حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند‘ قریش کے زیرک اور دانش مند سردار عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی تھی۔ عتبہ میں کئی خوبیاں تھیں اور آنحضورؐ ان کا تذکرہ بھی فرماتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر بھی آپ نے فرمایا کہ سرخ عمامہ والا (عتبہ) اُن صفوں میں سے ایک اچھا انسان ہے۔ اس کے باوجودعتبہ جاہلیت کا جھنڈا اٹھائے بدر میں جہنم واصل ہوگیا۔ اللہ اپنی حکمتیں خود ہی جانتا ہے۔ ہند‘ اپنے باپ‘ بھائی اور چچا کے قتل کی وجہ سے اسلام کی بدترین دشمن بن گئی تھی۔ اس نے اسلام کی مخالفت میں جو جرائم کیے‘ وہ سیرت کی تمام کتب میں بیان ہوچکے ہیں۔ غزوۂ احد میں حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد اس نے ان کے جسدِ اطہر کے ساتھ جو کچھ کیا‘ وہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ فتح مکہ کے دوران شروع میں تو اس کی جاہلی اور خاندانی عصبیت نے اسے اسلام سے روکے رکھا‘ مگر حق واضح ہوجانے کے بعد اس زیرک خاتون نے تمام تحفظات و تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر سچے دل سے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
فتح مکہ کے موقع پر ہند بنت عتبہ ان لوگوں میں شامل تھی ‘جو واجب القتل قرار پائے تھے۔ بعد میں اگرچہ انہیں معاف کر دیا گیا‘ مگرایک خدشہ ہند کے ذہن میں موجود تھا کہ معلوم نہیںاس کے جرائم کی وجہ سے اسے معاف کیا جائے گا یا نہیں؟ چنانچہ اس نے آنحضورؐ کی خدمت میں اکیلے حاضر ہونے کی بجائے قریش کی خواتین کے وفد میں شامل ہو کر حاضری دی۔ اس وفد میں تمام معزز گھرانوں کی خواتین شامل تھیں۔ ہند نے اپنے آپ کو بھیس بدل کر چھپا لیا تھا۔ اس حاضری کے بعد جب آپؐ نے تمام خواتین کے قبول اسلام پر خوشی کا اظہار کیا اور ان سے بیعت لینے کا فیصلہ فرمایا تو ہند نے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔
اس وقت تک ڈھکے ہوئے چہرے کے ساتھ وہی خواتین قریش کی طرف سے ان کی نمائندہ کی حیثیت سے آنحضورؐ سے سوال جواب کر رہی تھی۔ اس کے نقاب اٹھاتے ہی آنحضورؐ نے اسے پہچان لیا۔ آپؐ نے اسے پہچان کر پوچھا ''تو ہند بنت عتبہ ہے؟‘‘ تو اس نے اثبات میں جواب دیا‘ پھر اس نے عرض کیا جو ماضی میں ہوچکا ‘اسے معاف فرما دیجیے۔ اللہ آپؐ سے عفو و درگزر فرمائے گا۔ آپؐ نے اس کی یہ بات قبول فرمائی اور وہ کہتی ہیں کہ آپؐ اس قدر نیک‘ حلیم الطبع‘ رحیم و کریم اور عظیم المرتبت تھے کہ آپؐ نے ملامت اور مذمت کا ایک کلمہ بھی اپنی زبان سے نہیں ادا کیا۔ (تفسیر ابن کثیر‘ سورۃ الممتحنہ : ۱۲‘ ص ۵۱۷ (اردو)‘ البدایہ والنہایہ ص ۸۶۶‘المجلد الاول)
اس کے بعد آنحضورؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق‘ ان عورتوں سے بیعت لی۔ آپؐ نے بیعت لینے سے قبل فرمایا کہ میں کسی غیر محرم عورت سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ عورتوں کی بیعت مردوں سے مختلف ہے۔ آپؐ نے ایک چادر عورتوں کی طرف بڑھائی ‘جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا عورتوں کے ہاتھوں میں تھا‘ پھر آپ نے ان سے وہ بیعت لی‘ جس کا تذکرہ سورۃ الممتحنہ آیت نمبر۱۲ میں ملتا ہے۔ (تاریخ طبری ج۳‘ ص ۶۲-۶۳)۔
