شیطان ہر دور میں میدان میں اپنے کھلاڑی اتارتا رہا ہے۔ ان گمراہوں کو کبھی کامیابی نہیں ملی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر امت نے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہر جھوٹے مدعیِ نبوت کو امت نے مسترد کیا ہے اور اس کے خلاف پوری طرح جہاد کرکے اس فتنے کو ختم کیا۔ ان فتنہ پردازوں میں سب سے خطرناک مسیلمہ کذاب تھا۔ مسیلمہ کا تعلق قبیلہ بنوحنیفہ سے تھا۔ یہ شخص بہت دھوکے باز، عیّار، مکّار اور چرب زبان تھا۔ اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کردیا تھا۔ یہ بدبخت کہا کرتا تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اللہ کے رسول ہیں اور میں بھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کذّاب قرار دیا تھا۔ اس کا ایک خط تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے (نعوذ باللہ)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے تھوڑا ہی عرصہ قبل اس بدبخت نے آپﷺ کے نام جو خط لکھا‘ وہ طبری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔
مسیلمہ اور اس کے پیروکار بہت مکار، فریبی اور دھوکے باز تھے۔ وہ اذان اور نماز کا اہتمام کرتے تھے۔ اذان میں اشھدان محمدا رسول اللّٰہ کے بعد (نعوذ باللہ)مسیلمہ کا نام لیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا خط ملتے ہی اس پر لعنت بھیجی اور اسے کافر وکذّاب قرار دیا۔ یہ تاریخ میں لعین ومہین ہوکر رہا اور پھر سیدھا جہنم واصل ہو گیا۔ بنوحنیفہ کے بیش تر مسلمان اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کے دعوے کو حقیقت سمجھتے تھے۔ اس گمراہی میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے اس کی اتباع شروع کردی۔ اس کے باوجود اس قبیلے کے کچھ مخلص اور فہیم اہلِ ایمان نے اس کے دعوے کو قابلِ غور نہیں سمجھا۔ اس کے خلاف آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوج بھیجنا چاہتے تھے، مگر اجل مسمّٰی نے آپﷺ کو مہلت نہ دی۔ یہ اہم کام آپﷺ کے خلیفہ وجانشین حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورِ خلافت میں انجام دیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس مہم کو اولین نمبر پر اہمیت دی اور صحابہ کرامؓ نے ختم نبوت کے مقدس عقیدے پر اپنی قیمتی جانوں کے پروانہ وار نذرانے پیش کیے۔
ایک مرتبہ حضرت حبیب بن زید انصاریؓ (حضرت ام عمارہؓکے فرزندِدل بند) یمامہ کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ مسیلمہ کو اس کی اطلاع ملی۔ مسیلمہ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمداللہ کے رسول ہیں؟ انہوںنے فرمایا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کذاب نے کہا: میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ گواہی دیتا ہوں کہ مسیلمہ کذاب ہے۔ اس نے کہا: تم اگر یہ گواہی نہ دو گے تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔
سچے عاشق رسولؐ نے فرمایا: تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر لو‘ میں ہر گز یہ گواہی نہیں دوں گا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ ہاتھ کٹنے کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ پھر ان کا ایک پاؤں کاٹا گیا، مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ پھر دوسرا ہاتھ اور دوسرا پاؤں بھی یکے بعد دیگرے کاٹے گئے۔ امام ابن کثیرؒ کے الفاظ میں: انھیں ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کیا گیا، مگر وہ اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ (تفسیرابن کثیر، سورۃ النحل: آیت106)
مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور صحابہ کرام بہت زیادہ غم زدہ ہوئے، مگر شہیدِ ختم نبوت کی اس مشکل ترین کیفیت میں جرأت واستقامت نے ہر مومن کو مطمئن کردیا۔ عظیم خاندان کے عظیم سپوت نے جان دے دی مگر ناموسِ رسالت پر آنچ نہ آنے دی۔ یہ واقعات لکھے ہوئے کسی شاعر کا ایک ترانہ بے ساختہ زبان پر آگیا اور قلم وقرطاس بھی جھوم اٹھے:
تمھاری یادیں بسی ہیں دل میں
افق کے اس پار جانے والو
عظیم ہو تم، عظیم ہو تم
صلیب پر مسکرانے والو
خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت عکرمہؓ کو ایک فوج دے کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ تمہارے پیچھے شرحبیل بن حسنہؓ ایک مزید دستہ لے کر آرہے ہیں‘ ان کے آنے تک جنگ شروع نہ کرنا؛ البتہ جب وہ پہنچ جائیں تو مسیلمہ پر حملہ کردینا۔ اہلِ یمامہ نے مضبوط قلعے تعمیر کررکھے تھے اور مسیلمہ کے پاس گرد ونواح سے مختلف قبائل کے مرتدین اور جنگجو بھی ہتھیار بند ہو کر پہنچ چکے تھے۔ حضرت عکرمہؓ اور ان کے ساتھی جب اس علاقے میں پہنچے تو کسی حکمت کے پیشِ نظر انہوں نے حضرت شرحبیلؓ اور ان کے ساتھیوں کا انتظار کرنے کے بجائے مسیلمہ سے جنگ چھیڑ دی۔ چونکہ ان کی تعداد کم تھی اور دشمن پہلے سے تیار بیٹھا تھا‘ اس لیے مسلمانوں کو وقتی طور پر پسپا ہونا پڑا۔ اس میں صحابہ کرامؓ کے اخلاق وجرأت کے باوجود اللہ کی کوئی مصلحت تھی‘ جسے وہی جانتا ہے۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے ایک خط میں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے کیوں عجلت سے کام لیا اور شرحبیلؓ کے پہنچنے سے قبل جنگ کیوں چھیڑ دی؟ خیر جومقدر تھا وہ ہوا۔ اب واپس مدینہ آنے کے بجائے مہرہ اور عمان کے مرتدین کے خلاف لڑنے کے لیے حذیفہؓ اور عرفجہؓ سے جاملو اور جب وہاں سے فارغ ہوجاؤ تو پھر حضرموت اور یمن کے مرتدین سے لڑنے کے لیے مہاجر بن ابی امیہؓ کے پاس چلے جانا۔ اس عرصے میں حضرت خالدؓ بن ولید بھی اپنی مہمات سے فارغ ہوچکے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں مسیلمہ کذّاب کے مقابلے پر سپہ سالار بنا کر بھیجا اور حضرت شرحبیلؓ کو حکم دیا کہ وہ خالدؓ کے لشکر میں شامل ہو کر مسیلمہ کے مقابلے پر جہاد میں حصہ لیں۔
حضرت خالدؓ کے لشکری تو پہلے سے ان علاقوں میں موجود تھے، آپؓ بھی دربارِ خلافت سے حکم ملنے پر مدینہ سے تیز رفتاری کے ساتھ محاذ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی مدد کے لیے مدینہ سے انصار ومہاجرین صحابہ پر مشتمل دو دستے مزید روانہ کیے گئے۔ ان صحابہ کرامؓ میں بہت سے حفاظ وقرأ بھی شامل تھے اور وہ اصحاب بھی بڑی تعداد میں تھے، جو بدرواحد اور احزاب وحنین کے معرکوں میں آنحضورﷺ کے ہمراہ جہاد میں حصہ لے چکے تھے۔ اصحابِ بیعتِ رضوان کی ایک تعداد بھی اس مقدس ومبارک فوج میں شامل تھی۔ مہاجر صحابہ کرامؓ کے امیر حضرت ابوحذیفہؓ اور انصار کے امیر حضرت ثابتؓ بن قیس انصاری تھے۔ فوج کے علم بردار حضرت عمرؓبن خطاب کے بھائی حضرت زیدؓ بن خطاب مقرر کیے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی دعاؤں کے ساتھ ان کو مدینہ سے باہر آکر الوداع کہا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ص:1318 تا 1319)
مسیلمہ کذاب کے مقابلے پر لڑی گئی جنگ کو جنگِ یمامہ کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخ اسلام کے عظیم ترین معرکوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت خالدؓ اپنی فوج کو لے کر اس علاقے میں پہنچے تو دیکھا کہ مسیلمہ چالیس ہزار جنگجو اپنے گرد جمع کیے اپنے قلعے کے باہر عقربا کے مقام پر خیمہ زن ہے۔ اس کے سامنے کھلے میدان میں حضرت خالدؓ بن ولید نے بھی پڑاؤ ڈال دیا۔ اس عرصے میں یہاں پہنچنے سے قبل حضرت خالدؓ کا آمنا سامنا بنوحنیفہ ہی کے ایک اور کافر سردار مجاعہ بن مرارہ سے ہوا، جو بنوعامر اور بنوتمیم پر شب خون مارنے کے بعد مال غنیمت لے کر واپس جارہا تھا۔ اس کے سب ساتھیوں کو قتل کردیا گیا اور حضرت خالدؓ کے حکم سے اسے جنگی حکمت عملی کے پیش نظر قید کردیا گیا۔
حضرت خالدؓ کے میدانِ جنگ میں پہنچنے کے دوسرے روز باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دشمن کا ایک جنگجو میدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا۔ حضرت زیدؓ بن خطاب اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے اور اسے تہِ تیغ کر دیا۔ دشمن کا یہ جنگجو رجال بن عنفوۃ تھا جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھا۔ اس کے قتل پر مسیلمہ کی فوج بپھر کر مسلمانوں پہ حملہ آور ہوئی۔ یہ حملہ اتنا سخت تھا کہ مسلمانوں کی صفوں میں قدرے کمزوری نظر آنے لگی۔ اس موقع پر علم برادرانِ لشکر حضرت زیدؓ بن خطاب، حضرت ثابتؓ بن قیس اور ان کے دیگر ساتھی بڑی پامردی سے لڑے اور مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دونوں علم برداروں نے جہاد کی عظمت، شہادت کا مقام ومرتبہ اور جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اے اہلِ ایمان! آج آگے بڑھنے کا دن ہے۔ اسی طرح حضرت ابوحذیفہؓ اور حضرت سالمؓ مولیٰ ابوحذیفہؓ نے بھی اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے دشمن پر زوردار حملہ کیا۔ وہ بھی مسلمانوں کو مسلسل تلقین کیے چلے جارہے تھے: ہَلَمُّوْا اِلَی الْجَنَّۃِ یعنی آؤ! جنت کی طرف بڑھو۔ صحابہ کرام کے دلوں میں شہادت کی تمنا تو ہمیشہ رہتی تھی۔ اب اس تمنا کو اور جلا ملی اور صحابہ کرامؓ نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو یادگار ہے۔ (جاری )