اللہ کا نیک بندہ اور پاکستان کا محسن ڈاکٹر عبدالقدیر دنیائے فانی کو چھوڑ کر خلدِبریں کو چلا گیا۔ چند روز پہلے ڈاکٹر صاحب کو ایک ای میل بھیجا تھا۔ امید تھی اس کا جواب آئے گا مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے آخری مضمون میں محض ای میل کا تذکرہ کیا اور جواب سے پہلے داغِ مفارقت دے گئے۔ ڈاکٹر صاحب ایک مایہ ناز اور منفرد سائنسدان تھے، مگر اس کے ساتھ ان کی اصل پہچان اللہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا۔ اپنے مضامین میں قرآنی آیات کے حوالے اس انداز میں دیتے کہ جی خوش ہو جاتا۔ اللہ نے اپنا اوراپنے بندوں کا باہمی تعلق قرآنِ مجید میں جگہ جگہ بیان فرمایاہے۔ آج ڈاکٹر عبدالقدیر کی یاد میں یہ سطور نذرِ قارئین ہیں۔
سورۂ بقرہ ترتیب تدوینی میں سورۃ الفاتحہ کے بعد دوسری سورت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے یہ سورت ہجرت کے بعد مدنیہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ کا آخری رکوع مکی دور میں نازل ہوا تھا۔ ان آیات کا زمانۂ نزول ہجرت سے ایک سال پہلے بیان کیا گیا ہے۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضور اکرمﷺ کو معراج نصیب ہوئی۔ اللہ کے حکم سے نبی پاکﷺ نے تدوینی ترتیب میں ان آیات کو سورۃ البقرۃ کے آخر میں رکھا۔ یہ تین آیات ہیں اور ان کو ''خواتیم بقرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں ان کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ان میں ایمان کی تفصیل کے ساتھ اہلِ ایمان کی دو دعائیں بھی مذکور ہیں۔ پہلی دعا کے الفاظ مختصر اور معانی بہت وسیع و جامع ہیں۔ اہلِ ایمان دربارِربانی میں عرض کرتے ہیں:
سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُo (البقرہ:285)
''اے ہمارے رب!ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی۔ اے مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔
اس دعا سے پہلے اسی آیت میں اسلام کے بنیادی عقائد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے ''ﷲ کا رسولﷺ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل کی گئی۔ رسول کی اطاعت میں مومنین نے بھی اس ہدایت کو بدل وجان تسلیم کر لیا ہے۔ یہ لوگ ﷲ پر‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں‘‘۔
ان چار چیزوں کے ساتھ اپنی دعا میں وہ ایمان بالآخرت کی تصدیق بھی کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں: ''اِلَیْکَ الْمَصِیْر‘‘۔ گویا اسلام کے پانچ بنیادی عقائد کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔
ﷲ کی بے شمار نعمتوں میں سے انسان کے لیے سب سے اعلیٰ وارفع نعمت ایمان ہے۔ جس انسان پر اسلام کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے‘ اس سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں۔ یہ نعمت مل جانے کے بعد انسان کا صحیح طرزِ عمل یہی ہے کہ وہ خدا کے ہر حکم پر عملاً مسلمان ہونے کا ثبوت دے۔ نیز اس نعمت کو پا لینے کے بعد انسان یہ ہرگز نہ سمجھے کہ میں نے اپنی عقلِ رسا سے یہ مرتبہ حاصل کیا ہے۔ انسان کو سمجھنا چاہیے کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے احسان سے اسے یہ توفیق بخشی ہے کہ اسلام کو اس نے قبول کر لیا ہے۔ اب ﷲ کا ہر حکم اس کے لیے بسرو چشم ہے اور کہیں بھی اس کے لیے یہ گنجائش نہیں کہ وہ ان احکام کو اپنے عقلی فلسفوں کے ذریعے جانچنے لگے۔ اس کا کام اب صرف ''سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے ہر وقت ﷲ سے عفو ودرگزر طلب کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اسی کے ہاں سب کو جانا ہے جہاں وہ تمام باتوں کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔
اہلِ ایمان کی دوسری دعا جو اللہ نے مومنین کو سکھائی، سورہ بقرہ کی آخری آیت میں ان الفاظ میں نازل ہوئی:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَاط رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖج وَاعْفُ عَنَّاوقفہ وَاغْفِرْلَنَاوقفہ وَارْحَمْنَاوقفہ اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰـفِرِیْنَo (البقرہ:286)
(اے ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) ''اے ہمارے پروردگار! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں ان پر گرفت نہ کر۔ مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے ہیں۔ پروردگار‘ جس بار کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے‘ وہ ہم پر نہ ڈال۔ ہمارے ساتھ نرمی کر‘ ہم سے درگزر فرما‘ ہم پر رحم کر‘ تو ہمارا مولیٰ ہے‘ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔
اس وقت سرزمین مکہ اہلِ حق کے لیے ایک بھٹی بن چکی تھی۔ مشکلات ومصائب کے بے شمارپہاڑ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ مظالم کی خونچکاں داستانیں جو اس دور کی یادگار ہیں‘ آج بھی دل دہلا دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کی توجہ ہر وقت اس بات کی طرف لگی رہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کب نصرت آتی ہے۔ حدیث شریف میں مشہور صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ آپؓ کو دہکتے انگاروں پر لٹایا گیا تھا۔اسی زمانے میں آپؓ نے نبی پاکﷺ سے عرض کیا تھا کہ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ ''متیٰ نصر اللّٰہ‘‘ جب اہلِ حق پر ایسا کربناک دور ابتلا وارد ہوا تو ان کے مالک نے انہیں راہ دکھائی۔ اپنی طرف سے یہ دعا ان کو سکھا دی کہ تمہارے لیے ان مشکلات کے مقابلے پر یہ ذکر ومناجات ایک ڈھال ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے یہ الفاظ دل کی مضبوطی‘ حوصلے کی بلندی اور استقامت کی پختگی کے لیے نسخۂ کیمیا کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس دعا میں بڑی حکمت کے ساتھ بیرونی مصائب اور آزمائشوں کا ذکر کرنے سے قبل اندرونی لغزشوں اور ذاتی خطاؤں کا تذکرہ اور ان پر معافی مانگی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزمائشوں کے طوفان بعض اوقات اہلِ حق کے پائے استقامت میں ضعف پیدا کر دیتے ہیں مگر بیرونی آزمائشوں سے زیادہ خطرناک انسان کی اندرونی کمزوریاں اور باطنی خامیاں ہوتی ہیں۔ بیرونی عوامل کا تو مقابلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے لیکن اندرونی امراض ایمان و استقامت کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے اس سے ہر لمحہ خطا ولغزش صادر ہونے کا امکان رہتا ہے۔ یہ بلاارادہ اور غیرشعوری کوتاہیاں بعض اوقات کبائر تک لے جاتی ہیں‘ اگر ان پر بروقت تنبیہ نہ ہو جائے اور اس کی تلافی کا سامان نہ کیا جائے۔ پھر ان کوتاہیوں پر اگر حق تعالیٰ کی جانب سے فوراً مواخذہ کیا جانے لگے تو یہ کمزور انسان چند لمحوں کے لیے بھی دھرتی پر چلتا ہوا نظر نہ آئے۔
اس دعا میں اہلِ ایمان کو سکھایا گیا ہے کہ پہلے اپنی لغزشوں پر معافی مانگو‘ پھر ﷲ تعالیٰ سے درخواست کرو کہ وہ پہلے لوگوں کی طرح تم پر بوجھ نہ ڈالے۔ جب یہ دعا نازل ہوئی تھی اس وقت اس دعا کے حاصل کرنے والے اگرچہ بڑی تکلیف دہ حالت میں جادۂ حق کی منازل طے کر رہے تھے مگر ان سے پہلے لوگوں نے تو اس سے بھی زیادہ شدید حالات کا سامنا کیا تھا۔ حضرت خبابؓ کو نبی پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلے لوگوں کو آروں سے چیرا گیا‘ ان کے گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچے گئے‘ انہیں زندہ آگ میں پھینکا گیا اور ان کو زمین میں گاڑا گیا۔ان آیات میں اہلِ اسلام کو یہ سکھایا گیا کہ تم دعا مانگو کہ ﷲ تعالیٰ تم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالے۔ آج بھی اہلِ حق کے لیے آزمائشیں موجود ہیں مگر ابتدائی دور میں حضور اکرمﷺ کے ساتھیوں کا امتحان وابتلا نہایت کٹھن تھا۔ آج بندۂ مومن دعا کرتا ہے تو اس میں تمام اہلِ اسلام جو اس سے قبل گزرے ہیں ''من قبلنا‘‘ میں شامل ہیں۔
انسان کے اندر مصائب برداشت کرنے کی ایک قوت قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے۔ اس قوت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس حد تک انسان مشکلات برداشت کرتا چلا جاتا ہے مگر اس حد سے آگے اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے۔ اگرچہ اکثر بزدل لوگ اس قوتِ برداشت کی حد سے بھی بہت پہلے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور بعض جری انسان اس حد بندی کے بھی قائل نہیں ہوتے اور رخصت کے بجائے عزیمت ہی ان کا شیوہ ومسلک ہوتا ہے۔ یہ جان دے کر ایمان بچانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم اپنے مولا سے عرض کرو کہ وہ تمہاری طاقت سے زیادہ بوجھ تم پر نہ لادے۔ مسلمِ قانت و مطیع کو کبھی دل میں آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہر لمحے اس سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے؛ تاہم جب آزماش آ جائے تو پھر یہ دعا کرنی چاہیے کہ خداوند ِعالم ثابت قدمی کی دولت بخشے۔ ثابت قدمی تب ہی ممکن ہے جب آزمائش کو ﷲ تعالیٰ قوت برداشت کے تابع کر دے۔ یہاں یہی دعا سکھائی گئی ہے۔ دعا کے آخر میں پھر عفو ودرگزر اور رحم کی درخواست ہے ۔ اگر اس ذات کا عفو اور رحم بندے کے شامل حال نہ ہو تو بندہ کس قابل ہے؟ بندہ اس کی مدد کے بغیر نہ تو اندرونی بیماریوں سے بچ سکتا ہے‘ نہ بیرونی حملوں کی تاب لا سکتا ہے۔ دعا کو ختم ان الفاظ پر کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کافروں کے مقابلے پر مومنین کی مدد فرمائے۔ کفر اور اسلام کی جنگ میں مومنین کا سہارا اور توکل ﷲ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے اور کافروں کا اعتماد وبھروسہ اپنی مادی قوت اور عددی اکثریت پر ہوتا ہے۔ مومنین اپنے مالک سے مدد مانگتے ہیں اور وہ مدد کرنے والا حالات کو بدلنے پر آتا ہے تو پلک جھپکنے کی دیر نہیں لگتی کہ حالات بدل جاتے ہیں۔
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کے ذریعے اللہ نے پاکستان کو ایک ناقابلِ تسخیر دفاعی قوت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔
بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے!
یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں!