’’زندگانی، جیل کہانی‘‘!

انسانی معاشرے میں ہر طرح کے کردار پائے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ زندگی کی رنگ رلیوں میں کھو جاتے ہیں۔ مرتے ہیں تو ان کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے میں ایسے کام کر جاتے ہیں جن کی یادیں ان کے بعد بھی ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ وہ ایسے چراغ جلا جاتے ہیں جن کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی، ان کے دم قدم سے ایسی خوشبو پھیلتی ہے جو ان کے بعد بھی یادوں کو معطر کرتی رہتی ہے۔ ہر معاشرے کا حسن ایسی ہی شخصیات ہوتی ہیں۔ زندگی میں بہت سے عظیم لوگوں سے ذاتی تعلق رہا جن کی حسین یادوں کا البم دل میں سجا ہوا ہے۔ حضرت مولانا گلزار احمد مظاہریؒ ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے۔ ''زندگی برائے بندگی‘‘ کا محاورہ ان سے ہر ملاقات کے موقع پر پوری طرح سمجھ میں آ جاتا تھا۔
مولانا مظاہری مرحوم سے دورِ طالب علمی میں شرفِ ملاقات کے بعد ان کی زندگی کے آخری لمحات تک بہت عقیدت و احترام کا تعلق رہا۔ مرحوم کی طرف سے جو مخلصانہ محبت حاصل رہی، اس کی شیرینی آج تک دل و دماغ میں رچی بسی ہے۔ برصغیر کی معروف کاروباری اور تاجر برادری ''پراچہ‘‘ سے تعلق ہونے کے باوجود مظاہری صاحب نے متاعِ غرور سے کبھی دلچسپی نہ رکھی۔ وہ اس تجارت کے میدان میں اترے جس میں خسارے کا قطعاً کوئی خدشہ نہیں ہے۔ خود ربِ کائنات نے اسے ''تجارۃً لن تبور‘‘ فرما دیا ہے۔ دریائے جہلم کے کنارے واقع بھیرہ کے تاریخی شہر میں 1922ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد عالمی شہرت کی حامل یونیورسٹی علی گڑھ میں داخل کرائے گئے مگر وہاں دل نہ لگا۔ سہارن پور میں مظاہرالعلوم میں داخلہ لے لیا۔ اس عظیم الشان جامعۃ علمیہ سے بہت سی اعلیٰ شخصیات نے اکتسابِ فیض کیا جن کے نام کے ساتھ مظاہری لکھا جاتا ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ مطلق مولانا مظاہریؒ کہا جائے تو کوئی شخص بھی مولانا گلزار احمد کے علاوہ کسی اور مظاہری کا نام نہیں لے گا۔
مولانا مظاہری حضرت عبدالقادرؒ رائے پوری کے مرید تھے، مولانا خلیل احمدؒ سہارن پوری اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کاندھلوی کے شاگرد اور بہت سے نامور اور جید علما کے دوست تھے۔ مولانا کے دل میں اسلام کا جو تصور تھا، اس کی جستجو زندگی کے ابتدائی دور ہی سے جاری تھی۔ اس جدوجہد میں مولانا نے کافی سرگرمی سے کئی سال لگا دیے۔ آخر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب اور فکر سے متعارف ہوئے تو دل نے گواہی دی کہ ''جا اینجا است۔‘‘ بس پھر کیا تھا، کشتیاں جلا کر اس قافلۂ سخت جاں کا حصہ بن گئے اور ہر شعبے میں اپنا سکہ جمایا اور لوہا منوایا۔
مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے برادرم حسین احمد پراچہ نے اپنے والد مرحوم کے حالات زندگی پر شاندار کتاب مرتب کی ہے۔ تمام کارہائے نمایاں، میانوالی کے ریگ زاروں، جنگلات اور کوہساروں میں دعوت اسلامی کے لیے اَن تھک کاوشوں سے لے کر جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں شمولیت تک کو مرتب کرنا ایک زبردست علمی کارنامہ ہے۔ اس روداد میں مولانا کے نادرِ روزگار کارناموں، مدرسہ جامع العلوم سرگودھا، علماء اکیڈیمی منصورہ اور جمعیت اتحاد العلما کے قیام کا تذکرہ بہت دل نشین انداز میں قاری کا دل لبھاتا ہے۔
مولانا مرحوم تحریک اسلامی کے دیگر قائدین کی طرح قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرے اور جہاں جہاں بھی ایامِ اسیری آئے، ان لمحات کو اپنی استقامت، زندہ دلی اور محبت کی چاشنی سے یادگار بنا دیا۔ جیل میں ڈائری لکھنے کاسلسلہ جاری رہا۔ اس ڈائری کا ہر ورق اتنا دلچسپ ہے کہ قاری کو اسے مکمل پڑھے بغیر چین نہیں آتا۔ ملک کی سیاسی صورت حال کا پورا ریکارڈ محض اخبارات، احباب کی ملاقاتوں اور ان کی طرف سے موصول شدہ مکتوبات کی مدد سے اس خوب صورتی کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے کہ قاری حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ فیصل آباد جیل میں عبدالصمد اچکزئی کے ساتھ ایک عرصے تک رفاقت رہی۔ دونوں رہنمائوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق تھا، مگر دونوں ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ ملتے۔ تبادلۂ خیالات میں کھل کر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے، مگرکبھی ناراضی اور رنجش پیدا نہ ہوئی۔ اکٹھے بیڈ منٹن کھیلتے اور ایک دوسرے کی دعوت بھی کرتے۔ داعیٔ حق ہر ایک سے راہ و رسم رکھتا اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔
حسین احمد پراچہ کو مسلسل کالم نگاری نے ایک منجھا ہوا قلم کار بنا دیا ہے۔ اندازِ تحریر نہایت شگفتہ، دلچسپ اور ادبی چاشنی سے مالا مال ہے۔ ان کے برادرِ خورد جناب فرید احمد پراچہ کی تحریر بھی دل ربا ہے۔ موصوف زبان و قلم کے میدان کے معروف شہسوار اور مصنف ہیں۔ اب ان کے برادرِ بزرگ حسین پراچہ بھی ایک کامیاب مصنف کی حیثیت سے اس میدان میں اترے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنا یہ سفر اور شغل جاری رکھیں گے۔ مولانا مظاہری مرحوم کی ڈائریوں میں جو یادداشتیں محفوظ ہیں، ان کو مرتب کر دیا جائے تو اس دور کی تاریخ کا دلچسپ اور معلومات افزا ریکارڈ محفوظ ہو جائے گا۔
اس کتاب کی اپنی بھی بہت اہمیت ہے، مگر اسے نامور اور عالمی شہرت کی حامل شخصیات نے اپنی بے مثال تحریروں سے مزین کر کے چار چاند لگا دیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بزرگ ترین راہ نما، مفکر اسلام سید مودودیؒ کے تربیت یافتہ اور ثقہ صاحبِ علم شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی تحریر انتہائی دل آویز اور ایمان افروز ہے۔ خورشید بھائی کو مولانا مرحوم کے ساتھ جیل میں اکٹھے رہنے کا موقع بھی ملا۔ جیل کی زندگی میں انسان کی ہر خوبی اور خامی سامنے آ جاتی ہے۔ خورشید بھائی نے مولانا کی اعلیٰ اور منفرد صفات کو نہایت دلنشین انداز میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں مولانا کی تقاریر کی بھی بہت تعریف فرمائی ہے۔ واقعتاً مولانا ان سب خوبیوں کا مرقع تھے۔
معروف استاد اور ادیب و نقادپروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کا پراچہ خاندان کے ساتھ ذاتی تعلق کئی سالوں پر محیط ہے۔ انہوں نے مولانا اور ان کے تمام بچوں کو بہت قریب سے دیکھا۔ مولانا کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق رہا۔ موصوف نے اپنی یادوں کے ایسے دریچے کھولے ہیں جن میں انتہائی دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ دنیائے صحافت کے مستند راہ نما اور قلم و قرطاس کے شہسوار برادرِ محترم مجیب الرحمن شامی کی تحریر اس قدر شیرینی سے مالا مال ہے کہ ہر فقرہ بذات خود پورے ایک مضمون کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی طرح مولانا مظاہری مرحوم کے عالم فاضل بیٹے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے مضمون میں اپنے والد کے بارے میں مختصر مگر جامع تعارف تحریر کر کے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔
مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی وفات پر میں نے مرحوم کی یاد میں ایک مضمون لکھا تھا جو اخبارات کے علاوہ ہفت روزہ ایشیا میں چھپا تھا۔ اس میں مَیں نے مولانا کے ساتھ ذاتی تعلق اور آپ کی جدوجہد کی جھلکیاں تحریر کی تھیں۔ یہ مضمون ''یادِ رفتگان‘‘ پر مشتمل میری کتاب ''مسافرانِ راہ ِوفا‘‘ میں شامل ہے۔ گیارہ صفحات پر مشتمل اس مضمون میں مَیں نے مولانا کے ساتھ اپنی طویل رفاقت اور عقیدت مندی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب جنوری 1974ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حکم پر میں کینیا کے لیے روانہ ہوا، تو جاتے ہوئے سعودی عرب میں چند دن گزارے۔ مولانا مرحوم بھی اس وقت جدہ میں تھے۔ ایئرپورٹ پر برادرِ گرامی قدر رائو محمد اختر اور دیگر احباب کے ساتھ حضرت مولانا بھی موجود تھے۔ پھر مولانا کے ساتھ عمرہ کرنے اور مسجد نبوی میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ مدینہ منورہ میں مولانا کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں۔ کئی آیات و احادیث اور بہت سے اشعار بے ساختہ آپ کی زبان پر تھے۔
مدینہ میں قیام کے دوران مسجد نبوی میں آپ کی ملاقات حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے ہوئی۔ وہ وہیل چیئر پر مسجد میں آئے تھے۔ مولانا سے بہت محبت کے ساتھ ملے جس پر تبلیغی جماعت کے بھائی مولانا مظاہری صاحب پر رشک کرنے لگے۔ جب جدہ سے نیروبی روانگی کا مرحلہ آیا تو ایک دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ جس طرح تم اَن دیکھے علاقے میں ایک مقصد کے لیے جا رہے ہو اسی طرح مجھے بھی میانوالی اور مختلف علاقوں میں صحرا نوردی اور کوہ پیمائی کا حکم ملا تھا۔ تمہیں الوداع کہتے ہوئے یہ شعر تمہاری نذر کرتا ہوں ؎
ہم سبق بودیم ما و مجنوں در مکتبِ عشق
او بصحرا رفت و مادر کوچہ ہا رسوا شدیم
اس مضمون میں تو زیادہ تفصیلات ممکن نہیں۔ میں نے اپنے مذکورہ مضمون میں تفصیلی یادوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ''مولانا گلزار احمد مظاہری، زندگانی...جیل کہانی‘‘ انتہائی دلچسپ اور معلوماتی لوازمے پر مشتمل تصنیف ہے۔ اوّل سے آخر تک کہیں بھی قاری کو تکان محسوس نہیں ہوتی۔ ہر واقعہ دلچسپ ہونے کے ساتھ انتہائی ایمان افروز ہے۔ کتاب میں مولانا کی مختلف ادوار کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ یہ تصاویر ملک و بیرونِ ملک مختلف پروگراموں میں لی گئی تھیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر ایک تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے اور مولانا مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں