سنتِ یوسفی اور دعائیں!

تاریخ انسانی میں انبیائے کرام علیہم السلام سب سے عظیم لوگ تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی شخصیت اس قدر عظیم، پُرکشش، جامع اور حسنِ صورت و جمالِ سیرت کا دل نواز مرقع ہے کہ ان سے بے ساختہ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک کی سورۂ یوسف آپ کی پوری زندگی اور کمالات کا احاطہ کرتی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے خطابات کے علاوہ آپ کی دعائیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ آپؑ کی دعائیں اور ان کا پس منظر ہر بندۂ مومن کے ایمان کو تازہ کر دیتا ہے مثلاً آپ کی ایک مختصر مگر انتہائی جامع دعا درج ذیل ہے۔
مَعَاذَ اللّٰہِ (یوسف‘ آیت 23) ''اے اللہ! تیری پناہ‘‘۔
یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بڑی مختصر اور نہایت جامع دعا ہے۔ اسے یاد کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔ کسی بھی نوعیت کے کسی گناہ کا خطرہ ہو تو فوراً یہ دعا کر کے اس گناہ سے اپنا دامن بچانے کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے۔ جب آپ علیہ السلام مصر کے بازاروں میں فروخت ہوتے ہوئے عزیزِ مصر کے گھر پہنچے تو عزیزِ مصر نے آپ کے چہرے سے ہی پہچان لیا کہ آپ کوئی معمولی انسان نہیں ہیں۔ آپ کو ایک ہی نظر دیکھ کر‘ جہاندیدہ آدمی سمجھ سکتا تھا کہ آپ کسی اونچے اور معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عزیزِ مصر نے آپ کی بڑی عزت کی اور اپنی بیوی سے بھی کہا کہ وہ انہیں معمولی ملازم نہ سمجھے بلکہ اپنا عزیز سمجھ کر ان سے اچھا سلوک کرے، انہیں بیٹے کا درجہ دے کہ ان سے ہمیں بہت نفع حاصل ہو گا۔ حضرت یوسف علیہ السلامکچھ عرصہ اس گھر میں رہے تو گھر والی جو مصر کے آزاد منش بگڑے ہوئے معاشرے کی ایک نہایت ماڈرن عورت تھی‘ اپنے میاں کی ہدایت کے علی الرغم آپ پر ریجھ گئی۔ اٹھارہ بیس سال کا ایک چاند سا لڑکا جس کے حسن وجمال کی مثال ملنا ناممکن تھی‘ اس عورت کے دل کو بس ایسا بھایا کہ اس نے ہر حیلے بہانے سے اسے پھانسنے کی کوشش کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام اﷲ کے پیغمبر ہی نہیں تھے بلکہ خاندانِ نبوت کے چشم وچراغ تھے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضور کریمﷺ سے پوچھا: ''یا رسول اللہﷺ سب سے بہتر انسان کون ہے؟‘‘ آپ نے جواب دیا:''جو اﷲ سے سب سے زیاہ ڈرنے والا ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓنے کہا: ''ہم یہ نہیں پوچھتے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''تاریخِ انسانی میں سب سے باعزت مقام یوسفعلیہ السلام کا ہے جو رسول ابنِ رسول ابنِ رسول ابنِ رسول تھے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے کہا: ''ہم یہ بھی نہیں پوچھتے‘‘۔ آپﷺ نے کہا: ''اچھا تو تم جو کچھ پوچھتے ہو اس کا جواب یہ ہے کہ جو جاہلیت کی زندگی میں اچھا تھا‘ وہ اسلام لایا تو اسلام میں بھی وہی بہتر ثابت ہوا‘‘۔
نوجوان اور صاحبِ حسن و جمال حضرت یوسفعلیہ السلام گھر کی مالکہ کے ارادوں کی اس کیفیت کو سمجھ گئے اور اس سے بچنے کے لیے ہوشیار ہو گئے۔ یہ ایک کشمکش تھی جو اس منہ زور عورت اور غریب الدیار نوجوان غلام کے درمیان چل رہی تھی۔ وہ صاحبِ قوت برائی کی دعوت دیتی تھی اور اس کے لیے کئی جال بھی اس نے بچھا رکھے تھے۔ یہ بے بس نوجوان برائی سے دامن بچاتے تھے اور اپنی پاک دامنی کے تحفظ کے لیے ہر وقت فکرمند رہتا تھا۔ آخر ایک دن اس عورت نے گھر کے تمام دروازے بند کر دیے اور برائی کا دروازہ کھولتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا: ''آجائو‘‘۔ (سورہ یوسف: 23)یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ شیطان کا حملہ بڑا سخت اور مہلک ثابت ہو سکتا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس حملے کے مقابلے پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی پناہ میں دے دیا۔ آپؑ کے یہ مختصر سے دعائیہ الفاظ نہایت بے ساختگی سے آپ کی زبان سے نکلے۔ آپ نے محسوس کیا کہ آپ کی عزت وعفت اور خاندانی شرف سخت خطرے میں ہے۔ آپ بہت مضطرب ہو گئے مگر آپ کو اﷲ تعالیٰ نے فوراً یہ بات سمجھا دی کہ اس نازک موقع پر سوائے اﷲ کی مدد اور پناہ کے اور کوئی ذریعۂ تحفظ نہیں ہے۔
آپ نے جب اﷲ کی پناہ مانگی تو اﷲ نے آپ کی مدد کی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو برہان دکھائی اور وہ برہان یہ تھی کہ آپ کا روشن ضمیر پکار اٹھا: ''اے یوسف تجھے ہرگز زیبا نہیں ہے کہ بہکاوے میں آ کر اپنے مالک حقیقی کی حدود کو توڑ جائے۔ وہ تجھ پر حد سے زیادہ مہربانیاں کرتا جا رہا ہے‘ تُو کیا اس کے احکام کی پابندی نہیں کرے گا‘‘۔ دل سے اس آواز کا اٹھنا تھا کہ آپ دروازے کی سمت دوڑے۔ عورت نے آپ کے پیچھے بھاگ کر پکڑ لینا چاہا اور آپ کا قمیص پکڑ بھی لی جو پھٹ گئی۔ اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف حضرت یوسف علیہ السلام کو شیطان کے اس حملے سے محفوظ رکھا بلکہ آپ کی پاک دامنی کے لیے شواہد بھی مہیا کر دیے۔ اتفاق سے جب دونوں دروازے تک بھاگتے ہوئے آئے تو عزیزِ مصر کو دروازے کے باہر موجود پایا۔ مکار عورت بجائے نادم ہونے کے فوراً پکار اٹھی: ''اس لڑکے کی کیا سزا ہے جس نے آپ کے اہل پر دست درازی کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (سورہ یوسف:25) حضرت یوسفعلیہ السلام نے صحیح صورتِ حال بتائی کہ ''دراصل اس عورت نے مجھے بہکانے کی کوشش کی ہے۔‘‘(سورہ یوسف:26) قرائن سے صحیح نتیجے پر پہنچنے والے کسی صاحب ِبصیرت نے جو عزیز مصر کے ساتھ اس وقت موجود تھا‘ کہا: ''اگر لڑکے کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو جارحیت لڑکے کی تھی اور عورت کی طرف سے دفاع تھا اور اگر کرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا ہے تو عورت نے جارحیت کی ہے اور لڑکے نے بھاگ کر اپنی عزت بچائی ہے‘‘۔ کرتا دیکھا گیا تو پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ صاحب خانہ نے یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت یوسف علیہ السلام سے معذرت کے انداز میں کہا: ''یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا‘‘(یوسف‘ اس معاملے سے درگزر کر)۔ (سورہ یوسف:29) ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ بیتنے والے اس واقعہ کا سخت افسوس تھا اور اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے تھے۔ پھر صاحب خانہ نے نہایت نرمی سے اور بغیر کسی مظاہرہ غیرت کے اپنی بیوی سے کہا: ''اے عورت تو معافی مانگ‘ گناہ تیرا ہی تھا‘‘۔(سورہ یوسف:29)
جب بھی کبھی کسی مخلص مسلمان کے ساتھ اس قسم کا معاملہ پیش آ جائے تو اسے فوراً شیطان کی چال سے ہوشیار ہو جانا چاہیے۔ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کویاد کرے اور اﷲ تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر وہی الفاظ دہرائے‘ جو اﷲ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہے تھے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے برائی ٹال دے گا۔ اے اﷲ ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھ اور شیطان کے حملوں سے ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔
''روشن خیالی‘‘ جس کا آج بہت چرچا ہے، ہر دور میں جاہلانہ معاشروں میں رائج رہی ہے۔ اس عورت نے کوئی شرم محسوس کرنے کے بجائے زنانِ مصر کو اپنے گھر دعوت دی جو اس پر الزام لگاتی تھیں کہ وہ اپنے غلام پر فریفتہ ہو گئی ہے۔ قرآن حکیم میں پورا واقعہ موجود ہے کہ جب زلیخا کا یہ شیطانی عمل عام و خاص خواتین کی گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا، عین اس وقت زلیخا نے اونچے طبقوں کی خواتین کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ ان سب کے سامنے پھل اور چھریاں رکھ کر اچانک حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے نکال کھڑاکیا۔ اس ماہِ حسن وجمال کو ایک آنکھ دیکھتے ہی تمام زنانِ مصر بے خود ہو گئیں۔ حیرانی وپریشانی کے عالم میں بجائے پھل کاٹنے کے اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور پکار اٹھیں کہ ''حاشا ﷲ! یہ شخص انسان کہاں ہو سکتا ہے۔ یہ تو معزز فرشتہ ہے‘‘۔ (سورہ یوسف:31) ؎
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے
ہے زُلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
زلیخا نے اس موقع پر اپنے جذبات کے حق میں فضا سازگار پائی تو طعنہ دینے والی ان خواتین پر خوب برسی اور کہنے لگی: ''یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ میں نے اسے کافی رجھانے کی کوشش کی مگر یہ بچ نکلا۔ اگر اس نے میرا کہا نہ مانا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل ہو گا‘‘۔ (سورہ یوسف:32)
عزیز مصر کی بیوی نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کی شہرت طول وعرضِ ملک میں پھیل گئی۔ دارالحکومت کے اونچے طبقوں کی خواتین نے تو اس واقعہ کو موضوعِ سخن بنا لیا۔ محفل ہائے طرب ونشاط میں ہر ''پری‘‘ کی زبان سے یہی بات نکلتی ہے کہ ''َعزیز کی بیوی تو اپنے غلام پر مر مٹی ہے۔‘‘ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام اگرچہ الزامِ سے بری ہو چکے تھے لیکن خطرات ابھی ٹلے نہیں تھے کیونکہ منہ زور عورت نے تاحال آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ حضرت یوسفؑ نے اس موقع پر اللہ سے پھر دعا کی:
رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجٰھِلِیْنَo (سورہ یوسف: 33)
ترجمہ: ''اے میرے رب‘ مجھے قید خانے میں جانا اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ مجھے دعوت دیتے ہیں اور تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گاا ور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا‘‘۔ اس موقع پر رب العزت نے ماہِ کنعان کی مدد فرمائی۔ وہ کیسے؟ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں