عالم اسلام کے بعض ممالک میں جمہوری نظام بظاہر موجود ہے۔ مختلف ممالک میں اس نظام کے تحت حاصل بنیادی حقوق کا لیول مختلف ہے۔ کہیں مکمل آزادی ہے اور کہیں جزوی‘ جبکہ ایک اچھی خاصی تعداد ان ممالک میں بھی ہے ‘جو دعویٰ تو جمہوریت کا کرتے ہیں‘ مگر وہاں جمہوریت نام کو بھی نہیں۔ عالمی سطح پر اس کی نمایاں مثال بنگلہ دیش ہے۔ اس بظاہر جمہوری ملک میں دسمبر2018ء میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں حکمران پارٹی نے مخالفین کے امیدواروں کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہیں دی۔ نہ ان کے حامیان ووٹ ڈال سکے‘ نہ ہی کوئی پولنگ ایجنٹ پولنگ سٹیشن میں داخل ہونے دیا گیا۔ بیلٹ بکس انتخاب شروع ہونے سے پہلے ہی جعلی ووٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ان انتخابات کو کسی صورت بھی انتخاب کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
ان ممالک کے حالات جہاں مسلمان کسی نہ کسی طرح جمہوری راستوں سے اپنے نمائندگان منتخب کرسکتے ہیں یا منتخب کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں‘ یعنی ترکی‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش‘ تیونس وغیرہ تبدیلی کا رخ اختیار کررہے ہیں؛ البتہ افغانستان اور بعض دیگر ممالک مثلاً: لیبیا‘ یمن‘ صومالیہ وغیرہ میں وہاں کے جغرافیائی اور معروضی حالات خاص نوعیت کے ہیں۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے‘ وہ عالم اسلام کے اہم ترین ممالک میں سے ہے۔ ایشیاء میں تو اس کا مقام علامہ اقبالؔ کے بقول کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملتِ افغان در آں پیکر دل است
از کشادِ او‘ کشادِ آسیا
وز فسادِ او‘ فسادِ آسیا
افغانستان میں ایک قوت امریکہ اور نیٹو کے ظالمانہ تسلط کے خلاف برسرپیکار ہے۔ یہ طالبان ہیں‘ جو ایسی قوت ہیں جن سے امریکہ نفرت کرنے کے باوجود وقتاً فوقتاً‘ مذاکرات کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ ان کے علاوہ حزب اسلامی (گلبدین حکمت یار)‘ جمعیت اسلامی (برہان الدین ربّانی مرحوم)‘ اتحادِ اسلامی (سیّاف) اور جمعیت الاصلاح بھی اپنے اپنے حلقوں میں خاصے اثرات رکھتی ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کا انخلا ہوجائے اور وہاں پرامن حالات میں عوام کو اپنی رائے کا حق استعمال کرنے کا موقع دیا جائے تو طالبان سمیت دیگر دینی قوتیں لادین قوتوں کو بری طرح شکست سے دوچار کرسکتی ہیں۔ اصل المیہ یہ ہے کہ یہی قوتیں آپس میں برسرِپیکار ہوجاتی ہیں اور افغانستان میں‘ چونکہ ہر شخص مسلح ہے اس لیے حالات کسی کے قابو میں نہیں رہتے۔ کوئی ایسا قومی منشور(چارٹر) بن جائے‘ جس پر سب لوگ اتفاق کریں اور پرامن جمہوری راستہ اختیار کیا جائے ‘تو افغانستان دوبارہ تعمیر وترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
کشمیر اور فلسطین میں وہاں کے مخصوص حالات میں اسلامی تحریکوں کے لوگ ظلم کے خلاف سخت ترین جبر کے باوجود پوری ہمت اور جذبے کے ساتھ مصروفِ جہاد ہیں۔ فلسطین اور غزہ کا تذکرہ تو اوپر ہوچکا ہے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے ‘وہاں تحریک اسلامی (جماعت اسلامی) اور دوسرے ونگ (حزب المجاہدین اور تحریک ِحریت میں شامل دیگر تمام جماعتیں) بھارت کے دھونس دھاندلی سے آلودہ انتخابات کا کافی عرصے سے بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ سیدعلی گیلانی کشمیر اسمبلی میں منتخب ہوتے رہے‘ مگر اب تو انتخابات میں جانے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہرروز بے گناہ کشمیریوں کے لاشے گر رہے ہیں اور پورے کشمیر میں ہر مرد وخواتین‘ بچہ اور بوڑھا ''بھارت مردہ باد‘‘ اور ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے۔ شہدا کے جسدِخاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے‘ مگر افسوس کہ پاکستان کے حکمران اپنے فرض منصبی سے بالکل غافل ہیں۔ کرتارپور راہداری کھول دینا ہی ان کے نزدیک اصلی اور اہم ترین کام تھا ‘جو وہ کرچکے ہیں۔ ''تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو‘‘۔
جماعت اسلامی کے اپنے تشخص کے حوالے سے:
(۱) ہماری سوچ بچار‘ ہمارے طور طریقے‘ ہماری رفتار وگفتار‘ ہمارے اخلاق وکردار‘ ہماری پسند وناپسند‘ ہمارا معیار خیروشر‘ غرض ہر چیز اپنے نصب العین کے عین مطابق ہونی چاہیے۔ ہمارا نصب العین رضائے الٰہی کا حصول اور فلاحِ اخروی ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے اقامتِ دین کا فریضہ قرآن وسنت کی روشنی میں فرضِ عین ہے۔ اس نصب العین میں جہاں کہیں عملی جھول پیدا ہوا ہم منزل سے دُور ہٹ گئے۔ ہماری کامیابی اس میں ہے کہ ہم فکری اور عملی ہر لحاظ سے اپنا تشخص قائم رکھیں‘ اسے اجاگر کرتے رہیں اور جہاں کوئی کوتاہی ہوجائے اس کو دُور کرنے کی فوری اور سنجیدہ فکر کریں۔ انسان ہونے کے ناتے بہت مرتبہ غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ان کا احتمال برابر موجود ہے‘ مگر ان غلطیوں کا اعتراف اور مخلصانہ اصلاح کی نیت اور کوشش تقاضائے ایمانی اور ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ محکم اصولوں کی روشنی میں وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر تدابیر پہلے بھی سوچی جاتی رہی ہیں‘ آیندہ بھی یہ عمل جاری رہے گا۔ زندہ تحریکیں کبھی جمود کا شکار نہیں ہوا کرتیں۔ آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا تنزل کی علامت ہے۔ زندگی حرکت اور ارتقا کا نام ہے۔ جس طرح بنیادی اصولوں اور طے شدہ نصب العین سے انحراف تباہ کن ہے‘ اسی طرح انقلابی پیغام کے تقاضوں سے صرف نظر کرنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بقول حکیم الامت:
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں
(۲)اگر تدبیر کی غلطیوں کا صحیح اور بے لاگ تجزیہ کرکے ہم کمربستہ ہوجائیں اور آئندہ یہ غلطیاں نہ دہرائیں تو ان شاء اللہ ہم پھر جانب منزل رواں دواں ہوجائیں گے۔ ہم نے اپنا کافی سرمایہ کھویا ہے‘ مگر اس سرمائے کی واپسی اور آئندہ اس کی افزایش کیلئے احساس زیاں کے ساتھ ہوش مندانہ منصوبہ بندی اور جرأت مندانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ کام کی توسیع اور دعوت کے پھیلاؤکے لیے دل بھی بڑا کرنے کی ضرورت ہے اور دروازہ بھی‘ مگر دروازے کو چوپٹ کھول دینا ‘نہ دانش مندی ہے‘ نہ سلامت روی۔ باہمی محبت والفت ہماری قوت کا راز ہے‘ مشاورت اسلامی تعلیمات کا بنیادی پتھر ہے اور اطاعت امر ہماری امتیازی شان۔ یہ اطاعت فی المعروف ہوتی ہے‘ جو قرآن وسنت کا محکم حکم ہے۔ اطاعت فی المعصیت کا اسلام میں قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ اوپر بیان کردہ یہ صفات کمزوری کا سدباب کرتی اور قوت کا سرچشمہ بن جاتی ہیں۔
(۳)ہماری تمام تر جدوجہد رضائے الٰہی کے لیے ہے اور ہماری تنظیم خالصتاً رضاکارانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ نہ زورزبردستی سے کسی کو اس تنظیم میں شامل کیا جاسکتا ہے‘ نہ جبراً اسے اس میں شامل رہنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے‘ اسی طرح رضاکارانہ طور پر آنے والوں کے راستے میں ناروا رکاوٹیں ڈالنا بھی تنگ نظری اور منفی سوچ ہے‘ جس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ تربیت کا عمل پوری زندگی کو محیط ہے۔ نئے لوگوںکی تربیت اسی صورت میں ہوسکتی ہے‘ جب پرانے کارکنان اس عمل سے گزر چکے ہوں۔ آنے والوں کو یقینا نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا تنظیم اور کارکنان کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکمت کے ساتھ کام کیا جائے تو ایک بڑی تعداد آسانی اور سہولت کے ساتھ تحریک میں ضم ہوجاتی ہے۔ جو اصحاب کوشش کے باوجود خود کو یہاں اجنبی پائیں‘ ان کے لیے بہرحال یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ کوئی اور پلیٹ فارم منتخب کرلیں۔
(۴)تنظیم کی قوت کا راز باہمی محبت اور ہمدردی میں ہے۔ یہاں تو اختلاف بھی خیر خواہی کے جذبے سے کیا جاتا ہے اور احتساب وتنقید میں بھی ہمدردی اور محبت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ امیر ومامور کا تعلق کبھی بھی آقا وغلام کا نہیں ہوتا‘ بلکہ اس میں اخوت ومودت اور شفقت واحترام کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ بظاہر کمزور بندے اپنی انھی صفات کی بدولت باطل کو طاقت ور اور ناقابل تسخیر نظر آتے ہیں۔ آج کے نازک دور میں سب سے زیادہ ضرورت باہمی اعتماد کی بحالی اور اخوت ومحبت کی تجدید ہے۔ باقی امور ان شاء اللہ خود بخود آسان ہوجائیں گے۔
(۵)اسلامی تحریکوں کا پوری دنیا میں جال پھیلا ہوا ہے‘ مگر ان کے خلاف کفر کی قوتیں ہر حربہ اختیار کررہی ہیں۔ پابندیاں لگانے‘ بلیک لسٹ کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے پرامن شہریوں کو ہراساں کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ان حالات میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے‘ پرُامن انداز میں مسلمان ممالک کے اندر اور غیرمسلم اکثریت کے جمہوری معاشروں میں بھی اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ کوئی غیر قانونی کارروائی کسی صورت بھی اسلامی تحریکوں کے لیے جائز نہیں۔ سب تحریکوں کے دستور اور اصول وضوابط اس بارے میں بالکل واضح ہیں۔ اقبالؔ کے الفاظ میں آج کا پیغام بھی یہی ہے:
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا