15 برس ہوئے جب اسلام آباد میں حرکت قلب بند ہو جانے سے عالمِ اسلام کے عظیم مبلغ‘ پاکستان کے معروف سیاسی رہنما اور ایم ایم اے کے سربراہ سینیٹر مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی 78 سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ یہ خبر سرگودھا اور فیصل آباد کے سفر کے دوران سنی۔ مرحوم1926ء میں انڈیا کے مشہور شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ مولانا کا خاندان وہاں علمی اور دینی لحاظ سے ایک معروف گھرانہ تھا۔ مولانا کے بزرگوں میں سے آپ کے والد شاہ عبدالعلیم صدیقی اور دادا شاہ عبدالحکیم صدیقی اپنے وقت کے جید علما اور مبلغ تھے۔ حضرت شاہ عبدالحکیم بریلوی مکتب فکر کے علما میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہیں مرجع عام کی حیثیت حاصل تھی۔ اردو زبان کے مایہ ناز شاعر اسماعیل میرٹھی مرحوم مولانا نورانی کے دادا کے بھائی تھے۔
مولانا نے بچپن میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ ایک سفر کے دوران مولانا نے راقم سے اپنے خاندانی پس منظر کا تعارف کرایا تو اس میں تحدیث نعمت کے طور پر فرمانے لگے : ''اس فقیر کو اللہ جل جلالہ نے نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید اپنے سینے میں محفوظ کرنے کی سعادت نصیب فرمائی۔‘‘ (اللہ کی قدرت کہ مجھے بھی 9 سال کی عمر ہی میں یہ سعادت حاصل ہوئی تھی) واضح رہے کہ مولانا ماہِ رمضان میں ہر سال باقاعدگی سے تراویح میں قرآن مجید سنایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ نوافل میں بھی ایک یادو بار قرآن مجید کی تلاوت مکمل کر لیا کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہونے کے ساتھ مولانا کے عزم و ہمت کا مظہر بھی ہے۔
مولانا کا نام یحییٰ خاں کے مارشل لا اور اس دوران 1970ء کے عام انتخابات میں ملکی و قومی سطح پر متعارف ہوا۔ اس زمانے میں جمعیت علماے پاکستان کے سربراہ حضرت پیر قمر الدین سیالوی مرحوم تھے ‘جبکہ مولانا نورانی اپنی شیریں بیانی‘ وسیع مطالعے اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے اس جماعت کے روحِ رواں اور ہر دلعزیز خطیب تھے۔ اس دور میں نورانی صاحب پاکستان سے باہر خاصے معروف ہو چکے تھے ‘ کیونکہ اپنے والد گرامی قدر کی وفات کے بعد ان کے مریدوں سے رابطہ اور تبلیغ ِ اسلام کا کام انہوں نے سنبھال لیا تھا۔ ان کے بہنوئی مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن بیرونی ملکوں میں معروف تھے۔
مولانا سے پہلی ملاقات اسلام آباد میں اس وقت ہوئی جب بھٹو حکومت میں اپوزیشن پارٹیوں کے ممبرانِ اسمبلی دستور کی تشکیل میں اکثریتی پارٹی کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ صاحبزادہ صفی اللہ مرحوم‘ پروفیسر غفور احمد مرحوم اور محمود اعظم فاروقی مرحوم قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمایندگی کرتے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہو چکے تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کراچی سے آزاد ممبر کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پاسپورٹ بنوانے کیلئے ممبرانِ اسمبلی سے تصدیق کرانا پڑتی تھی‘ میں پروفیسر غفور صاحب کی تلاش میں اسمبلی ہال پہنچا۔ حسنِ اتفاق سے جاتے ہی مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ان سے پہلے بھی تعارف تھا۔ انہوں نے میرے پاسپورٹ فارم پر دستخط کیے اور وہاں پر موجود مولانا نورانی صاحب سے بھی تعارف کرایا۔ میں مولانا نورانی مرحوم کی فراست اور شستہ اردو طرزِ تکلم سے محظوظ ہوا‘ تاہم یہ ملاقات نہایت مختصر‘ چند تعارفی جملوں اور علیک سلیک تک ہی محدود رہی۔
ایک دفعہ مولانا شاہ احمد نورانی ‘افریقی ممالک کے دورے پر تھے۔ یہ غالباً1975ء کے آخر یا76ء کے آغاز کی بات ہے۔ مولانا کے اس دورے کے وقت راقم الحروف نیروبی (کینیا) میں بطور ڈائریکٹر اسلامک فائونڈیشن مقیم تھا۔ مولانا مرحوم کے ساتھ اس دورے میں مولانا عبدالستار نیازی اور شاہ فرید الحق صاحبان بھی تھے۔ اسلامک فائونڈیشن نیروبی نے اس دور میں سواحلی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا ‘جو خاصا مقبول ہوا۔ اس ترجمے سے قادیانیوں کا گمراہ کن ترجمہ اپنی موت آپ مرگیا۔ ہم نے اسلامک فائونڈیشن کا ایک وفد تشکیل دیا‘ جس نے مولانا نورانی سے ملاقات کی۔ مولانا اس وقت جے یو پی کے صدر تھے۔ وہ اپنے رفقا سمیت اپنے مریدِ خاص حاجی ابراہیم سنار کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے وفد نے مولانا اور ان کے ساتھیوں کی خدمت میں سوا حلی زبان کا ترجمہ قرآن پیش کیا۔ مولانا نے اس کاوش کو بہت سراہا۔
ہم نے قادیانیوں کی افریقہ میں ریشہ دوانیوں اور گمراہ کن کاوشوں کے تناظر میں تبادلہ خیال کیا اور پاکستانی پارلیمنٹ میں مولانا اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد اور کامیاب دستوری ترمیم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مولانا نے مختصر الفاظ میں قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کا پس منظر بیان فرمایا اور اپنے کسی پروگرام میں جانے کے لیے ہم سے معذرت کی۔ جب موجودہ صدی کے آغاز میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کی کاوش سے تمام دینی جماعتوں کے درمیان برادرانہ تعلقات استوار ہوئے اور ایم ایم اے کی صورت میں دینی اتحاد قائم ہوا‘ تو باہمی محبت اور مثالی اخوت کا ماحول پیدا ہوا۔
محترم قاضی صاحب نے تمام دینی شخصیات سے اپنے پورے دورِ امارت میں خصوصی روابط قائم رکھے اور ان تھک محنت اور عزمِ صمیم کے ساتھ اتحاد کی فضا قائم کرنے میں شب و روز لگے رہے۔ نورانی صاحب نے اس کام میں قاضی صاحب کو ہمیشہ اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ملی یکجہتی کونسل کے نام سے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے تمام مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں وجود میں آیا‘ جس کی نوعیت غیر سیاسی تھی۔ تمام مذہبی شخصیات کے درمیان مولانا شاہ احمد نورانی اپنے علم‘ قابلیت‘ بزرگی اور تجربے کے لحاظ سے نمایاں ترین شخصیت کے حامل تھے۔ ملی یکجہتی کونسل کی سربراہی کے لیے شیعہ‘ سنی‘ بریلوی‘ دیوبندی‘ حنفی و سلفی سب مکاتب فکر نے خوش دلی سے نورانی صاحب کے نام پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اس کونسل کی قیادت کا حق ادا کیا۔ گرم بحثوں اور اشتعال انگیز حالات میں بھی اجلاس کو پیار و محبت اور تحمل و ہمت کے ساتھ کنٹرول کرنا انھی کا کمال تھا۔
ملکی انتخابات میں دینی قوتوں کو آپس میں متحد کرنے کی ضرورت کا ہر شخص ہمیشہ قائل رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے بھی قاضی حسین احمد نے پیش قدمی کی اور26جون 2001ء کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر6 دینی جماعتوں کو دعوت دی۔ اس اجلاس میں مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ پروفیسر ساجد میر‘ علامہ ساجد نقوی اور قاضی حسین احمد نے شرکت کی۔ ایک مشترکہ اعلامیہ ترتیب دیا گیا‘ جس پر چھ رہنمائوں نے دستخط کیے۔ یہ انتخابی اتحاد تھا اور اس کا نام متفقہ طور پر متحدہ مجلس عمل تجویز کیا گیا تھا۔ مولانا نورانیؒ کو چھ جماعتوں نے متفقہ طور پر اتحاد کا صدر منتخب کیا۔ مولانا اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔
مولانا نورانی ایک عالمِ ربانی‘ زاہد و عابد‘ شب زندہ دار‘ خرافات سے متنفر اور قرآن و سنت کے پابند تھے۔ ایک مرتبہ خود ایک بہت بڑی مذہبی درگاہ اور روحانی گدی کا تذکرہ فرمایا اور بڑے دکھ کے ساتھ گدی نشینوں کی کتوں اور گھوڑوں سے محبت اور دین سے دوری پر اظہارِ افسوس کیا۔ وہ ایسے واقعات بیان کرکے ہمیشہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
میراث میں ملی ہے ان کو مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
مولانا کی زندگی نفاست اور سادگی کا مجسمہ تھی۔ مولانا کو سفر و حضر میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ انتہائی ملنسار‘ خلیق اور ہمدرد انسان تھے۔ اپنے علمی و سیاسی مقام کے باوجود ان کے اندر تواضع اور انکسار اس حد تک تھا کہ کسی کو اپنا جوتا نہ اٹھانے دیتے تھے۔ ہاں ‘جن عقیدت مندوں سے بہت زیادہ بے تکلفی تھی‘ ان کو یہ موقع کبھی کبھار مل جایا کرتا تھا۔ مولانا کی غذا بھی نہایت سادہ ہوتی تھی۔ انہیں بار ہا اجلاسوں میں اور ملاقاتوں کے دوران دستر خوان پر دیکھا۔ وہ مرغن غذائوں سے دور بھاگتے تھے۔ دال‘ سبزی اور سلاد ان کا من بھاتا کھانا تھا۔ پان مولانا کی پہچان تھی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی بڑی محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ ہمیں پان سے کبھی رغبت و دلچسپی نہیں رہی؛ البتہ مولانا کے پان دان سے الائچی لے لیا کرتے تھے۔
ملی کونسل کے اجلاسوں میں بسا اوقات نہایت گرما گرم بحث ہوتی اور ماحول میں شدید تنائو پیدا ہو جاتا تھا‘ مگر مولانا نورانی مرحوم حکیمانہ دانش و بینش اور محبت بھرے انداز میں حالات پر قابو پا لیا کرتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل ایک سیاسی اتحاد تھا اور انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ کئی مواقع پر اجلاسوں میں یہاں بھی بحث و تکرار شدید اختلافات کی صورت اختیار کر لیتی اور اشتعال انگیز ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ ایسے ہر موقع پر صدرِ مجلس سب کے جذبات ٹھنڈے کرتے اورکوئی قابل عمل حل نکل آتاتھا۔ انتخابات کے بعد مختلف مواقع پر مجلس کی تنظیم میں ذمہ داریوں اور مناصب کے حوالے سے بھی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا تو مولانا مرحوم کی حکمت و دانش نے مشکل گتھیاں سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہو ا اس کے اثرات اب تک محسوس ہوتے ہیں اور قافلہ ابھی تک اس حدی خواں کی کمی محسوس کرتا ہے۔
سیاست میں مولانا کا کردار بے داغ اور اجلا تھا۔ انہوں نے نظامِ مصطفیٰ ؐکے قیام اور آمریت کے مقابلے پر جدوجہد میں ہمیشہ جرأت و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایسے کمانڈر تھے‘ جس نے ایک لمحہ بھی محاذ سے دوری اختیار نہیں کی۔ ان کو بلاوا آیا تو اس وقت بھی وہ اپنے محاذ پر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کا خلا قدرت کاملہ سے پُر فرما دے۔( آمین )