سورۃ الفرقان کا آخری رکوع ﷲ تعالیٰ نے اپنے فرماں بردار بندوں کی صفات کے بیان سے مزین فرمایا ہے۔ اس رکوع میں ﷲ تعالیٰ کے بندوں کا ذکر یوں شروع ہوتا ہے۔ ''وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا‘‘ ۔ا ور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نہایت عاجزی اور انکسار کے ساتھ چلتے ہیں۔(سورۃ الفرقان: 63)
اس کے بعد آگے ان کی ایک ایک صفت نہایت دلنشیں پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ ان صفات کو پڑھنے سے عبادالرحمن کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ وہ ﷲ کے احکام کے پابند اور ہر معاملے میں اس کی مرضی کے تابع نظر آتے ہیں۔ ان کو سوائے ﷲ کے کسی سے نہ ڈر ہے نہ طمع۔ وہ ہر وقت اس زبردست ہستی کے سامنے عاجزی سے دستِ سوال پھیلائے اس کے کرم کے طالب رہتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی اپنی نیک عملی وپرہیزگاری سے یہ غلط فہمی لاحق نہیں ہوتی کہ ان کا کھاتہ بالکل پاک صاف ہے اور وہ آنکھیں بند کر کے سیدھے جنت میں جا داخل ہوں گے۔ وہ ﷲ کی رحمت کے متلاشی ہیں اور اسی کو ذریعۂ نجات گردانتے ہیں، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
اللہ اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے۔ اپنے ان بندوں سے اس کی محبت کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے جو اس کے احکام و ارشادات پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ انسانوں کے ناموں میں سب سے زیادہ افضل نام وہ ہیں جن میں اللہ کی بندگی کی نسبت ہوتی ہے‘ مثلاً عبداللہ، عبدالرحمن اور اسی طرح اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے کسی بھی صفت کے ساتھ نسبت والے نام، جیسے عبدالقیوم، عبدالکریم، عبدالرحیم وعلیٰ ہذا القیاس۔ اللہ نے سورۃ الدھر میں اپنے پیارے بندوں کو عباداللہ اور سورۃ الفرقان میں عبادالرحمن کا نام دیا ہے۔ یہاں پر رب کریم نے رحمن کے بندوں (عبادالرحمن) کی 13 صفات بیان کی ہیں‘ جو ترتیب وار یہ ہیں۔
عجزوانکسار: یہ بندے زمین پر عاجزی و انکسار کے ساتھ چلتے ہیں۔ انھیں جتنا بھی بلند مقام و مرتبہ مل جائے، ان کے اندر کبرونخوت اورگھمنڈ پیدا نہیں ہوتا۔ تکبّر شیطانی عمل ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ حدیث قدسی میں حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ کبریائی میری چادر ہے، جو اسے اوڑھنے کی کوشش کرے گا، میں اسے رسوا اور ذلیل کر دوں گا۔ حضورپاکﷺ اور خلفائے راشدینؓ قوت و اقتدار کے باوجود سادگی اور نرمی میں بے مثال تھے۔ اندازہ کیجیے کہ وہ دنیا کی نام نہاد سپر طاقتوں کو ملیا میٹ کر دینے کے بعد بھی عجزوانکسار کا نمونہ ہی بنے رہے تھے۔ ہر مخلص مومن کو ہمیشہ یہی رویہ اپنا چاہیے تاکہ وہ عبادالرحمن میں شمار ہو سکے۔ اللہ کی بندگی سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے؟ چھوٹا موٹا منصب و عہدہ مل جانے پر گھمنڈ میں مبتلا ہو جانے والے بندے انتہائی بیوقوف ہوتے ہیں۔
جہلا سے معاملہ: جاہلوں کے ساتھ ان اللہ والوں کا واسطہ پڑے تو اپنی مثبت دعوت ان تک اچھے انداز اور حکمت کے ساتھ پہنچا دیتے ہیں۔ جب وہ کٹ حجتیوں اور جہالت پر اتر آئیں تو ان سے بحث تکرار میں قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے سلام کہہ کر اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید نے اہلِ حق اور عبادالرحمن کا ایسے مواقع پر یہ قول نقل فرمایا ہے ''سلام علیکم لانبتغی الجاہلین‘‘ سلام ہے تم کو ہم جہلاسے الجھنا نہیں چاہتے۔ (سورۃ القصص: 55)
تہجد اور شب بیداری: یہ خوش نصیب لوگ راتوں کو اللہ کے سامنے سجدوں اور قیام کا اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ والے راتوں کو کم سوتے ہیں اور اپنے نرم و گداز بستروں کو چھوڑ کر اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہجد کی نماز میں لمبا قیام اور طویل رکوع و سجود ان کے دلوں کو سکون دیتا ہے۔ اللہ نے بھی ان سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں قیامت میں وہ کچھ دے گا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ (سورۃ السجدہ: 17)
دوزخ کے عذاب سے پناہ: عبادالرحمن کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ عذابِ جہنم سے پناہ کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کی اس دعا کا پورا متن اور مختصر تشریح درج ذیل ہے۔
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًاo اِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًاo (الفرقان : 65تا 66)
''اے ہمارے رب! جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے‘ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے‘ وہ تو بڑا ہی برا ٹھکانہ اور بری جگہ ہے‘‘۔
عبادالرحمن کی زبانی یہ دعا یہاں نقل کی گئی ہے۔ وہ دوزخ کی صحیح کیفیت سے تعلیمات ربانی کی روشنی میں باخبر ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ دوزخ کا عذاب بڑا دردناک اور رسوا کن ہے۔ وہ اپنے مالک سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ انہیں اس عذاب سے محفوظ رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کو جتنا زیادہ عرفان حق حاصل ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ خدا کے عذاب اور اس کی پکڑ سے ڈرے گا۔ آنحضورﷺ کے بارے میں بکثرت احادیث میں آتا ہے کہ آپﷺ آخرت کا ذکر کر کے نہایت مغموم ہو جایا کرتے تھے۔ دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے جس کثیر تعداد میں ادعیہ مسنونہ روایت کی گئی ہیں اس سے بھی اس مسئلے کی اہمیت وشدت واضح ہو جاتی ہے۔
ایک مرتبہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تم عمل میں خوب محنت کرو مگر جان لو کہ کوئی بھی شخص رحمتِ ربانی کے بغیر محض اپنے اعمال کے بل بوتے پر دوزخ سے نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو ہر چیز سے زیادہ وسیع قرار دیا ہے۔ بندہ عمل کا مکلف ہے، مگر اس کے عمل میں یقینا کوئی نہ کوئی نقص رہ سکتا ہے۔ اللہ والوں کی امید اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ قرآن و سنت میں بندے کے اعمال اور اللہ کی رحمت کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس سے انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس کے لیے رحمتِ ربانی ہی سب سے بڑا سہارا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک باغ میں چڑیوں کو دیکھا تو بصد حسرت فرمایا: ''اے کاش! ابوبکر چڑیا ہوتا تاکہ قیامت کے روز اسے خدا کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑتا‘‘۔ بعض صحابہ کرامؓ آخرت کا تصور کر کے کانپ اٹھتے اور کہتے: ''کاش! مجھے میری ماں نے نہ جنا ہوتا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ کا قول تو مشہور ہے کہ آپ نے آخرت کا تذکرہ فرمایا‘ پھر غمناک لہجے میں کہنے لگے: ''اگر میں وہاں برابر سرابر چھوٹ جاؤں‘ خدا تعالیٰ نہ مجھے عذاب میں پکڑے اور نہ ہی جنت میں بھیجے تو بھی میں خوش قسمت ہوں گا‘‘۔ ''لَالِیَ وَلَا عَلَیَّ‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمرؓ کے دل میں جنت کی خواہش نہ تھی بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوزخ سے کس قدر خائف تھے۔ امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا ''اے کاش میں ایک مینڈھا ہوتا جسے ذبح کر کے لوگ اس کا گوشت کھا لیتے اور روزِ قیامت مجھے حساب نہ دینا پڑتا‘‘۔
عباد الرحمن کی یہ دعا بھی اسی مفہوم کی ترجمان ہے۔ عبادالرحمن اپنی ساری نیکیوں اور عبادتوں کے باوجود خائف رہتے ہیں کہ کہیں کوئی لغزش یا کسی عمل کی کوتاہی انہیں مبتلائے عذاب نہ کر دے۔ وہ اپنے تقویٰ کے زور سے جنت جیت لینے کا پندار نہیں رکھتے بلکہ اپنی انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذاب سے بچ نکلنے ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔
میانہ روی اور توازن: ان اہلِ ایمان اور عبادالرحمن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں۔ اللہ نے انسان کے لیے بے شمار وسائل پیدا فرمائے ہیں جو اس کی تمام ضروریات کے لیے نہ صرف کافی بلکہ ان سے زائد ہیں۔ ان کے استعمال میں بندۂ مومن نہ کنجوسی کرتا ہے اور نہ ہی فضول خرچی بلکہ افراط و تفریط سے بچ کر اس کا طرزِ عمل متوازن ہوتا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: جو میانہ روی اختیار کرے گا وہ کسی کا محتاج نہ ہو گا۔ کنجوسی اور اسراف کی قرآن و حدیث میں بہت مذمت کی گئی ہے۔
شرک سے اجتناب: یہ سچے توحید پرست اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ اللہ نے قرآنِ مجید میں بار بار فرمایا ہے کہ وہ شرک معاف نہیں کرے گا‘ اس کے علاوہ جوجرائم ہیں، ان میں سے جو چاہے وہ معاف فرما دے گا۔شرک ظلمِ عظیم ہے۔ ذات میں، صفات میں اور اقتدار و اختیارات‘ ہر میدان میںاللہ کے بندے شرک سے اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں۔
خون ریزی اور قتل سے اجتناب: اللہ کے بندے قتلِ ناحق نہیں کرتے۔ کسی شخص کو قتل کرنے کا کسی کو بھی جواز حاصل نہیں۔ قتل حق کی صورتیں یہ ہیں:
(ا)میدانِ جہاد میں دشمن کا قتل، (ب) قتل کے بدلے قاتل کو قصاص میں قتل، (ج)شادی شدہ مرد و عورت کا زنا میں مبتلا ہونا، (د) کسی شخص کا ایمان کے بعد مرتد ہو جانا، (ہ) فساد فی الارض کا مرتکب ہونا۔ ان معاملات میں بھی عدالت و حکومت فیصلہ کرنے کی مجاز ہے، عام لوگ نہیں۔ بندۂ مومن کو ناحق اور عملاً قتل کرنے والا دائمی جہنمی ، شدید عذاب اور اللہ کے غضب کا سزا وارہے۔ (سورۃ النساء : 93)
عبادالرحمن کی سات صفات کا آپ نے مطالعہ فرما لیا۔ باقی چھ صفات ان شاء اللہ اگلی قسط میں آپ کی نذر کی جائیں گی۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ توفیق عطا فرمائے‘ آمین! (جاری)