محمد مرسی شہید مصر کے پہلے منتخب صدر اور انتہائی باکردار‘ صاحب ِ علم شخصیت کے مالک تھے‘ انہیں عوام نے انتخابات میں مصر کا صدر منتخب کیا‘ انہیں قصر صدارت میں صرف ایک سال (30جون2012ء تا3جولائی 2013ئ) ہی گزرا تھا کہ فوجی ڈکٹیٹر عبدالفتاح سیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے تمام ممالک اور شخصیات نے اس پر نا صرف چپ سادھ لی‘ بلکہ اس غیرآئینی عمل کو سراہا۔ ڈاکٹر حافظ محمدمرسی کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اخوان المسلمون کی باقی ساری قیادت بھی حوالۂ زنداں کردی گئی۔ اس ظالمانہ اقدام پر عوامی احتجاج ہوا تو پرُامن عوام کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سیکڑوں بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس ظلم وستم پر سوائے ترکی اور چند دیگر ممالک کے پوری دنیا خاموش رہی۔ صدر مرسی کو بار بار سزائے موت اور عمر قید سنائی گئی۔ ان کی اپیل چھ سال سے عدالتوں میں چل رہی تھی۔ جیل میں بھی ‘انہیں ایک پنجرے میں بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ علالت کی وجہ سے وہ گر کر بے ہوش ہوجاتے‘ مگر ان کے علاج کی طرف جیل حکام نے کبھی توجہ نہ دی۔ ان باتوں کا اظہار صدر مرسی نے عدالت میں 17جون 2019ء کو اپنے بیس منٹ کے بیان میں کیا۔ اس کے بعد شیر جو پنجرے میں بند تھا‘ وہ بے ہوش ہو کر گرا اور ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش کرگیا۔ صدر مرسی کی المناک شہادت دنیا بھر کے اہلِ ایمان کو درد وکرب میں مبتلا کرگئی۔ اللہ کی رحمت نے اس مردِ مومن کو ڈھانپ لیا ہوگا اور وہ یقیناشہدا کے ساتھ اعلیٰ علیین میں خوش وخرم ہوں گے۔
صدر محمد مرسی قاہرہ سے شمال میں ایک چھوٹے سے گاؤں عَدوہ میں 1951ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انتہائی نیک اور دین سے محبت رکھنے والے مسلمان اور پیشے کے لحاظ سے کاشت کار تھے۔ ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ جناب محمد مرسی پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ سب بھائی انتہائی ذہین اور شریف النفس تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب ایک دوسری بستی میں حاصل کی۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ''مجھے یاد ہے کہ میں گدھے پر سوار ہو کر سکول جایا کرتا تھا۔‘‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے علاقے سے قاہرہ میں آئے اور 1975ء میں قاہرہ یونی ورسٹی سے انجینئرنگ میں بی ایس سی کی ڈگری اعلیٰ اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے بعد اسی یونی ورسٹی سے انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری 1978ء میں حاصل کی۔
محمد مرسی شہید کی قابلیت کی بنیاد پر انھیں سرکاری وظیفہ ملا اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انہوں نے جنوبی کیلیفورنیا یونی ورسٹی سے 1982ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس میں بھی ‘انہیں بہت اعلیٰ اعزاز کے ساتھ کامیابی ملی۔ ان کا خاص مضمون ایلومینیم ایکسائیڈ تھا۔ امریکہ میں انہوں نے ریاست کیلیفورنیا میں نارتھ برج یونی ورسٹی میں 1982ء سے 1985ء تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ‘انہیں ناسا (National Aeronautics and Space) میں کام کرنے کی دعوت دی گئی‘ یہاں انہوں نے سپیس شٹل انجن ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ امریکہ میں تعلیم اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد جناب محمد مرسی‘ جو اخوان المسلمون سے اپنی جوانی ہی کے دور سے منسلک تھے‘ نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔ بہت پرکشش ملازمت کو چھوڑ کر وطن آگئے اور زقازق یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ اخوان کے ساتھ تعلق اور مصر کے آمرانہ ماحول میں محمد مرسی کو سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاسی میدان میں آنا پڑا۔ اس وقت حسنی مبارک مصر کا صدر تھا اور اخوان پر بطورِ سیاسی جماعت پابندی تھی۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے سیاسی لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے اور پارلیمان میں اپنا گروپ تشکیل دیتے۔ محمد مرسی 2002ء میں پہلی بار مصری پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ اس دوران وہ اخوان المسلمون کی مجلس شوریٰ (مکتب ارشاد) کے رکن بھی تھے۔ 2002ء سے 2005ء تک پارلیمان میں ان کی کارکردگی اتنی عظیم تھی کہ انہیں عالمی سطح پر دنیا کا بہترین پارلیمانی رکن قرار دیا گیا۔
جب عالم عرب میں ''عرب بہار‘‘ وجود میں آئی تو تیونس کے بعد دیگر ممالک بالخصوص مصر میں بھی اس نے زور پکڑا۔ رابعہ بصریہ کے میدان اور تحریر سکوئر میں روزانہ لاکھوں لوگ جمع ہوتے اور بنیادی حقوق اور آزادی کیلئے آواز بلند کرتے۔ حکومت نے کئی مرتبہ گولیاں چلائیں اور کم وبیش سات سو افراد ان دنوں میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے اور ہزاروں لوگ جیلوں میں بند کردیے گئے۔ صدر مرسی کو بھی 28جنوری 2011ء کو اخوان کے 24دیگر رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اس سب کچھ کے باوجود تحریک کمزور ہونے کی بجائے اور مضبوط ہوتی گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ مصر کے ظالم صدر حسنی مبارک کو 11فروری 2011ء کو تیس سال مصر پر حکومت کرنے کے بعد اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ فوجی جرنیل محمد طنطاوی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ عرب لہر اتنی مضبوط تھی کہ فوجی حکومت کو انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں اخوان المسلمون نے فریڈم اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے حصہ لیااور سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر کامیابی حاصل کی۔
فریڈم اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے خیرات شاطر کو صدارتی انتخابات کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ‘جبکہ ڈاکٹر محمد مرسی ان کے کورنگ امیدوار کے طور پر نامزد کیے گئے۔ ڈاکٹر خیرات کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تو محمد مرسی صدارتی انتخابات کے میدان میں اترے۔ انہوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے‘ مگر اکثریت نہ مل سکی۔ دوسرے راؤنڈ میں انہوں نے اپنے مدمقابل احمد شفیق کو جسے دیگر تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی شکست دے کر فتح حاصل کی۔ محمد مرسی کو 51.73 فیصد ووٹ ملے۔ صدر مرسی نے حلف اٹھانے کے بعد سرکاری پروٹوکول ختم کرکے بالکل عوامی انداز اختیار کیا۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ صدر کی گاڑی اسی طرح ٹریفک کے اشاروں پر رکے گی‘ جس طرح عام گاڑیاں رکتی ہیں‘ اسی طرح انہوں نے ایوان صدارت کے اخراجات پہلے کے مقابلے میں بہت کم کردیے۔ صدر مرسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کوئی بھی شخص دستور سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ ہر شخص کو برابر کی سطح پر انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔ مصری سوسائٹی مختلف خیالات کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے کسی کے بھی بنیادی حقوق سلب نہیں کیے جائیں گے۔ غیرمسلم قبطی‘ عیسائی ‘اسی طرح مصر کے شہری ہیں‘ جس طرح مسلمان ہیں۔ انہیں پوری آزادی حاصل ہوگی‘ جس طرح میں مصر کا شہری ہوں‘ اسی طرح ہر قبطی بھائی بھی میرے برابر کا شہری ہے۔ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ عالمی معاملات میں بھی مصری پالیسی کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے‘ بالخصوص نائن الیون کا واقعہ ایسا ہے کہ جس پر بہت سے سوالات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی مضبوط عمارت محض کسی طیارے کے ٹکرانے سے زمین بوس نہیں ہوسکتی تھی۔ اسے اندر سے تباہ وبرباد کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ فلسطین کے مسئلے پر انہوں نے خالص اسلامی موقف اختیار کیا اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کھل کر اظہار کیا۔ غزہ کے محبوس اور مظلوم مسلمانوں کیلئے بند پھاٹک کو کھول دیا۔ عالم کفر کو ایسے قائد کہاں برداشت ہوسکتے ہیں۔ ان کے خلاف سازش کرکے انھی کے وزیردفاع جنرل سیسی کو فوجی انقلاب برپا کرنے کا اشارہ ملا‘ جس کے نتیجے میں ایک سال کے بعد ہی صدر محمد مرسی کی حکومت ختم کرکے ملک میں فوجی آمریت قائم کردی گئی۔ جمہوریت کے خاتمے اور فوجی آمریت کے نفاذ پر جمہوریت کے علم برداروں نے بغلیں بجائیں اور ڈھول پیٹے۔ اخوان کے مرشد عام جناب ڈاکٹر محمد بدیع‘ سابق مرشدعام جناب محمدمہدی عاکف‘ صدر محمدمرسی اور ساری اعلیٰ قیادت کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیلوں میں بند کردیا گیا۔ جھوٹے الزامات کے تحت جعلی عدالتیں سزا پہ سزا سنائے چلی جارہی تھیں‘ مگر ترک حکومت کے احتجاج کے علاوہ ہر طرف سناٹا تھا۔ صدر محمد مرسی کو سزائے موت سنانے کے بعد عام کوٹھری میں بند کرنے یا کسی قسم کی مراعات دینے کی بجائے پنجرے میں قید کیا گیا۔ ان مظالم نے جمال عبدالناصر کا دورِ ظلم وجبر تازہ کردیا۔
صدر محمد مرسی سے پہلے جناب محمد مہدی عاکف بھی 22ستمبر 2017ء کی شام قاہرہ کی جیل میں شہادت سے ہم کنار ہوئے تھے۔ صدر محمد مرسی کی وفات پر حکومت نے اعلان کردیا کہ ان کے جنازے میں ان کے دو بیٹوں اور اہلیہ کے سوا کوئی شریک نہیں ہوسکے گا۔ ان کے علاوہ چند سرکاری کارندے جنازے میں شرکت کریں گے۔ اخوان کے بانی اور پہلے مرشد عام امام حسن البنا شہید کا جنازہ بھی اسی طرح ہوا تھا۔ زندہ مرسی سے ڈرنے والے بزدل حکمران ان کی شہادت کے بعد ان کے جسد خاکی سے بھی خوف زدہ تھے۔ مصر کے مختلف شہروں میں عوام الناس نے حکومتی پابندیوں کے باوجود شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی۔ اس موقع پر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دنیا بھر میں جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے‘ وہاں سے لے کر جہاں سورج غروب ہوتا ہے ہر خطۂ ارض پر اہلِ ایمان نے شہید کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام ہوا۔
مسلمان ممالک میں سرکاری سطح پر ترکی نے سب سے اعلان کیا کہ ملک کی ہر مسجد میں شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا جائے گا۔ قطر اور ملائیشیا کی حکومتوں نے بھی ایسا ہی اعلان کیا۔ عوامی سطح پر مسلمان اور غیرمسلم تمام ممالک میں جہاں کوئی مسلم آبادی موجود ہے‘ شہید کیلئے سسکیوں اور آہوں کے ساتھ نمازجنازہ میں دعائے مغفرت کی گئی۔محمد مرسی ہمیشہ زندہ رہے گا اور بدبخت سیسی اپنے پیش رَو آمروں کی طرح رسوا وذلیل ہوکر رہے گا۔