جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کی شہادت!

ماہِ شوال ۳ھ میں غزوہ احد پیش آیا۔ اس میں صحابہؓ کی تعداد سات سو اور دشمن تین ہزار تھے۔ آنحضورؐ نے درّے پر پچاس تیراندازوں کو ذمہ داری سونپی کہ وہ وہاں سے ہر گز نہ ہٹیں‘ جب تک انہیں حکم نہ ملے۔ جنگ شروع ہوئی اورکفار کے بہادر جنگجو قتل ہوئے تو انہوں نے پسپائی اختیار کی۔ اس پر درّے والوں نے سوائے دو تین افراد کے اپنی جگہ چھوڑ دی۔ دشمن نے درّہ خالی دیکھا تو پہاڑ کے پیچھے سے گھوڑسوار دستوں کے ذریعے حملہ کیا‘ جبکہ پیدل فوج بھی واپس پلٹ آئی۔ یوں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ میدان جنگ میں حضرت حمزہؓ جس جانب نکلتے دشمنوں کی صفیں الٹ دیتے۔ وہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لیے محو پیکار تھے۔ ارطاۃ بن شرحبیل کو قتل کرنے کے بعد سباع بن عبدالعزیٰ غبشانی ان کے سامنے آیا۔ یہ شخص بڑا بہادر تھا اور ابونیار کی کنیت سے معروف تھا۔ حضرت حمزہؓ نے اسے پکار کر کہا: ''او ام انمار کے بیٹے! کہاں جاتا ہے؟ ادھر آ‘ ذرا دو دو ہاتھ کر لیں۔‘‘ یہ سن کر وہ بھی ہنکارتا ہوا آپ کی جانب بڑھا۔ دونوں بہادر بھی تھے اور جنگ کے رموز و اسرار سے واقف بھی؛ چنانچہ دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ حضرت حمزہؓ نے ایسا کاری وار کیا کہ ابونیار ڈھیر ہوگیا۔ 
جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں قریش کے معزز گھرانوں کے بہت سے ذی وقار سردار موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ مکہ سے چلتے ہوئے جبیر بن مطعم نے اپنے حبشی غلام و حشی بن حرب سے مخاطب ہو کر کہا: ''تم اگر جنگ میں حمزہ بن عبدالمطلب کو قتل کر دو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔‘‘ جبیر بن مطعم کا چچا طعیمہ بن عدی جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ وحشی کو اس کے آقا کے علاوہ قریش کے بہت سے دیگر سرداروں نے بھی انعام کا لالچ دیا تھا۔ خاص طور پر سالار لشکر ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے وحشی کو یہ کارنامہ سر انجام دینے کی ترغیب دلائی تھی۔ مکہ سے چلنے کے وقت سے لے کر حضرت حمزہ کی شہادت تک جب بھی ہندہ کو وحشی نظر آتا اس سے کہتی: ''اے وحشی‘ تو ہمارا سینہ ٹھنڈا کر ہم تیرا دل خوش کر دیں گے۔‘‘ 
وحشی‘ حضرت حمزہؓ کے مقابلے پر آنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا‘ مگر اس کے پاس ایک ایسا فن تھا‘ جس پر اعتماد کرتے ہوئے اس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے کی ہامی بھر لی۔ وہ دور سے نشانہ باندھ کر اس مہارت سے نیزہ یا خنجر پھینکتا تھا کہ اس کا نشانہ کم ہی خطا ہوتا تھا۔ حضرت حمزہؓ زرہ نہیں پہنتے تھے۔ سباع بن عبدالعزیٰ کو قتل کرنے کے بعد ان کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گئے۔ اٹھنے لگے تو پتھر کی اوٹ سے وحشی نے نیزہ پھینکا جو ان کی ناف کے نیچے لگا اور جسم سے پار ہوگیا۔ انہوں نے اپنے قاتل کو دیکھ لیا‘ زخم کھا کر وہ لڑکھڑائے اور گر پڑے اس کے باوجود ہمت کر کے اٹھے اور اپنے قاتل کی طرف بڑھنا چاہا‘ مگر پھر گر گئے اور شہید ہوگئے۔ سیدنا حمزہؓ کی شہادت پر کفار نے بے پناہ خوشیاں منائیں۔ ہندہ نے حضرت حمزہؓ کی لاش کا مثلہ کیا‘ ناک اور کان کاٹ لیے‘ پیٹ چاک کر کے جگر اور کلیجہ نکال لیا۔ جگر کے ٹکڑے چبانا چاہے‘ مگر نگل نہ سکی۔ ناک کان اور دیگر اعضائے جسم کا ہار پرو کر گلے میں ڈال لیا۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور اس نے فی البدیہہ اشعار کہے :ہم نے تم سے یوم بدر کا بدلہ لے لیا ہے اور ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ کے شعلے تو بھڑکتے ہی ہیں۔ 
مجھے اپنے باپ عتبہ کے قتل پر اور اپنے بھائی ولید اور چچا شیبہ اور بیٹے بکر (مراد ہے حنظلہ) کی جدائی پر صبر اور چین نہیں آتا تھا۔
آج میرا دل مطمئن ہو گیا ہے اور میں نے اپنی مانی ہوئی نذر پوری کر لی ہے۔ اے وحشی تو نے میرے سینے کا غم دور کر دیا ہے اور میرے دکھوں کا مداوا مہیا کر دیا ہے۔ وحشی کے احسان کا شکر ساری عمر کے لیے میرے اوپر واجب ہوگیا ہے ‘جو میں ہمیشہ ادا کرتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ میری ہڈیاں قبر میں گل سڑ جائیں۔ 
ہندہ بنت عتبہ کے اشعار کا جواب اس کی ہم نام صحابیہ حضرت ہندہ بنت اثاثہ بن عبادؓ نے دیا جن کا ذکر ابن ہشام نے اپنی تاریخ میں کیا ہے۔ ان اشعار میں سے پہلا شعر ہے:تو بدر میں بھی ذلیل و رسو ا ہوئی اور بدر کے بعد بھی ذلت ہی ذلت تیرا مقدر ہے۔ اے بہت غیبت کرنے والے بڑے کافر کی بیٹی!حضرت حمزہؓ کی شہادت تاریخ انسانی کے ان واقعات میں سے ہے‘ جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس واقعہ میں بغض اور کینہ کی بدترین مثال اور سنگ دلی و شقاوت کا بدترین نمونہ نظر آتا ہے اور صبر و استقامت اور تقویٰ و عزیمت بھی پوری عظمت کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ جنگ کے بعد جب آنحضوؐر نے اپنے عظیم چچا کی لاش کے ٹکڑے میدان میں بکھرے ہوئے دیکھے تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرط ِغم سے آپ ایسے بے قرار ہوئے کہ تمام صحابہ بھی رونے لگے۔ آپ نے اپنے شہید چچا کی لاش سے مخاطب ہوکر فرمایا: ''اﷲ کی رحمت تمہارے اوپر سایہ فگن ہو‘ تم رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہر کار خیر میں سبقت لے جاتے تھے؛ اگر مجھے صفیہ کے غم و رنج کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہارے جسم کے ٹکڑے یونہی میدان میں چھوڑ دیتا ‘تاکہ انہیں درندے اور پرندے کھا جائیں اور تم قیامت کے دن انہی کے پیٹ سے اٹھائے جاؤ۔ خدا کی قسم میں تمہارے بدلے میں کفار کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔‘‘ 
آنحضوؐر کے اس ارادے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وحی کے ذریعے تذکیر کی گئی۔ ''اور اگر تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تمہیں اذیت پہنچائی گئی اور اگر تم صبر کرو تو بلاشبہ صبر کرنے والوں کے لیے صبر ہی اچھا ہے اور تم صبر کرو اور تمہارا صبر کرنا خاص اﷲ ہی کی توفیق سے ہے۔ ‘‘ (سورۃ النحل آیات ۱۲۶) ابن کثیرؒ اور امام القرطبیؒ نے اپنی تفسیروں میں ان آیات کی شان نزول اسی واقعہ کو بیان کیا ہے۔ اس حکم ربانی کے بعد آپ نے یہ ارادہ ترک کر دیا اور قسم کا کفارہ ادا فرمایا۔ نا صرف یہ‘ بلکہ آپ نے مثلے سے سختی کے ساتھ منع فرمادیا اور حکم ہوا کہ ''مثلہ ہر گز نہ کرنا؛ حتیٰ کہ باؤلے کتے کا بھی۔‘‘ 
