عالم اسلام میں اکثر ممالک بدترین آمریت کی گرفت میں ہیں۔ حق کی آواز کو دبانے کیلئے ناقابل بیان مظالم سے مصروشام‘ بنگلہ دیش وکشمیر اور یمن وفلسطین کی سرزمین خونِ مسلم سے رنگین ہے۔ جہاں ایک جانب ظلم وستم کا یہ تاریک پہلو سامنے آتا ہے‘ وہیں بعض خطوں میں اپنے اپنے انداز میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہر مقام کے اپنے تقاضے اور ہر تحریک کیلئے اپنی حکمت عملی ہوتی ہے۔ مراکش‘ تیونس اور سوڈان میں اسلامی تحریکیں بڑی حکمت واحتیاط کے ساتھ پیش قدمی کررہی ہیں۔ تینوں ممالک میں پارلیمان اور دیگر منتخب اداروں میں اسلامی تحریکوں کے ارکان اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ کہیںسب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہیں‘ کہیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ حکومتوں میں بھی بڑی حکمت کے ساتھ شراکت کی ہے اور اپنے مقاصد سے غافل نہیں ہوئے۔ بظاہر ان کی بعض پالیسیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے نصب العین سے ہٹ گئے ہیں‘ مگر براہِ راست جب ان سے بات چیت ہو اور وہ اپنے ملک کے معروضی حالات میں اپنی حکمت عملی کی وضاحت کریں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے سلامتی اور احتیاط کے ساتھ یہ راستہ اختیار کیا ہے‘ جس میں بہرحال خیر ہے۔
گزشتہ صدی کے ربع اوّل میں ترکی میں خلافت کی بساط لپیٹنے کی سازش مغربی قوتوں نے اس انداز میں تیار کی کہ خود ترکی میں اپنے ایجنٹ پیدا کیے۔ مصطفی کمال‘ جسے اتاترک کہا گیا‘ فری میسن تھا۔ خلافت کے خاتمے پر اسے ترکی کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا گیا۔ اس کے خلاف زوردار آواز مردِ مجاہد بدیع الزمان سعید نورسی (۱۸۷۳-۱۹۵۹ئ) نے بلند کی۔ انہیں زندگی میں بارہا جھوٹے مقدمات میں پھانسا گیا اور جیل میں طویل عرصے تک مختلف وقفوں سے انھیں سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ترکی کے سیکولر دستور کے خلاف بدیع الزمان سعید نورسی نے بہت کاوش کی‘ مگر اس وقت عوامی تائید حاصل نہ ہونے اور ملک میں بدترین قسم کی آمریت کی وجہ سے خلافت کا مرکز اور سلطان محمد فاتح کا ورثہ سیکولرازم کے حوالے ہوگیا۔
نجم الدین اربکان مرحوم (۱۹۲۶-۲۰۱۱ئ) نے ایک مرتبہ پاکستان میں میاں طفیل محمدمرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کی موجودگی میں کہا کہ محترم قائدین آپ لوگ بہت خوش نصیب ہیں۔ دستور کی تدوین میں آپ نے سیدمودودیؒ کی انقلابی قیادت میں لادینیت کی جگہ اسلام کو کلیدی حیثیت سے شامل کروا لیا۔ آپ کا دستور اسلامی ہے۔ ہم سیکولرازم اور کمال ازم کے زہر کو پون صدی سے بھگت رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف آپ لوگ عدالت میں جائیں تو دستور آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے‘ جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارا دستور عدالت میں ہمارے خلاف حکمرانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
ترکی میں بہرحال ایک اور انداز میں اسلام کے نام لیوا اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ [یہ الگ بات ہے کہ ترکی میں اسلامی تحریک کا ایک گروپ سعادت پارٹی کے نام سے سرگرمِ عمل ہے‘ جن کے اثرات بہت محدود ہیں اور وہ رجب طیب اردوان کی جسٹس پارٹی اور حکومت کو اسلام کے سخت دشمن سمجھتے ہیں۔ اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے‘ مگر یہ موضوع یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا] ترکی میں ملک کا دستور اب تک سیکولر ہے‘ اسے تبدیل کرنے کیلئے جتنی تعداد میں پارلیمان میں نمائندگی کی ضرورت ہے‘ ابھی تک وہ حاصل نہیں ہوسکی؛ البتہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی قیادت مختلف النوع سوچ کے حامل ارکان پارلیمان کواپنے جھنڈے تلے لیے منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ دستور کو تبدیل کیے بغیر جہاں تک قانون سازی کی گنجائش ہے‘ اس کے ذریعے مصطفی کمال اور اس کے جانشینوں کے دور کی بہت سی چیزوں کو تبدیل کردیا گیا ہے۔
کبھی وہ وقت تھا کہ سکارف کے ساتھ کوئی خاتون کسی سرکاری ذمہ داری پر نہیں آسکتی تھی نہ ہی پارلیمان کی رکن بن سکتی تھی۔ ۲۰۰۲ء میں اسلامی سوچ رکھنے والی خاتون مروہ قہوجی کو سکارف نہ اتارنے کی وجہ سے پارلیمان کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ آج پارلیمان میں ۲۲ایسی خواتین ہیں ‘جو سکارف کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ موجودہ خاتونِ اول کبھی سکارف کے بغیر نہیں دیکھی گئیں۔ مخالف قوتوں کی بھر پور کاوشوں کے باوجود اللہ نے جسٹس پارٹی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا ہے اور اسے سخت چیلنجوں کا مقابلہ بھی درپیش ہے۔ اس کے باوجود امت مسلمہ کے سلگتے مسائل پر اگر کہیں سے کوئی جرأت مندانہ آواز اٹھتی ہے تو وہ ترکی ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بنگلہ دیش‘ مصر‘ شام اور میانمار کے مظلوم اہلِ حق کی حمایت کی توفیق پاکستان اور عرب ممالک کو تو نہ ہوسکی؛البتہ ترکی نے اپنا فرض ادا کیا۔
اسلامی تحریکیں ملائیشیا‘ انڈونیشیا اورافریقی ممالک الجزائر‘ موریطانیہ وغیرہ میں بھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ کہیں زیادہ کہیں کم ان کا وجود مجالس قانون ساز میں قابل ذکر تعداد میں موجود ہے۔ بعض چھوٹے صوبوں یا یونٹس میں ان کی حکومتیں بھی قائم ہیں؛ البتہ ان کو بھی بڑی‘ سیکولر اور قومیت پرست سیاسی قوتوں کے مقابلے میں بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ انڈونیشیا میں پچھلی صدی میں جو تحریک ماشومی پارٹی کے نام سے قائم ہوئی تھی‘ اس کے بارے میں مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم فرماتے ہیں: ''الاخوان کے بعد انڈونیشیا کی ماشومی پارٹی کسی نہ کسی حد تک دین کی جامعیت اور ہمہ گیری کا تصور رکھتی ہے اور اس کیلئے اپنی صوابدید کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتی رہی ہے۔ انڈونیشیا میں کوئی دور نیم دینی تحریکوں سے خالی نہیں رہا؛ البتہ ملک گیر نیم دینی ونیم سیاسی تحریک‘ تحریک خلافت کے سلسلے میں اٹھی۔ ۱۹۲۲ء میں مرکزی خلافت کمیٹی قائم ہوئی اور پھر ۱۹۲۶ء میں موتمراسلامی مکہ مکرمہ کی شاخ کا قیام بھی عمل میں آیا‘ لیکن اس کا اثر جلدی ہی ختم ہوگیا۔تمہید میں عرض کیا جاچکا کہ یہاں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے دو مذہبی جماعتیں کام کررہی تھیں۔ ۳۷ء میں ان دونوں کے کارکنوں نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ''المجلس الاسلامی الاعلیٰ الاندونیسی‘‘ قائم کی‘ لیکن پچھلی بڑی لڑائی کے دوران میں اس کا شیرازہ درہم برہم ہوگیا۔ جنگ کے خاتمے اور اعلانِ آزادی کے بعد تمام مسلمان انجمنوں اور اداروں کی ایک مشترک کانفرنس منعقد ہوئی‘ جس کا نام ''مجلس شوریٰ مسلمی انڈونیشیا‘‘ رکھا گیا۔ ''ماشومی‘‘ اس کا مخفف ہے اور عام طور پر یہ پارٹی ''مشومی‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے دستور میں یہ دفعہ بھی شامل ہے: ''جہاں تک ملک کی حکومت اور سیاست کا تعلق ہے‘ اسلام کے مقاصد کو پورا کرنا [پیش نظر] ہے۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی‘ ششم‘ ص۳۰۰-۳۰۱)
ماشومی پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر ناصر گزشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں انڈونیشیا کے وزیراعظم بھی رہے۔ انڈونیشیا میں موجودہ صدی میں نئے سرے سے تحریک نے حزب العدالہ والرفاہیہ (جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی) کے نام سے کام شروع کیا۔ اس وقت وہ حکومت میں شریک ہے۔ ملائیشیا میں اسلامی تحریک (P.A.S) کے پاس پارلیمان میں اٹھارہ نشستیں ہیں۔ اس سے قبل کی پارلیمان میں وہ اکیس نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی پارٹی کو بہت بری شکست ہوئی‘ جبکہ اس کے برعکس اس کے اتحادی اسلامی تحریک کے ارکان کو تین نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کی بڑی وجہ بھی یہ ہوئی کہ ان کے اپنے کئی سابقہ ارکان مہاتیرمحمد کے ساتھ جا ملے۔ اس وقت وفاقی حکومت میں یہ اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ صوبائی یا ریاستی اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی کم وبیش ہر جگہ موجود ہے۔ تیرہ میں سے دو ریاستوں کلنتان اور ترنگانو میں یہ حکومت میں ہیں‘ جبکہ دو ریاستوں قدح اور سلنگور میں مخلوط حکومتوں کا حصہ ہیں۔ موریطانیہ مغربی افریقہ کا مسلمان ملک ہے‘ جس کی کل آبادی قریباً چھیالیس لاکھ اور رقبہ دس لاکھ مربع کلو میٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ حکومت کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ موریطانیہ ہے۔ اس ملک کو بار بار کی فوجی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں پر اسلامی تحریک کا نام التجمع الوطنی لاصلاح الوطنی (تواصل) ہے۔ یہاں کی پارلیمان میں کل ۱۵۷نشستیں ہیں۔ حکمران پارٹی گزشتہ انتخابات میں ۹۷ نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اسلامی پارٹی تواصل ۱۴ نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ حکومتی پارٹی کے بعد یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ باقی ۴۶ نشستیں مختلف چھوٹی پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہیں۔ ''تواصل‘‘ کی قیادت اور ارکان اخوان کی فکر سے متاثر اور پرامن جدوجہد کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کے علم بردار ہیں۔
الجزائر میں اسلامی تحریک نے اپنا نام حرکۃ المجتمع الاسلامی رکھا‘ جس کا مخفف حماس تھا۔ حکمران ٹولے نے فلسطین کی اسلامی تحریک حماس سے مماثلت کی وجہ سے اس نام پر پابندی لگا دی۔ تحریک نے اپنا نام حرکۃ المجتمع السلّم‘ یعنی حمس رکھ لیا۔ یہ تحریک بھی سرگرمِ عمل ہے اور ہرطرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے قیادت اور کارکنان پرعزم ہیں۔ سرویز کے مطابق اگر الجزائرمیں لوگوں کو آزادانہ رائے کے استعمال کا حق مل جائے تو اسلامی تحریک سب پارٹیوں سے سبقت لے سکتی ہے۔ غزہ کی اسلامی تحریک حماس دشمن کے مقابلے پر بے انتہا مشکلات کے باوجود ڈٹی ہوئی ہے۔ یہودی اور صہیونی قوت امریکہ او رمغربی ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ ان حریت پسندوں کو کچلنا چاہتی ہے۔ ایسے حالات میں اپنے بھی بیگانے بن گئے ہیں‘ مگر عسکری اور سیاسی دونوں محاذوں پر حماس سربلند ہے۔ اللہ ان لوگوں کی حفاظت فرمائے اور مشکلات کو آسانی میں بدل دے۔