صحابۂ رسول روشنی کے مینار اور منبع رشد و ہدایت ہیں۔ اُس پاکیزہ معاشرے کا ایک مثالی جوڑا انصار میں سے تھا۔ حضرت اُمِّ سُلَیمؓ اور ان کے خاوند ابوطلحہؓ، دونوں کی زندگیوں میں بڑے ایمان افروز واقعات دل کو متاثر کرتے ہیں۔ حضرت اُمِّ سُلَیمؓ ہی کا یہ واقعہ ہے کہ ان کا ایک کم سن بچہ بچپن میں فوت ہوا، جبکہ ان کے خاوند ابو طلحہؓ سفر پر تھے۔ حضرت ابو طلحہؓ کی واپسی اسی شام متوقع تھی جس شام کو بچہ فوت ہوا۔ اُمِّ سُلَیمؓ نے اپنے بچے کو غسل دیا، کفن پہنایا اور اس پر چادر ڈال دی جیسے سویا ہوا ہو۔ ابوطلحہؓ گھر آئے تو بچے کا حال احوال پوچھا کیونکہ وہ ان کے جانے کے وقت بیمار تھا۔ اُمِّ سُلَیمؓ نے جواب دیا: بچہ آرام و سکون میں ہے۔ انہوں نے ابوطلحہؓ کو کھانا کھلایا اور اس دوران ان سے یہ ایمان افروز مکالمہ کیا ''اگر آپ کے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی ہو اور وہ اپنی امانت واپس مانگے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟‘‘ حضرت ابوطلحہؓنے فرمایا ''جس کی امانت ہو اسے واپس کر دینی چاہیے‘‘۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خاوند کے سامنے یہ حقیقت کھولی کہ ان کابچہ اللہ کی عطا تھا، اللہ ہی نے واپس لے لیاہے۔ بیوی کا صبر تو مثالی تھا ہی خاوند نے بھی اللہ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر لیا۔ اس واقعے میں بڑی حکمتیں پنہاں ہیں یعنی ہر حال میں راضی برضا۔
دونوں میاں بیویجماعتِ صحابہؓ میں بہت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ حرب ہو یا امن، خوش حالی ہو یا تنگ دستی، ہر حال میں انہوں نے قابل رشک کارنامے اور اعمال صالحہ اپنے حساب میں جمع کیے۔ ان کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ آنحضورﷺ کے بڑے جاں نثار اور فدا کار صحابی تھے۔ حضرت ابو طلحہؓ اور اُمِّ سُلَیمؓکے گھر کوکئی اعزاز ات حاصل ہیں۔ یہ بھی انہی کا اعزاز ہے کہ ان کے گھر میں مہاجرین و انصار کے درمیان آنحضورﷺ نے مواخاۃ یعنی بھائی چارہ قائم کروایا تھا۔ تاریخ اسلام اور پوری انسانیت کی تاریخ میں یہ بھائی چارہ ایک منفرد اور بے مثال اظہارِ یکجہتی ہے۔ یہ محض زبانی کلامی اخوت نہ تھی بلکہ یہ حقیقی محبت، ایثار اور اخلاص و اپنائیت کا مظہر تھی۔ ابو طلحہؓ اوراُمِّ سُلَیمؓ،دونوں ہمیشہ آنحضورﷺ کے ہم رکاب اور میدانِ قتال میں باطل سے بر سر پیکار رہے۔ احد اور حنین کے مشکل مرحلوں میں دونوں میاں بیوی کا کردار یادگار ہے۔
حضر ت اُمِّ سُلَیم رضی اللہ عنہا پر آنحضورﷺ کو بہت اعتماد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کئی گھریلو اور عائلی معاملات میں ان کو ذمہ داریاں سونپا کرتے تھے۔ فتح بنوقریظہ کے بعد یہودی سردارحُیّی بن اخطب کی بیٹی صفیہ بھی جنگی قیدیوں میں تھی۔ حضرت صفیہؓبنت حُیَیّ کو آنحضورﷺ نے غلامی سے آزادی عطا فرمائی اور اس آزادی کو حق مہر قرار دے کر اپنی زوجیت میں لے لیا۔ ام المومنین حضرت صفیہؓ دلہن کی حیثیت سے اُمِّ سُلَیمؓہی کے گھر میں شبِ عروسی کو آئیں۔ آنحضورﷺ نے یہ رات اسی گھر میں بسر کی۔ آپﷺ کئی مرتبہ اس گھر میں استراحت فرمایا کرتے تھے۔
آنحضورﷺ کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے، عموماً فقر و فاقہ کی وجہ سے مہمانوں کی ضیافت میں مشکلات پیش آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایسی ہی صورتحال تھی جب آنحضورﷺ کے پاس کچھ مہمان آ گئے۔ حضرت ابو طلحہؓ آنحضورﷺ کی مشکل کو بھانپ گئے اور آپﷺ کے مہمانوں کو اپنے گھر لے گئے۔ گھر میں دن کا بچا ہوا کھاناموجود تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اُمِّ سُلَیمؓ بڑے حوصلے والی دانش مند خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے میاں سے کہا: فکر کی کوئی بات نہیں، بچوں کو بن کھلائے‘ بہلا پھسلا کر سلا دیتے ہیں، مہمانوں کے سامنے کھانا چن دیں گے۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھ جائیے گا۔ میں چراغ درست کرنے کے بہانے اسے گل کر دوں گی۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت بھی کرتے رہیے اور ویسے ہی منہ ہلاتے رہیے تاکہ مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ عظیم میاں بیوی نے اپنے اس منصوبے پر عمل کیا۔ یوں رات تو تنگی میں بیت گئی مگر اس گھر کو ایسا مرتبہ بخش گئی جس کی مثال تاریخ میں کم ہی مل سکتی ہے۔ اس رات کھانے کے بعد مہمان مسجد نبوی میں چلے گئے۔ ان کے میزبان، دونوں میاں بیوی بچوں سمیت خالی پیٹ سو گئے۔ اس کے اگلے روز فجر کی نماز کے بعد آنحضورﷺ نے خوش ہو کر فرمایا: فلاں میاں بیوی کا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا ہے، اللہ ان سے خوش ہو گیاہے اور اللہ نے ان کی شان میں سورۃ الحشر کی آیت نازل فرمائی ہے۔
اس واقعہ کو مختلف مفسرین نے سورۃالحشر کی آیت نمبر۹ کی تفسیر کے تحت لکھاہے۔ آیت کا ترجمہ یوں ہے: ''(اور وہ [فے کا مال] اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج (اور تنگی میں) ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ہم نے اس واقعہ کا خلاصہ تفسیر ابن کثیر سے نقل کیا ہے۔ امام ابن کثیر ؒنے صحیح بخاری میں روایت کردہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ اس روایت کے مطابق آنحضورﷺنے اس شام صحابہ سے فرمایا کہ ان کے مہمان کو کون کھانا کھلائے گا، اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا،تو ایک انصاری اٹھا اور مہمان کو اپنے گھر لے گیا۔ یہ روایت صحیح مسلم، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں بھی مروی ہے۔ امام مسلم ؒنے ایک انصاری کی جگہ واضح طور پر حضرت ابو طلحہؓ انصاری کا نام لکھا ہے۔
حضرات اُمِّ سُلَیمؓاور ابو طلحہؓ کا گھر آنحضورﷺ کے لیے بہت مانوس تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ دونوں میاں بیوی بھی تھے لیکن دوسرا سبب آپﷺ کے خادم اور اس گھر کے چشم و چراغ حضرت انسؓ تھے۔آنحضورﷺ جب بھی ان کے گھر میں تشریف لاتے تو گھر والے بہت خوش ہوتے۔ کئی مرتبہ آنحضورﷺکے ساتھ صحابہ کرامؓ بھی اس گھرمیں آیا کرتے تھے۔ ایسے ہر موقع پر میاں بیوی بہت خوش ہوتے اور تمام مہمانوں کی دعوت و ضیافت کیا کرتے تھے۔ آنحضورﷺ کے معجزات میں اس ضمن میں کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ جب اس گھر میں آنحضورﷺ صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف لائے تو گھر والوں نے ماحضر پیش کر دیا۔ تھوڑا کھانا بہت لوگوں کو کافی ہو گیا اورسب نے پیٹ بھر کر کھایا۔ یہ آنحضورﷺ کا معجزہ ہوا کرتا تھا جس کی کئی مثالیں احادیث میں محفوظ ہیں۔
انصار کا پیشہ کاشتکاری، باغبانی اور مویشی پالنا تھا۔ حضرت اُمِّ سُلَیمؓؓ اچھی نسل کی بکریاں پالتی تھیں، پھر ان کے دودھ سے مکھن اور گھی تیار کرتیں جس سے کئی مرتبہ آنحضورﷺ کی ضیافت کی گئی۔ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضورﷺ کوگھی کاایک برتن تحفہ میں بھیجا۔ یہ چمڑے کا ایک کُپا تھا۔ یہ کپا آنحضورﷺ کے گھر سے خالی کرواکر جب اُمِّ سُلَیمؓؓکی خادمہ گھر لائیں اور ایک کھونٹے سے لٹکا دیا تو اُمِّ سُلَیمؓکو تعجب ہوا کہ لڑکی نے حکم کی تعمیل نہیں کی کیونکہ وہ کُپا گھی سے بھرا ہوا تھا۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ معجزانہ طور پر اللہ نے پھر سے اس برتن کو گھی سے بھر دیا ہے۔ حضرت انسؓکی روایت کردہ ایک حدیث میں اس معجزے کا تذکرہ ملتاہے جو صحیح مسلم میں ہے۔ تفصیلات البدایۃ و النھایۃ میں بھی ہیں جن کے مطابق اُمِّ سُلَیمؓنے اس بابرکت گھی میں سے کئی عزیز و اقارب اور دوست احباب کو ہدیہ بھی دیا اور پھر خود بھی دو ماہ تک اسے استعمال کرتی رہیں۔
حضرت اُمِّ سُلَیمؓؓکے تینبیٹے نہ صرف درجۂ صحابیت پر فائز ہوئے بلکہ بار ہا آنحضورﷺ نے ان کے نام لے کر ان کے حق میں خصوصی دعائیں کیں۔ ایک تو حضر ت انسؓ تھے اور دوسرے حضرت عبداللہؓبن طلحہ۔ ان دونوں کو اللہ نے لمبی عمر بھی عطا فرمائی اور مالِ کثیر کے ساتھ تابع فرمان اور قابل اولاد سے بھی نوازا۔آپ کے تیسرے بیٹے ابوعمیربھی صحابی تھے مگر وہ بالکل چھوٹی عمر میں وفات پا گئے تھے۔
حضرت اُمِّ سُلَیمؓ کے بارے میں آنحضورﷺ کا یہ ارشاد بھی روایات میں ملتاہے ''میں جنت میں گیا تو وہاں مجھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ غمیصاء بنت ملحان (اُمِّ سُلَیْم) ہیں‘‘۔ کیا بلند مقام ہے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنی دنیا کو آخرت کے لیے تج دیا تھا۔ یہ اللہ والے بڑے بلند بخت تھے۔ اے کاش! آج ہم بھی اپنے ایمان کی قدر و قیمت سے آشنا ہو جائیں اور اللہ سے کیے ہوئے اپنے عہد کی پابندی کر کے کوئی مقام حاصل کر سکیں۔ اللہ کے ہاں آج بھی وہی سنت ہے جو اس دور میں تھی، کمی اور کوتاہی ہے تو ہماری طرف سے ہے۔ اس دربارِ عالی سے دم بدم یہ صدا دی جاتی ہے ''ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں‘‘۔ قارئین محترم اس صدا کو سننے اور اس کا جواب دینے کی سعادت بہت بڑا انعام ہے۔ آئیے ہم اس کا عہد کر لیں۔