حضور اکرمؐ کا دل سخت غمگین تھا۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے صبر کی تلقین بھی کی اور آپؐ کے زخم پر مرہم بھی رکھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا : ''مجھے جبریل امین ؑنے خوشخبری سنائی ہے کہ حمزہؓ بن عبدالمطلب کو ساتوں آسمانوں پر(اور جنت الفردوس میں) اسد اﷲ و اسد رسولہ لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ حضرت حمزہؓ کی بہن حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب جنگ کی خبر سننے کے بعد مدینہ منورہ سے احد کی طرف روانہ ہوئیں۔ جب حضوؐر کو پتا چلا تو آپؐ نے حضرت صفیہؓ کے بیٹے حضرت زبیرؓ کو حکم دیا کہ وہ انہیں میدان جنگ سے دور ہی روک لیں اور مدینہ واپس لے جائیں‘ کیونکہ‘ اگر وہ اپنے بھائی کی مثلہ شدہ لاش کو دیکھیں گی‘ تو صبر کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔ جب ان کے بیٹے نے انہیں واپس جانے کے لیے کہا تو انوہں نے فرمایا: ''میں اپنے بھائی کے بارے میں ساری خبر سن چکی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ یہ اﷲ کی راہ میں دی گئی قربانی ہے۔ میں جاہلیت کے طور طریقوں سے متنفر ہوں۔ میں نہ بین کروں گی اور نہ گریبان پھاڑوں گی۔‘‘ چنانچہ آنحضوؐر نے انہیں میدان میں آنے کی اجازت دے دی۔ جب عزیز بھائی کے جسم کے ٹکڑے بکھرے ہوئے دیکھے تو آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں جاری ہوگیا‘ مگر زبان سے انا ﷲ و انا لیہ راجعون کے الفاظ ہی بار بار نکلے‘ پھر اﷲ تعالیٰ سے التجا کی: ''اے اﷲ یہ قربانی تیری راہ میں دی گئی ہے‘ تو اسے قبول فرمالے۔‘‘ اس کے بعد حضرت صفیہؓ حضورؐکے حکم سے واپس مدینہ چلی گئیں۔ 
حضرت حمزہؓ کے جسم کے ٹکڑوں کو جمع کیا گیا اور کفن پہنا کر جنازے کے لیے صفوں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ حضرت صفیہؓ نے جاتے ہوئے زبیر کو دو چادریں دی تھیں اور فرمایا تھا: ''اپنے ماموں کو ان میں دفنا دینا۔‘‘ حضرت زبیر نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی شہید ہوگئے تھے ‘جن کے جسم پر معمولی کپڑے تھے۔ انہوں نے ایک چادر میں اپنے ماموں کو کفنا دیا اور دوسری چادر سے انصاری صحابی کو کفن پہنا دیا۔ ایک روایت کے مطابق؛ سب شہداء کا جنازہ ایک ساتھ ہی پڑھا گیا‘ جبکہ ایک دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضوؐر نے سب سے پہلے حضرت حمزہؓ کا جنازہ پڑھایا‘ پھر ہر شہید کو باری باری لایا جاتا اور حضرت حمزہؓ کے سامنے رکھ دیا جاتا اور ہر ایک کی نماز جنازہ آنحضوؐر کی اقتدا میں پڑھی جاتی‘ اسی طرح حضرت حمزہؓ کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھا گیا۔ صحابہ کو اجتماعی قبروںمیں دفن کیا گیا۔ حضرت حمزہؓ کو ان کے بھانجے عبداﷲ بن جحشؓ کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا گیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ان کے ساتھ ہی دفن کیے گئے تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۶۸۸-۶۹۰)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں