ہر انسان پر غم آتے ہیں‘ مگر اللہ نے اپنے سب سے پیارے نبی محمد مصطفیٰﷺ کو تو مسلسل غم وحزن سے دوچار کیا۔ اللہ ‘آپ کو آزمائش سے گزار کر پوری انسانیت کے لیے نمونہ بنانا چاہتا تھا۔ درّیتیم قیامت تک انسانیت کے لیے اُسوۂ حسنہ اور رول ماڈل ہیں۔ آپؐ اپنے رضاعی والدین کے پاس قریباً ساڑھے چار یا پانچ سال کی عمر تک رہے۔ اس عرصے میں آپ وہاں بہت سے تجربات سے گزرے۔ صحرا میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانا‘ جنگلی اور صحرائی جھاڑیوں اور درختوں سے پھل کھانا‘ مختلف قسم کے کھیل کود اور دوڑ میں حصہ لینا‘ اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں مہارت اس دور کے خاص واقعات ہیں۔
بعد کے زمانے میں بچپن کے کئی واقعات آپ کے بہن بھائیوں نے بیان کیے اور خود آپ نے بھی ان کا تذکرہ فرمایا۔ جب آپ کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ آپ کو آپ کی والدہ اور دادا کے سپرد کرکے گئیں‘ تو آنحضور کو یک گونہ اطمینان تھا کہ دادا کی بے مثال شفقت وسرپرستی اور ماں کی مامتا کی نعمت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح حلیمہ بھی مطمئن تھیں کہ ایک عظیم ذمہ داری سے نہایت کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوئی ہیں‘ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ماں بیٹے نے ایک دوسرے کی جدائی کو محسوس کیا۔
دوسری جانب سیدہ آمنہ کو اپنے دریتیم کی گھر واپسی پر جو خوشی تھی‘ اس کو الفاظ میں کوئی کیسے بیان کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ روزوشب اور لمحات وساعات ان کی زندگی کا خوش گوار ترین تجربہ تھا۔ اسی طرح ننھے محمدبن عبداللہ کے والد کا سایۂ شفقت اگرچہ سرپر نہیں تھا‘ مگر ماں کی مامتا کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ وہ آپ کو حاصل تھی۔ اس کے ساتھ سیدقریش جناب عبدالمطلب کی سرپرستی اور پیارومحبت بے مثال تھا۔ یہی نہیں‘ آپ کے چچا اور پھوپھیاں بھی آپ کو جب تک دیکھ نہ لیتیں‘ انہیں چین نہ آتا۔ اس خاندان میں یہ بچہ ہر شخص کے نزدیک اس کی آنکھوں کا تارا تھا۔
آمنہ کا در یتیم اس کائنات کا حاصل اور تخلیق ربّ ذوالجلال کا شاہکار ہے۔ خوشیوں کے یہ دن زیادہ طویل ثابت نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی مشیّت اور رضا ہوتی ہے کہ وہ کب کیا فیصلہ صادر کرے۔ آنحضورکی عمر چھ سال کے قریب تھی کہ آپ کی والدہ نے مدینہ جانے کا فیصلہ کیا۔ جناب عبدالمطلب سے اجازت طلب کی اور کہا کہ میں چاہتی ہوں‘ محمد کے ساتھ آپ کے ننھیال جاؤں اور ان سے ملاقات کروں۔ ساتھ ہی میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنے خاوند‘ اور میرا بیٹا اپنے والد کی قبر کی زیارت کرسکیں۔ انہوں نے اجازت دے دی‘ تو اپنی کنیز ام ایمن کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئیں۔ ان کے پاس سواری کے لیے دو اونٹ تھے۔ یہ آنحضورکا پہلا سفرِ مدینہ تھا۔ اس سفر میں آپ کی والدہ کی مامتا اور محبت آپ پہ سایہ کیے ہوئے تھی۔
اس وقت کون جانتا تھا کہ 47سال بعد پھر اس دریتیم کو مدینہ کا ایک سفر درپیش ہوگا اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں سر پہ سایہ فگن ہوں گی۔ ام ایمن تو اس سفر میں ساتھ نہ ہوں گی؛ البتہ ابوبکر صدیقؓ ہم قدم وہم راز ہوں گے۔ یثرب(مدینہ) کا یہ سفر مکمل ہوا‘ تو سیدہ آمنہ بنو نجّار کے ہاں پہنچیں۔ اس خاندان‘ بلکہ پورے قبیلے نے ان مہمانانِ عزیز کے قدموں میں دیدہ ودل فرش راہ کیے۔ بنونجّار آنحضورکے دادا جناب عبدالمطلب کے ننھیال تھے۔ آنحضوؐرکے والد جناب عبداللہ کی قبر مدینہ منورہ میں تھی۔ یہ بنونجّار کے ایک مشہور آدمی نابغہ کے صحن کے ایک جانب تھی۔ سیدہ آمنہ اسی گھر میں آکر ٹھہریں۔ اس گھر میں آنحضوراپنی والدہ کے ساتھ قریباً ایک مہینہ مقیم رہے۔ ام ایمن بھی وہیں مقیم رہیں۔ اس عرصے میں آنحضور بنونجّار کے محلے میں اپنے ہم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ خوب گھومتے پھرتے اور کھیلتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کبھی کبھاراپنے بچپن کے واقعات صحابہ کے سامنے پیش کرتے‘ تو مجلس میں عجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے اور بنوعدی بن نجار کا وہ بہت بڑا محل دیکھا‘ تو آپ نے پہچان لیا اور فرمایا کہ اس محل کی منڈیر پر ایک چڑیا بار بار آکر بیٹھا کرتی تھی۔ ہجرت کے بعد یہ گھر دیکھتے ہی آنحضورؐ نے فوراً کہا کہ میری والدہ مجھے اور ام ایمن کو لے کر یہیں آکے اتری تھیں۔ یہیں میرے والد گرامی قدر کی قبر ہے‘ پھر آپ نے فرمایا کہ میں بنونجّار کے لڑکوں کے ساتھ ان کے ایک تالاب میں نہایا کرتا تھاا ور اسی عمر میں میں نے تیراکی سیکھی تھی۔
