محمد عربیﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں بسر ہوا۔ روزِ اول سے تادمِ آخریں اللہ کے معجزات آپﷺ کی سیرت کا حصہ ہیں۔ پچپن میں آپﷺ دو برس تک قبیلہ بنی سعد میں حلیمہ سعدیہؓ کی آغوش میں رہے، جب دودھ چھڑایا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپﷺ چار برس کے ہیں۔ حضرت حلیمہؓ آپﷺ کو آپ کی والدہ کو واپس کرنے کی خاطر لے کر آئیں تو آپﷺ کے حالات اور خیر و برکت جو دیکھی تھی اس کی ساری کیفیت سنائی۔ اس پر حضرت آمنہؓ نے کہا: میرے بچے کو واپس لے جا! میں اس کی نسبت مکہ کی وبا سے ڈرتی ہوں، خدا کی قسم اس کی ایک خاص شان ہو گی؛ چنانچہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ آنحضورﷺ کو واپس لے گئیں۔ جب آپﷺ کی عمر مبارک چار برس کی ہوئی تو اپنے رضاعی بھائی، بہنوں کے ساتھ گھر سے چراگاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ یہ جگہ قبیلے کی رہائش سے زیادہ دور نہ تھی؛ تاہم یہاں جنگلی جانور بھی گھومتے پھرتے رہتے تھے، مگر آنحضورﷺ کی موجودگی میں کبھی کسی جنگلی جانور نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
آپﷺ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ جو معجزات میں شمار ہوتا ہے‘ بنوسعد کے اسی جنگل میں پیش آیا۔ اس مقام پر دو فرشتے آسمان سے اترے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقصد کے لیے بھیجے تھے۔ یہ دو فرشتے کون سے تھے، اکثر و بیشتر راویوں نے حضرت جبریل اور حضرت میکائیل علیہم السلام کے نام بیان کیے ہیں۔ آنحضورﷺ نے بھی انہی دو فرشتوں کو تمام ملائکہ میں ممتاز قرار دیا ہے: قرآن پاک میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہی دو فرشتوں کو بلند مقام عطا فرمایا ہے: ''(اگر جبریل سے ان کی عداوت ہے، تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے‘‘۔ (البقرۃ2:98) آپﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ جبریل میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا: سیدالملائکہ اسرافیل ہیں۔ بہرحال فرشتوں میں سے چار معروف ترین ہیں اور یہی جملہ جماعت ملائکہ کے سیّد ہیں۔ یہ ہیں جبریل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل (ملک الموت)۔ ہر ایک کی اللہ نے مخصوص ذمہ داری لگا رکھی ہے اور وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کر رہے ہیں۔ اللہ کے مقرب فرشتے سب کے سب انہی فرشتوں کے ماتحت ہیں۔
فرشتوں نے آکر آنحضورﷺ کو اپنے ساتھ لیا اور ایک جانب لے جا کر پیار و محبت سے زمین پر لٹا دیا۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھے۔ آنحضورﷺ نے دیکھا کہ ان کے پاس خوب صورت طشت اور چمک دار برف تھی۔ انہوں نے بغیر کسی درد اور تکلیف کے آپ کا شکم مبارک چیر کر ایک سیاہ نقطہ یا گوشت کا ٹکڑا نکال کر اس کو زمین میں دبا دیا اور باقی دل کو سونے کے ایک طشت میں رکھ کر برفاب سے دھویا اور پھر اسے سینۂ مبارک میں واپس رکھ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ''میرے جسم پر کوئی تکلیف یا نشان نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آپس میں بات چیت کی اور میری طرف جھک کر میرا سر اور ماتھا چوما اور کہنے لگے: مبارک ہو، اے (درِ) یتیم! آپؐ پر اللہ کے اتنے انعامات ہیں کہ جب آپ کو اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی تو آپ آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ فرشتے عام لوگوں کو نظر نہیں آئے۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر کئی لوگوں نے کہا کہ اس قریشی بچے کو جنّات نے آسیب زدہ کر دیا ہے۔ پھر وہ مجھے ایک کاہن کے پاس لے کر گئے تو اس نے کہا: لات و عزیٰ کی قسم! اگر تم نے اس کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا‘‘‘۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج1، ص135)
روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ شقِّ صدر کے بعد فرشتوں نے ایک میزان لگائی اور ایک جانب آنحضورﷺ کو اور دوسری جانب آپﷺ کی امت میں سے بیس نیک لوگوں کو رکھا تو آپﷺ کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر انہوں نے دوسرے پلڑے میں سو اہلِ ایمان کا وزن ڈالا، اب بھی نتیجہ وہی رہا۔ اس کے بعد ہزار اہلِ ایمان کا وزن کیا گیا اور پلڑا وہیں کا وہیں رہا۔ اس پر انہوں نے کہا: دعہ فلو وزنتموہ بامتہ کلہم لرجحہم کلہم۔ یعنی جانے دو اگر تمام امت کے ساتھ آپﷺ کا وزن کروگے تب بھی آپﷺ ہی کا پلہ بھاری ہوگا۔ (ایضاً، ص145، سیرۃ ابن ہشام، الاول، ص166تا 167، طبقات ابن سعد، ج1، ص111-112)
دو سفید لباس اجنبیوں کو دیکھ کر آنحضورﷺ کے رضاعی بہن بھائی متوجہ ہوئے اور جب وہ آپﷺ کو لے کر ایک جانب چلے اور آپﷺ کو زمین پر لٹا دیا تو فطری طور پر بچوں کو فکر لاحق ہوئی۔ چھوٹی عمر کے باوجود وہ سمجھدار تھے۔ وہ چیختے چلاتے اپنی ماں (حلیمہ سعدیہ) کے پاس پہنچے اور کہا: ادرکی اخی القرشی۔ یعنی میرے قریشی بھائی کی خبر لے۔ پھر پورا واقعہ سنا دیا۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ سخت پریشان ہوئیں۔ پھر اپنے شوہر کے ہمراہ دوڑتی ہوئی گھر سے نکلیں تو درِّیتیم (ﷺ) کو ایسی حالت میں پایا کہ آپﷺ کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ آپﷺ نے وہ کیفیت پوری طرح بیان کی جس سے آپﷺ کو سابقہ درپیش آئی، مگر آپﷺ نے فرمایا: مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور نہ ہی میرے جسم پر کوئی نشان ہے۔
خیریت تو تھی مگر خاندانِِ حارث اتنی قیمتی امانت کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کے احساس سے کانپ اٹھا۔ اس کے بعد سیدہ حلیمہؓ آپﷺ کو لے کر فوراً حضرت آمنہؓ کے پاس مکہ پہنچیں اور یہ ساری کیفیت سنا کر کہا: اِنَّا لانردہ الا علی جدع آنفنٰا۔ یعنی ہم اس بچے کو یوں ہی واپس نہیں کر رہے، اسے واپس کرنا تو اپنی ناک کٹوانے کے مترادف ہے، مگر ہمیں ڈر ہے (مبادا اس گوہر نایاب کو کوئی گزند پہنچے)۔
مکہ سے واپس لوٹتے وقت حلیمہؓ آنحضورﷺ کو والدہ اور دادا کی اجازت سے پھر ساتھ لے گئیں۔ ایک سال یا اس کے قریب آنحضورﷺ حلیمہ سعدیہؓ کے پاس ہی رہے۔ اس دوران وہ آپﷺ کو کہیں دور نہ جانے دیتی تھیں۔ کچھ دن گزرے تھے کہ حلیمہ نے دیکھا کہ ایک ابر آپﷺ پر سایہ فگن ہے۔ جب آپﷺ ٹھہر جاتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا۔ جب آپ کسی جانب چلتے تو وہ بھی اسی جانب چل پڑتا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتیں عام لوگوں کو خوف زدہ کر دیتی ہیں۔ حلیمہ سعدیہؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ بھی کسی ناگہانی آفت کی نشانی نہ ہو۔ اس لیے وہ نوعمر محمد (ﷺ) بن عبداللہ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں۔
حضرت حلیمہؓ آپﷺ کو آپ کی والدہ کے سپرد کرنا چاہتی تھیں۔ اپنے قبیلے سے چلیں اور مکہ پہنچیں تو یہاں آکر ایک اور عجیب وغریب مشکل نے آن لیا۔ مکہ کے قریب ایک مجمع میں محمد (ﷺ) بن عبداللہ کہیں گم ہو گئے۔ ادھر ادھر تلاش کے باوجود نہ مل پائے تو نہایت گھبراہٹ کے عالم میں عبدالمطلب کے پاس حاضر ہوئیں اور اس حادثۂ فاجعہ کی اطلاع دی۔ عبدالمطلب بھی یہ سن کر بہت پریشان ہوئے۔ ہر جانب تلاش کیا گیا لیکن گوہر نایاب کا پتا نہ چل پایا۔ آخر عبدالمطلب کعبے کی طرف گئے اور غلافِ کعبہ سے لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگی:
اللّٰہم رَدِّ الی راکبی محمدا
رَدِّہُ اِلیَّ واصطنع عندی یدا
انت الذی جعلتہ لی عَضُدَا
لا یُبْعِدِ الدَّھرُ بہ فَیَبعَدا
انت الذی سَمَّیْتَہٗ محمدا
یا اللہ میرا شاہسوار بیٹا محمد (ﷺ) مجھے واپس دے دے۔ اے اللہ! مجھے میرا بیٹا دے دے، وہ جہاں بھی ہے اسے میرے پاس بھیج دے اور مجھ پر اپنا فضل وکرم عام کر دے۔ اے مولائے کریم! اس بچے کو تو نے میرا دست وبازو بنایا ہے، اے اللہ! ایسا نہ ہو کہ گردشِ زمانہ اسے مجھ سے دور کردے اور پھر دوریاں بڑھتی جائیں۔رب کریم! تو نے ہی اس کا نام محمد رکھا تھا اور اس کے نام میں تعریف وستائش تیری ہی عطا ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج1، ص112)
یہاں ابن سعد نے ایک شخص کندیر بن سعید کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے سنا کہ وہ بیان کیا کرتے تھے: میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ ایک شخص خانہ کعبہ کے قریب دردناک انداز میں یہ اشعار پڑھ کر اللہ سے اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ سردارِ قریش عبدالمطلب بن ہاشم ہیں جو اپنے پوتے محمد (ﷺ) کو تلاش کر رہے ہیں جو اچانک گم ہو گیا ہے۔ سعید کہتے ہیں کہ ان کے والد کے مطابق کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ وہ بچہ آ گیا اور عبدالمطلب نے نہایت والہانہ انداز میں آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیا، اپنے گلے سے لگا کر کہا: اب میں تجھے کبھی اپنے سے جدا نہ ہونے دوں گا۔ مزید اس واقعہ کو ابن ہشام نے یوں بیان کیا ہے کہ مکہ کے بالائی حصے میں آنحضورﷺ کو ورقہ بن نوفل اور ایک دوسرے قریشی شخص نے اچانک پا لیا اور وہ آپﷺ کو لے کر آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس آئے، جبکہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور آپ کی واپسی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ جوں ہی آپﷺ ان کے پاس پہنچے، انہوں نے گلے لگا لیا اور پھر جلدی سے اپنے ساتھ لے کر آپﷺ کی والدہ کے پاس آئے تاکہ ان کو اطمینان دلا سکیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص166تا 167)