اس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمایا ہے:اے نبیؐ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی‘ چوری نہ کریں گی ‘ زنا نہ کریں گی‘ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی‘ اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی‘ اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی‘ تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو‘ یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (آیت نمبر۱۲)
خواتین کی بیعت کے متعلق سید مودودیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: جب مکہ فتح ہوا تو قریش کے لوگ جوق در جوق حضورؐ سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہونے لگے۔ آپ نے مردوں سے کوہِ صفا پر خود بیعت لی اور حضرت عمرؓ کو اپنی طرف سے مامور فرمایا کہ وہ عورتوں سے بیعت لیں اور ان باتوں کا اقرار کرائیں‘ جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں (ابن جریر بروایت ابن عباسؓ۔ ابن ابی حاتم بروایتِ قتادہ)‘ پھر مدینہ واپس تشریف لے جاکر آپ نے ایک مکان میں انصار کی خواتین کو جمع کرنے کاحکم دیا اور حضرت عمرؓ کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجا (ابن جریر‘ ابن مَرْدُوْیَہ‘ بَزّار‘ ابن حِبّانِ بروایت ام عطیّہ انصاریہؓ)۔
عید کے روز بھی مردوں کے درمیان خطبہ دینے کے بعد آپؐ عورتوں کے مجمع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطبہ کے دوران میں آپ نے یہ آیت تلاوت کرکے ان باتوں کا عہد لیا جو اس آیت میں مذکور ہوئی ہیں (بخاری‘ بروایت ابن عباسؓ) ان مواقع کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں عورتیں فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرتی رہیں ‘جن کا ذکر متعدد احادیث میں آیا ہے۔
مکہ معظمہ میں جب عورتوں سے بیعت لی جارہی تھی‘ اس وقت حضرت ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے اس حکم [وَلَا یَسْرِقْنَ ‘یعنی وہ چوری نہیں کریں گی] کی تشریح دریافت کرتے ہوئے حضورؐ سے عرض کیا؛ یا رسول اللہ‘ ابوسفیان ذرا بخیل آدمی ہیں‘ کیا میرے اوپر اس میں کوئی گناہ ہے کہ میں اپنی اور اپنے بچیوں کی ضروریات کے لیے ان سے پوچھے بغیر ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں‘ مگر بس معروف کی حد تک‘ یعنی بس اتنا مال لے لو جو فی الواقع جائز ضروریات کے لیے کافی ہو‘‘ (احکام القرآن‘ ابن عربی)۔ (بحوالہ تفہیم القرآن ج۵‘ ص ۴۴۵)
تاریخ میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے جب یہ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو تو ہند نے کہا ''مردوں سے تو آپ نے یہ عہد نہیں لیا۔‘‘اس کے ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا کہ اس کے باوجود ہمیں یہ حکم قبول ہے۔ جب آپؐ نے فرمایا‘ چوری نہ کرو تو ہند نے جواب میں کہا '' اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں خرچ کرڈالنا بھی کیا چوری ہے ؟‘‘ پھر آپ ؐکا یہ ارشاد سن کر کہ اولاد کو قتل نہ کرو ‘ ہند نے قدرے اور بھی سخت بات کہہ ڈالی۔ہند بولی ''ہم نے تو اپنے بچوں کو قتل کرنے کی بجائے پال پوس کر جوان کیا تھا۔ جب جوان ہو ئے تو آپ نے قتل کر دیا‘‘۔ اس کا اشارہ ان غزوات کی طرف تھا‘ جن میں کفار قتل ہوئے تھے۔ آنحضورؐنے یہ سب کچھ نہایت تحمل و برد باری سے سنا اور ہند جگر خوار کو معاف فرما دیا۔
حسنِ خلق اور اعلیٰ کردار کا اتنا عظیم الشان نمونہ کبھی رائیگاں اور بے ثمر نہیں رہتا۔ ہند کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ محبت و نرم خوئی فاتح عالم ہے‘ اسی روز ہند ایسی مخلص مسلمان بنی کہ بعد کے ادوار میں ساری زندگی میدان جہاد میں گزار دی۔ آنحضورؐسے ایک مرتبہ عرض کیا ''یارسول اللہؐ میری زندگی کا ایک دور وہ تھاکہ آپؐ کی ذات سے زیادہ مجھے کسی سے دشمنی اور بغض نہیں تھا‘ اسلام قبول کرنے کے بعد اب ‘یہ عالم ہے کہ آپؐ سے زیادہ کوئی نہ محبوب ہے‘ نہ محترم! ۔‘‘
آنحضورؐکے کاتب وحی اور خلفائے راشدین کے مقرر کردہ گورنر شام حضر ت امیر معاویہؓ‘ حضرت ہندؓاور حضرت ابو سفیانؓکے لخت جگر تھے۔ بنو امیہ کی بادشاہت کی بنیاد انھوں نے ہی رکھی تھی۔ جس طرح ملکہ زبیدہ عباسیہ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کے سر کی زلفیں کسی نہ کسی خلیفہ کے شانوں پر گرتی ہیں‘ اسی طرح ہم ہند کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک سردار کی بیٹی‘ ایک سپہ سالار کی بیوی اور ایک تاجدار کی والدہ تھیں۔
قبول ِاسلام کے بعد ہند نے اپنے گھر میں رکھے ہوئے بت کو پاش پاش کر دیا۔ وہ بت کو توڑتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ کہے جارہی تھیں تیرا ستیاناس ہو‘ ہم تیری وجہ سے اتنا عرصہ دھوکے میں پڑے رہے۔ قبول اسلام سے قبل اس نے اپنے خاوند حضرت ابوسفیان سے کہا کہ میں محمدؐ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج سے پہلے تو تو نے ہمیشہ ان کا انکار کیا اور مجھے بھی ملامت کرتی رہی‘‘۔ اس نے کہا: خدا کی قسم! اللہ کے گھر رات کو جس انداز میں ان لوگوں کو میں نے عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے‘ ایسی مثال حرم کی تاریخ میں نہ ہم نے دیکھی‘ نہ کبھی ہم سے پہلے رونما ہوئی۔ نبی رحمتؐ اور ان کے قدسی صفت صحابہؓ کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت واضح ہوچکی تھی۔ اب‘ انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی۔ ابو سفیان نے کہا: ٹھیک ہے اپنے ارادے پر عمل کرنے کے لیے آنحضورؐ کے پاس چلی جائو۔ وہ بڑے ظرف اور حوصلے کے مالک ہیں‘ سب کچھ معاف فرمادیتے ہیں۔ (الاصابہ فی تمیزالصحابہ ج ۴‘ ص ۴۱)
اسلام دشمنی کے باوجود عربوں میں بعض خوبیاں ہمیشہ موجود رہیں۔ ان میں سے ایک صلہ رحمی ‘ مروت اور فیاضی کی صفت بھی تھی۔ جب آنحضورؐکی ہجرت مدینہ کے بعد آپؐ کی بڑی بیٹی سیدہ زینبؓبنت ِ محمدؐمکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا ارادہ فرما رہی تھیں تو ہند نے ان کے پاس جا کر یہ پیش کش کی کہ اگر انہیں زاد سفر کی ضرورت ہو تو بلا تکلف بتا دیں میں بخوشی یہ امداد تمہیں فراہم کر دوں گی؛ اگرچہ سیدہ زینبؓ نے ہند سے کوئی زادِ سفر وصول نہیں کیا‘ مگراس کا شکریہ ادا کیا۔ ہند کی اسلام دشمنی کے باوجود کی یہ پیشکش بہر حال اپنی جگہ یاد گار اور قابلِ تعریف واقعہ ہے۔