ایک بڑی عجیب بات مورخین نے اس حوالے سے نقل کی ہے۔ ابن سعد کے بقول ام ایمن نے فرمایا کہ میں آنحضور کو دیکھتی رہتی تھی کہ وہ کہیں دور نہ نکل جائیں۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ کچھ یہودی ادھر آئے اور انہوں نے آنحضورکو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان کا کلام سنا‘ وہ آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ لڑکا اس امت کا پیغمبر ہے اور یہی بستی اس کا دارالہجرت ہوگی۔ ام ایمن نے یہ سب باتیں یاد رکھیں اور آنحضورکی نبوت کا اعلان ہونے کے بعد مختلف مواقع پر بیان کیں۔
مدینہ میں کم وبیش ایک مہینے کے قیام کے بعد جب سیدہ آمنہ اپنی کنیز اور بیٹے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں ‘تو ان کے رشتہ داروں نے بڑے ادب واحترام کے ساتھ ان کو رخصت کیا۔انہوں نے سیدہ آمنہ کو کئی تحفے دیے اور ان خواہشات کا اظہار کیا کہ وہ ان کی آیندہ مدینہ آمد کے منتظر رہیں گے۔ اس قافلے کے پاس مکہ سے چلتے ہوئے جو دو اونٹ تھے‘ وہی اب بھی ان کی سواری میں تھے۔ یہ مختصر اورقدسی قافلہ ابوا کی بستی میں پہنچا ‘جو مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے‘ توآنحضور کی والدہ کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی اور وہیں‘ ان کا انتقال ہوگیا۔ ام ایمن اور محمد بن عبداللہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ننھے محمدفطری طور پر فرطِ غم سے رونے لگے۔ ام ایمن کی اپنی کیفیت بھی بہت ناگفتہ بہ تھی۔ اس کے باوجود اس باسلیقہ خاتون نے معصوم بچے کی دل جوئی کی خاطر بہت ضبط سے کام لیا اور آنحضورکو بہت زیادہ پیار اور تسلی دی۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص۱۱۶)
ام ایمن اگرچہ بالکل نوعمر تھیں‘ مگربہت سمجھ دار اور دانش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے ابوا کے لوگوں کو اپنے قافلے کا تعارف کرایا اور وہیں سیدہ آمنہ کے کفن دفن کا انتظام کروایا۔ سیدہ آمنہ ابوا ہی میں دفن ہوئیں۔ ان کی قبر اب بھی موجود ہے۔ ایک بار مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے آنحضور‘ ابوا کے مقام پر رکے اور ایک قبر کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ سبھی صحابہ آنحضور کی کیفیت دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ اس موقع پر تمام صحابہ خاموش تھے۔ حضرت عمرؓنے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ میری والدہ ماجدہ کی قبر ہے۔ مجھے اپنی والدہ یاد آئی‘ تو مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور میں بے ساختہ رونے لگا۔ ( مسلم، کتاب الجنائز، حدیث۱۰۸، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ ومسند احمد میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ طبقات ابن سعد، ج۱، ص۱۱۶-۱۱۷)
ابوا میں سیدہ آمنہ کی تدفین ہوچکی ‘تو ام ایمن زخمی دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ راستے بھر وہ آنحضور کو حوصلہ دیتی رہیں۔ سیدہ آمنہ کی زندگی میں بھی ام ایمن ہی زیادہ تر آنحضور کی خدمت تواضع کیا کرتی تھیں۔ وہ آپ کے لیے بالکل بمنزلہ ماں کے تھیں۔ جب یہ ادھورا قافلہ مکہ واپس پہنچا اور سردار قریش عبدالمطلب کو اپنی پیاری بہو آمنہ بنت وہب کی دوران سفر وفات کی اطلاع ملی‘ تو اس بڑھاپے میں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ انہوں نے اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا اور نہایت شفقت ومحبت کے ساتھ ان کو چوما۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۴۰۸-۴۰۹، سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص۱۶۸)