بدبخت اور خوش نصیب حکمران!

نبی اکرم ﷺنے اپنے دور کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کے نام خطوط لکھے۔ ان خطوط کے جواب میں مختلف حکمرانوں نے مختلف رویے اختیار کیے۔ کچھ بدبخت گستاخی پر اتر آئے اور انتہائی برے انجام سے دوچار ہوئے۔ کچھ نیک بخت مہذب طرز عمل اختیار کرکے عذابِ الٰہی سے بچ گئے جبکہ بعض خوش نصیب آنحضورﷺپر ایمان لا کر جنت کے مستحق بن گئے۔ اس مضمون میں دو حکمرانوں کا تذکرہ نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔ یعنی شاہِ ایران کسریٰ، حبشہ کے حکمران نجاشی اور مصر کے حاکم مقوقس کا۔ رومی بادشاہت کی طرح ایرانی بادشاہت بھی بہت طاقتور اور خود کو سپر پاور سمجھتی تھی۔ خسرو پرویز اس زمانے میں ایران کا حکمران تھا۔ آپؐ نے اس کے نام جو خط لکھا اس کا متن شرح المواھب میں امام زرقانی نے یوں محفوظ کیا ہے: 
''محمد اللہ کے رسول ؐکی طرف سے کسریٰ، حاکم فارس کے نام ، سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمدؐاس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تجھے اللہ عزو جل کے حکم کے مطابق دعوت (اسلام) دیتا ہوں۔ اس لیے کہ میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تاکہ جو لوگ زندہ ہوں انھیں (اللہ سے) ڈرائوں اور کفار پر اللہ کی حجت (بات) پوری ہوجائے۔ اسلام لے آئو، سلامت رہو گے، ورنہ تمام مجوس کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہوگا‘‘ (الزرقانی: شر ح المواہب ج۳،ص ۳۴۱، بحوالہ : اردو دائرہ معارف اسلامیہ سیرت خیر الانام ص ۳۰۳)
ایران کا کسرٰی رومی قیصر کے برعکس بہت غصیلا، مشتعل مزاج خود سر اور انتہائی سنگدل انسان تھا۔ اس نے آنحضورؐ کا خط سنتے ہی اول فول بکنا شروع کردیا۔ ایک جانب اس نے آنحضورؐ کے مبارک خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور دوسری جانب یہ جسارت کی کہ خود کو خدائی کا مقام دیتے ہوئے آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کی اور کہنے لگا (نقل کفر، کفر نہ باشد )میرا ایک غلام مجھے ان الفاظ میں خط لکھتا ہے۔ اس نے آنحضورؐ کے سفیر حضرت عبد اللہ بن حذافہ پر ہاتھ اٹھانا چاہا مگر پھر دھمکی دیتے ہوئے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تو اگر سفیر نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔ 
حضرت عبد اللہ بن حذافہؓ کی سیرت میں بہت سے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔ وہ کبھی موت سے نہیں ڈرے۔ بعد کے ادوار میں جنگی قیدی کی حیثیت سے شاہِ روم کے سامنے بھی انھیں پیش کیا گیا تھا۔ وہاں بھی ان پر خوف طاری کرنے کے لیے ان کے ایک ساتھی کو ابلتے ہوئے تیل کے کڑاہے میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ان پر کوئی خوف طاری نہ ہوا۔ آج بھی انھیں اپنی جان کا کوئی ڈر نہ تھا لیکن ان کے دل پر آرے چل گئے جب اپنے آقا و مولاؐ کے نامہ مبارک کی حرمت پامال ہوتے دیکھی۔ واپس آکر آنھوں نے پورا قصہ آنحضورؐ کی خدمت میں بیان کر دیا۔ آنحضورؐ نے اپنے جانثار کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس طرح اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اسی طرح اللہ اس کے ملک کو بھی پارہ پارہ کر دے گا۔ اس دوران خسرو پرویز، ہر قل کے مقابلے پر شکست پہ شکست کھاتا گیا۔ پھر اس کے خلاف گھر کے اندر بغاوت ہوئی اور اسے اپنے ہی بیٹے شیروَیہ نے قتل کر دیا۔ 
گستاخِ رسول تو اپنے انجام کو جلد ہی پہنچ گیا، مگر اس کی وسیع و عریض بادشاہت کے بھی ٹکڑے یوں ہوئے کہ حضرت عمرؓ و عثمانؓ کے دور خلافت میں اسلامی فوجوں کے سامنے فارس کے تمام قلعے اور شہر یکے بعد دیگرے شکست سے دوچار ہوتے چلے گئے تاآنکہ خلافت عثمانی میں آخری کسریٰ یزدگرد بھی مارا گیا اور آنحضورؐ کی ایک نہیں کئی پیشین گوئیاں پوری ہوگئیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کسریٰ ہلاک ہوجائے گا اور اس کے بعد کوئی کسریٰ تخت نشین نہیں ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزد گرد کے بعد کوئی کسریٰ تاریخ میں کبھی نظر نہیں آیا۔ 
دوسرا خط نجاشی، شاہِ حبشہ کے نام تھا۔ نبی اکرمؐ کے دور میں حبشہ ایک سرسبز و شاداب اور خوشحال ملک تھا۔ یہاں کا حکمران اور یہاں کے عوام مالی لحاظ سے بھی خوشحال تھے اور امن و امان کی صورتحال بھی دیگر ملکوں کی بہ نسبت بہت بہتر تھی۔ حبشہ کا حکمران عادل اور نیک دل تھا۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے نبوت کے پانچویں سال اپنے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی جانب ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضورؐ کے صحابہ نے مکہ سے ہجرت کی اور بحیرہ احمر کو عبور کرتے ہوئے حبشہ کی بندرگاہ مسووہ (مصوّع) پر جا اترے۔ وہاں سے دو سو کلومیٹر جنوب کی طرف دارالحکومت اکسوم تھا ۔صحابہ نے اس شہر میں رہائش اختیار کرلی اور نہایت امن کے ساتھ یہاں وقت گزارا۔ یہ عرصہ تقریباً پندرہ سالوں پر محیط تھا۔ بادشاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرؓ کی معرکہ آرا تقریر بھی سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے اور شاہِ حبشہ کا سورۂ مریم کی آیات سن کر رقت سے آبدیدہ ہوجانا بھی ہماری تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس بادشاہ کا نام اصحمہ بن ابجر تھا اور نجاشی اس کا لقب تھا، جس طرح روم اور ایران کے حکمران قیصر و کسریٰ کہلاتے تھے۔ افریقی زبان میں نجاشی کا تلفظ نجوس ہے اور اس کا معنی ہے بادشاہ ( اطلس سیرت نبوی ازڈاکٹر شوقی ابو خلیل، ص ۱۲۱) 
نجاشی کے نام آنحضورؐ نے جو خط لکھا وہ آپؐ کے صحابی حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ نے اس تک پہنچایا۔ آنحضورؐ نے اپنے خط میں بادشاہِ حبشہ کو بھی اس طرح اسلام کی دعوت دی جس طرح دوسرے ملوک و امراء کو دی تھی۔ نجاشی نے آپؐ کا خط وصول کرتے ہی اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور آنحضورؐ پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ امام ابنِ قیم نے زادالمعاد میں بیان کیا ہے کہ نجاشی نے اس موقع پر بھرے دربار میں قبولِ اسلام کے بعد جو خطاب فرمایا اس میں آنحضورؐ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے: 
''میں گواہی دیتا اور قسم کھاتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی امی ہیں جن کا اہلِ کتاب انتظار کر رہے ہیں اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راکب الحمار (گدھے کے سوار) سے حضرت عیسیٰ کی بشارت دی ہے، اسی طرح راکب الجمل (اونٹ سوار) سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خبری دی ہے اور مجھے آپؐ کی رسالت کا اس درجہ یقین ہے کہ عینی مشاہدے کے بعد بھی میرے اس یقین میں [کوئی] اضافہ نہ ہوگا (ابنِ قیم: زاد المعاد ج۳،ص۲۹۰) 
مؤرخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نجاشی نے قبولِ اسلام کے بعد آنحضورؐ کی خدمت میں جوابی خط لکھا اور اپنے قبولِ اسلام کی اطلاع دینے کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ اگر آپؐ فرمائیں تو میں خود آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائوں۔ نجاشی کا خط لے کر اس کا بیٹا اور ولی عہد ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ بذریعہ کشتی حجاز کی طرف روانہ ہوا مگر بد قسمتی سے یہ کشتی سمندر میں ڈوب گئی اور اس میں سوار لوگ جاںبحق ہوگئے۔ بہرحال آنحضورؐ کو نجاشی کے قبولِ اسلام کی اطلاع مل گئی اور آپؐ نے اس کو اپنے ملک پر عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔ صحیح بخاری کتاب الجنائز میں یہ حدیث درج ہے کہ آنحضورؐ نے حضرت نجاشی کی وفات پر صحابہؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی اور اپنے اس سچے اور وفادار امتی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ نجاشی کا انتقال رجب سنہ ۹ ہجری میں ہوا۔ حقیقت میں تو نجاشی حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے ہی میں مسلمان ہوچکا تھا، مگر آنحضورؐ کا خط ملنے پر اس نے باقاعدہ اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ وقت کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں میں یہ شخص سب سے زیادہ خوش نصیب تھا۔ 
مصر کے حکمران کا نام مقوقس تھا۔ اس کے نام بھی آنحضورؐ نے خط لکھا جو حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ اس کے پاس لے کر گئے۔ مقوقس نے آنحضورﷺکا خط پڑھ کر پوچھا کہ کیا یہ نبی نہیں؟‘‘
حضرت حاطبؓ نے جواب دیا: ''کیوں نہیں؟ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہیں۔‘‘مقوقس کہنے لگا: ''تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب انھیں ان کی قوم نے ان کو گھر سے نکالا تو انھوں نے بد دعا نہ کی؟‘‘ 
حضرت حاطبؓنے فرمایا: ''حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا وہ نبی نہیں تھے؟تو پھر جب ان کی قوم نے ان کو سولی پر لٹکانے کا ارادہ کیا تو انھوں نے بددعا کیوں نہ کی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو انھیں اٹھانا پڑا؟‘‘
مقوقس کہنے لگا:''بہت خوب! تم ایک دانا شخص ہو جو کسی دانا شخص کے پاس سے آئے ہو۔‘‘
اس کے بعد مقوقس نے آنحضورؐ کے قاصد کو بہت عزت و احترام کے ساتھ آنحضورؐ کے نام اپنا پیغام دیا جس میں آپؐ کی بھرپور تعریف تھی۔ اس نے آنحضورؐ کے لیے بہت سے تحفے بھی بھیجے۔ مقوقس نے تحفے کے طور پر حضرت ماریہ قبطیہؓ اور حضرت سیرینؓ جو خوبصورت مصری لڑکیاں تھیں بھی مدینہ بھجوائیں۔ حضرت ماریہؓ آنحضورؐ کے حرم میں داخل ہوئیں۔ انھی کے بطن سے آنحضورؐ کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے تھے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں