش تر حصہ جیلوں میں گزارا۔ وہ سیکولر نظام کے مقابلے پر اسلامی نظام کے احیا کا علم لے کر اٹھے تھے۔ اپنی تعلیم کے دوران نجم الدین اربکان اس تحریک سے متاثر ہوئے اور اپنی جامعہ میں ہم خیال طلبہ کو منظم کرکے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بڑی حکمت و تدبر کے ساتھ تحرک پیدا کیا۔ سعید نورسی کی وفات کے بعد اس چراغ کو نجم الدین اربکان نے نہ صرف یہ کہ بجھنے نہیں دیا بلکہ اس کی لو کو تیز سے تیزتر کرنے میں کامیاب رہے۔ 
60ء کے عشرے میں اربکان صاحب نے سیاسی جماعت، ملی نظام پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت انتخابات میں داخل ہوئے تو قونیہ سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گئے۔ ان کے علاوہ دو درجن کے قریب دیگر ارکان بھی مختلف علاقوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آگئے۔ اس دوران سیکولر قوتیں بالخصوص سیاست دان اور فوجی جرنیل حرکت میں آئے۔ ملی نظام پارٹی پر نو مہینے بعد ہی پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کی دھمکی فوجی جرنیل محسن باتور نے دی تھی اور پابندی کا اعلان بھی اسی نے کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دستوری عدالت عالیہ نے بھی اس ظالمانہ و آمرانہ فیصلے کو بحال رکھا۔ ایک بار اربکان صاحب جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام میں بطور مہمان تشریف لائے تو ایئر پورٹ پر میاں طفیل محمد صاحب نے ان کا استقبال کیا۔ ایئر پورٹ سے منصورہ آتے ہوئے اربکان صاحب، محترم میاں صاحب اور راقم الحروف ایک ہی گاڑی میں سوار تھے۔ اربکان صاحب اس زمانے میں بھی سیکولر طبقات کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے مگر مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے۔
فرمانے لگے ''میاں صاحب! پاکستان کی تحریک اسلامی بڑی خوش نصیب ہے۔ جب آپ کے ملک کا دستور بن رہا تھا تو مولانا مودودیؒ کی بیدار مغز قیادت نے بروقت تحریک چلا کر دستور کو اسلامی رنگ دینے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس ملک میں جیسی بھی نااہل اور بدعنوان حکومتیں مسلط رہی ہوں، ایک بات مسلّم ہے کہ حکومت آپ پر جب بھی پابندی لگائے اور آپ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور دستور کا حوالہ دے کر داد رسی چاہیں تو دستور آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جبکہ حکمران اقتدار کے باوجود کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ جب بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو ہم اسلام کا نام لینے والے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور دستور سیکولر طبقات کی پشت پر ہوتا ہے۔ ہماری دستور سازی کے وقت میں بدیع الزمان سعید نورسی نے صدائے احتجاج تو بلند کی تھی مگر وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ہم جو کانٹے پلکوں سے چن رہے ہیں‘ آپ کے راستے میں ان کانٹوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہم بجا طور پر آپ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ آپ کی تحریک جلد منزل سے ہمکنار ہو جائے گی‘‘۔ اربکان صاحب کے جواب میں میاں صاحب نے ان کی جدوجہد کی تعریف کی اور انہیں پاکستان کے بعض مشکل اور سلگتے ہوئے مسائل کا حوالہ دیا جو تحریک کے راستے کی عملاً رکاوٹیں ثابت ہوتے ہیں۔
اربکان صاحب کی سیاسی جماعت پر مسلسل پابندیاں لگتی رہیں۔ ملی نظام کے بعد ملی سلامت اور اس کے بعد ملی رفاہ پارٹی وجود میں آئیں۔ اربکان صاحب نائب وزیراعظم اور وزیراعظم بھی رہے مگر فوج نے ان کو ہمیشہ اقتدار سے محروم کیا۔ اردوان حکومت نے ان کی بیماری اور کمزوری کے موقع پر اعلان کیا کہ سابق وزیراعظم اور قومی ہیرو ہونے کی حیثیت سے ان کی وفات پر انہیں سرکاری پروٹوکول دیا جائے گا۔ اربکان صاحب بیمار تھے مگر ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے وصیت کی کہ سرکاری پروٹوکول کے بجائے انہیں سلطان محمد فاتح کی مسجد اور اس سے ملحقہ میدان میں عام مسلمانوں کی طرح جنازہ پڑھنے کے بعد اسی احاطے میں دفن کر دیا جائے۔ اس مسافر راہِ وفا کو 28 فروری 2011ء کو حضورِ حق سے واپسی کا بلاوا آ گیا۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے نمائندوں نے جنازے میں شرکت کی۔ وزیراعظم اردوان اور صدر عبداللہ گل جنازے کو کندھا دینے والوں میں شامل تھے۔ اربکان صاحب ایک کامیاب زندگی گزار کر دارِ خلد کو سدھار گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں