وصالِ نبویؐ اور خلافتِ ابوبکرؓ

اہلِ مدینہ کو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی اطلاع اس وقت ہوئی‘ جب حضرت بلال نے فجر کی اذان دی اور اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ پر پہنچے تو رو پڑے۔ ان کی سانس رک گئی اور لمبے سانس لینے لگے۔ اس سے اہل مدینہ کو اندازہ ہوا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے ہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بدھ کی شب کو ہوئی ‘جبکہ آپ کی رحلت پیر کے دن ہوئی تھی۔ درمیانی عرصے میں صحابہؓ آپ کے حجرے میں باری باری نماز جنازہ پڑھتے رہے اور آپ کی جانشینی کا معاملہ بھی صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق اور خوش اسلوبی سے طے کر لیا۔ (تفصیلات البدایۃ والنہایۃ صفحہ۱۰۴۳‘ ۱۰۴۴‘ ۱۰۵۲‘ ۱۰۵۳‘ پر دیکھیں)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نام لے کر واضح الفاظ میں اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک خاتون آپؐ کے پاس آئی اور آپؐ سے کچھ سوال کرنے لگی۔ جب جانے لگی تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آئندہ یہاں آؤں اور آپؐ کو موجود نہ پاؤں تو کس سے سوال کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ابوبکرصدیق سے‘اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت کے دوران حکم دیا کہ ابوبکر! لوگوںکو نماز پڑھائیں ۔اس وقت آپؐ اپنے حجرے میں تھے۔ جب آپؐ نے اپنی طبیعت میں ذرا بہتری محسوس کی تو آپؐ مسجد میں تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے آپؐ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے‘ مگر آپؐ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں‘ بلکہ اپنی امامت میں نماز مکمل کرائیں۔ (صحیح بخاری‘ مناقب ابوبکرؓ)
پھر آنحضوؐر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ یوں یہ نماز مکمل ہوئی۔ آپؐ کی آمد پر بعض صحابہ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی نیت کرلی۔ بعض نے ابوبکرصدیقؓ کی اقتدا کی ہی نیت کی۔ یہ ابن کثیر کی روایت ہے ‘جو انہوں نے امام شافعی کے شیخ حضرت وکیعؓ کے حوالے سے بیان کی ہے۔ ان باتوں سے یہ اشارہ تو ضرور ملتا ہے کہ آپ نے اپنے بعد اس امت کی امامت وقیادت کے لیے اشارتاً اگر کچھ ہدایات دیں تو وہ خالصتاً حضرت ابوبکرصدیقؓ کے حق میں تھیں۔ (طبقات ابن سعد‘ ج۲‘ ص۲۱۵-۲۲۴)
ایک حدیث میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ آنحضوؐر نے فرمایا: مسجد نبوی کے اندر کھلنے والی سب کھڑکیاں اور دروازے بند کردئیے جائیں‘ سوائے ابوبکرؓ کے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اہل دنیا میں سے میں اگر کسی کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابوبکرؓ کو بناتا‘ مگر میں نے رفیق اعلیٰ کو منتخب کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آنحضوؐر نے ارشاد فرمایا کہ دنیا کے جس کسی انسان نے میرے ساتھ کوئی نیکی کی میں نے اس کا بدلہ اتاردیا‘ سوائے ابوبکرؓ کے ۔ اس کی نیکیاں اور احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی اتارے گا۔ (صحیح بخاری مناقب ابوبکرؓ‘ تفصیلات کے لیے دیکھیے: البدایۃ والنہایۃ‘ صفحہ۱۰۵۵تا۱۰۵۷اور طبقات ابن سعد‘ج۲ ص۲۲۷-۲۲۸)۔ 
مورخ ابن ہشام نے آنحضورؐ کے آخری مرض اور اس کے دوران رونما ہونے والے تمام واقعات‘ پھر آپؐ کی وفات اور رتجہیزوتکفین‘ جنازے اور قبر کا تذکرہ ابن کثیرؒ اور ابن سعد کی طرح تفصیلاً کیا ہے۔ یہ تفصیلات سیرت ابن ہشام‘ قسم الثانی‘ صفحہ ۶۴۹تا۶۵۶ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ نبی اکرمؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں جو کچھ فرمایا اس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس کی روشنی میں اور سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے خدمت اسلام کے لیے کارہائے نمایاں کی وجہ سے‘ جن سے تمام صحابہؓ واقف تھے‘ قرین انصاف اور قرینِ قیاس یہی تھا کہ ابوبکرؓ کے علاوہ امت کسی پر اتفاق نہ کرے گی۔ نبی اکرمؐ کئی مرتبہ کسی مسئلے کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اس معاملے میں میں راضی ہوں‘ ابوبکر راضی ہے اور مومنین راضی ہیں۔ ساتھ ہی آپؐ نے یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ قُرَیْشٌ وُلَاۃُ ہٰذَا الْاَمرِ‘ فَبَرُّ النَّاسِ تَبَعٌ لِبَرِّہِمْ وَفَاجِرُہُمْ تَبَعٌ لِفَاجِرِہِمْ۔ یعنی قیادت کے مقام پر قریش ہی سرفراز ہوں گے‘ جو نیک لوگ ہیں وہ قریش کے نیک لوگوں کی اتباع کریں گے اور جو فاجر ہیں ‘وہ قریش کے فجار کی پیروی کریں گے۔ (صحیح بخاری‘ البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۱۰۵۴)
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کبھی خود کو خلافت کا امیدوار نہ سمجھا‘ نہ ہی آپ کی زبان اور اعمال سے کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہے‘ جس سے اس خواہش کا اظہار ہوتا ہو۔ ظاہر ہے نبی اکرمؐ کا اس دنیا سے اٹھ جانا اپنی جگہ بہت بڑا اندوہناک واقعہ تھا اور تمام صحابہ اس سے غم زدہ تھے‘ لیکن نظام اسلام تو آنحضورؐکے بعد بھی باقی رہنا تھا اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا اور قائم رکھنا تمام امت کی ذمہ داری تھی۔اس بناء پر صحابہ کرامؓ نے غم کی ان گھڑیوں میں آنحضوؐر کی حقیقی میراث‘ یعنی دین اسلام کا شیرازہ مجتمع رکھنے کے لیے نہایت ذمہ داری‘ بالغ نظری اور دور اندیشی کا مظاہرہ فرمایا۔ نبی اکرمؐ نے واضح طور پر امت کو بتا دیا تھا کہ آپؐ آخری نبی ہیں‘ آپؐ کے بعد کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں؛ البتہ خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی اور وہ بالکل اسی طرح واجب الاتباع ہوگی‘ جس طرح آنحضوؐرکی سنت۔ آپؐ کا ارشاد بالکل واضح ہے۔ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَبِسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ‘ فَتَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔ (سنن ابوداؤد‘ ج۲‘ ح۴۶۰۷‘ سنن ابن ماجہ‘ ج۱‘ح۴۲)
انہی وجوہات سے تمام کبار صحابہؓ اس اہم مسئلے پر سوچ بچار کررہے تھے۔ اگر یہ معاملہ فوراً طے نہ ہوتا تو امت کا شیرازہ بکھر جاتا۔ مدینہ منورہ میں بڑے اکٹھ سقیفہ بنو ساعدہ میں ہوا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ وہیں پر جمع ہوگئے۔ انصاری صحابی حضرت سعد بن عبادہؓ کا خیال تھا کہ خلافت انصار کا حق ہے اور انصار میں سے سب سے زیادہ محترم شخصیت وہی ہیں‘ اس لیے بیعت انھی کی ہونی چاہیے۔ اس کی تفصیلات صحیح احادیث اور مستند تاریخ میں مذکور ہیں۔ ہم ان تفصیلات میں نہیں جارہے؛ البتہ انصار نے حضرت عمرؓ کے موثر خطاب کے بعد پوری یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ اجتماعیت کا ساتھ دیا۔ 
حضرت ابوبکرصدیقؓ جب سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے تو انصار ومہاجرین صحابہؓ جمع تھے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے وہاں پہنچنے کے بعد انصار کے ایک خطیب نے کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور کہا: ہم اللہ کے انصار اور اسلام کی فوج ہیں اور اے گروہ مہاجرین! تم ہمارے نبی کا قبیلہ ہو‘ تم میں سے ایک جلد باز نے کہا کہ تم ہمیں اپنی جڑ سے الگ کرنا چاہتے ہو اور ہمیں حکومت سے بچانا چاہتے ہو۔ جب وہ صحابی خاموش ہوئے تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا: خدا کی قسم! میرے بھائی نے جو باتیں کی ہیں‘ وہ اپنی جگہ بہت اچھی ہیں اور انصار میں بہت زیادہ خوبیاں ہیں‘ لیکن عرب قبائل قریش کے سوا کسی اور کی قیادت کو قبول نہیں کریں گے۔ جہاں ابوبکرؓ موجود ہوں اور ابوعبیدہ بن جراحؓ بھی‘ وہاں کوئی دوسرا کیسے امیر بن سکتا ہے؟ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر جو باتیں کہی تھیں‘ وہ میری عجلت اور ناسمجھی تھی۔ اس موقع پر ابوبکرؓ نے جو کچھ فرمایا وہی درست تھا اور میرے دل نے گواہی دی کہ اللہ نے ابوبکرؓ کا سینہ کھول دیا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آپ کھڑے ہوں اور ہم آپ کی بیعت کریں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر سب لوگوں نے بیعت کرلی۔ 
بیعت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں سے جو پہلا خطاب کیا‘ وہ بہت اہم ہے۔انہوں حمد وثنا کے بعد فرمایا:اے لوگو! مجھے تمہارا والی بنایا گیا ہے؛حالانکہ میں تمہارا بہترین آدمی نہیں ہوں‘ پس اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر میں غلطی کروں تو مجھے سیدھا کردینا۔ صدق‘ امانت اور جھوٹ‘ خیانت ہے اور تمہارا کمزور آدمی میرے نزدیک طاقت ور ہے ‘یہاں تک کہ میں اس کی علت کو دور کردوں۔ ان شاء اللہ۔ تمہارا طاقت ور کمزور تصور ہوگا‘ یہاں تک کہ میں اس سے حق کو وصول کرلوں۔ ان شاء اللہ۔ جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو ذلت کی موت مار دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر مصیبت کو عام کردیتا ہے‘ جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں‘ میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت کرنا لازم نہیں۔ اپنی نمازوں کے لیے کمربستہ رہو‘ اللہ تم پر رحم کرے۔(صحیح بخاری‘ باب مناقب ابوبکرؓ)
ابن کثیر اور دیگر مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا یہ فرمانا کہ میں تم میں بہتر نہیں ان کا انکسار بھی ہے اور عظمت بھی‘ ورنہ صحابہ کرامؓ میں کبھی اس بارے میں اختلاف نہیں رہا کہ وہ تمام اہلِ ایمان میں سب سے بلند درجہ اور عالی مرتبہ ہیں۔ خود آنحضوؐر نے ارشاد فرمایا تھا کہ ابوبکر واحد فرد ہیں‘ جن کے احسانات کا وہ بدلہ نہیں اتار سکے۔ امت اس پر بھی متفق ہے کہ آپ اَفْضَلُ الْبَشَرِ بَعْدَالْاَنْبِیَائِ ہیں۔ ہم نے اختصار کے ساتھ اس موضوع پر لکھ دیا ہے‘ تفصیلات کے لیے البدایۃ والنہایۃ‘ ابن کثیر‘ ج۱‘ ص۱۳۰۵‘ سیرت ابن ہشام‘ قسم الثانی‘ ص۶۵۶-۶۶۱ دیکھی جاسکتی ہیں۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں