افریقہ کا موتی‘ یوگنڈا… (1)

1974ء سے 1985ء تک براعظم افریقہ کے بیشتر علاقوں کے دعوتی و تبلیغی سفر مسلسل جاری رہے۔ یہ زمانہ عمومی طور پر تو کینیا ہی میں گزرا، مگر بیچ بیچ میں آس پاس کے ملکوں میں بھی کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یوگنڈا بھی مشرقی افریقہ میں واقع ہے۔ کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ‘ یہ تینوں ممالک برطانوی استعمار کی غلامی میں رہے۔ آزادی کے بعدان تینوں ممالک نے آپس میں ایک اتحاد کیا جس کا نام ایسٹ افریقن یونین تھا۔ اس کی بدولت تینوں ملکوں کے باشندے ایک دوسرے ملک میں آزادی سے جا آ سکتے تھے۔ بعد میں یہ اتحاد مسائل کا شکار ہوا اور بالآخر ختم ہو گیا۔ کینیا میں قیام کے دوران یوگنڈا بارہا جانا آنا رہا۔ اس مرتبہ (1997ء میں) میرے پروگرام میں وہاں جانا شامل نہیں تھا، مگر یوگنڈا کے دوستوں نے برادرم عبدالحمید(ینگ مسلم ایسوسی ایشن) کے ساتھ یوگنڈا کے سفر کا شیڈول طے کر رکھا تھا۔
مشرقی افریقہ کا خشکی میں گھرا ہوا (Land locked) ملک یوگنڈا غیر مسلم اکثریت اور غیر مسلم حکمران کے باوجود او آئی سی کا ممبر ہے۔ اس کی یہ ممبر شپ سابق فوجی حکمران عدی امین کے دورِ حکومت کی مرہونِ منت ہے۔ عدی امین نے 1971ء میں فوجی انقلاب کے ذریعے صدر ملٹن او بوٹے (Miltonobote) کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایک مسلمان سربراہ حکومت کی حیثیت سے انہوں نے او آئی سی کی رکنیت حاصل کی۔ عدی امین کی حکومت طویل خانہ جنگی اور تنزانیہ کی سرکاری فوجوں کی جانب سے امین مخالف قوتوں کی مسلح امداد کے نتیجے میں آخر کار 11 اپریل 1979ء کو ختم ہوگئی۔ اس کے بعد سے آج تک عیسائی ملک پر حکومت کر رہے ہیں مگر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے وہ مسلم ممالک کی تنظیم میں شامل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس تنظیم نے دنیا بھر میں جو چار عالمی یونیورسٹیاں قائم کی ہیں ان میں سے ایک یوگنڈا کے سرحدی شہرمبالے میں ہے۔ دیگر تین یونیورسٹیاں پاکستان، ملائیشیا اور نائیجیریا میں قائم کی گئی ہیں۔ یہ سب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹیز کہلاتی ہیں۔
یوگنڈا میں مسلم نوجوانوں نے ایک سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کرا لی ہے۔ اس کی قیادت ایک باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان محمد میانجا کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے گزشتہ صدارتی انتخاب میں میانجا صاحب کو کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے اس پہلے تجربے میں یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کے ووٹ پورے ملک میں اگرچہ تھوڑے ہیں، مگر ہر جگہ موجود ہیں اور ان کے اندر یہ احساس بھی ہے کہ ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے ان کا نمائندہ حکومت میں ہونا چاہیے۔ ووٹوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، مگر پورے ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں انہیں کم یا زیادہ ووٹ نہ ملے ہوں۔
17 مئی کو صبح سویرے بیدار ہوا۔ آج ہمیں یوگنڈا جانا ہے۔ اس سے قبل ہمیشہ نیروبی سے بذریعہ ہوائی جہاز جاتا رہا ہوں آج پہلی دفعہ کار کے ذریعے سفر کرنا ہے، ابھی سورج نہیں نکلا، آسمان پر بادل بھی ہیں اس لیے تاریکی کا احساس ہو رہا ہے۔ پروگرام کے مطابق میرے رفقائے سفر کو اب تک یہاں پہنچ جانا چاہیے تھا مگر وہ نہیں آئے۔ میں پرندوں کے نغمے سن رہا ہوں۔ نیچے وسیع لان میں پھولوں کی کیاریوں کے درمیان ایک بلی بہت دردناک آواز سے کراہ رہی ہے۔ پتا نہیں اس کے بچے کہیں کھو گئے ہیں جن کا غم ہے یا اس کا محبوب لاپتا ہے جس کی جدائی اسے چین نہیں لینے دیتی، رات بھی وقفوں وقفوں سے یہ دردناک آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں۔
میں نماز پڑھ چکا ہوں اور تلاوت میں مصروف ہوں۔ پرندے اپنی حمد و ثنا میں محو ہیں اور بلی اپنا دکھڑا لیے مدد کو پکار رہی ہے۔ میں دوستوں کے انتظار میں ہوں اور تصور میں یوگنڈا گھوم رہا ہے۔ پرانے سفر بھی ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں جب انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں دوستوں کے روکنے کے باوجود یوگنڈا والوں کی دعوت پر میں وہاں روانہ ہوجایا کرتا تھا۔ یوگنڈا میں اُس زمانے میں بدامنی اور لاقانونیت کی وجہ سے میری واپسی تک احباب پریشان رہتے تھے کہ پتا نہیں زندہ واپس آئوں گا یا ''شہادت‘‘ کی خبر موصول ہوگی۔ یہ شہادت کا لفظ احباب ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ میں نے اسی کو دہرا دیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس دور میں کبھی ڈر اور خوف کا احساس نہ ہوا تھا۔ بلاشبہ اس کا سبب اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور سلامتی پر توکل تھا۔
چلئے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں، گاڑی کے ہارن نے بتا دیا کہ یارانِ با وفا آ گئے ہیں۔ شرجیل خالد‘ جسے بچپن سے سبھی پیار سے جیا کہتے رہے ہیں‘ دیگر دونوں ساتھیوں‘ عبد الحمید اور رشید احمد کے ساتھ آگیا ہے۔ ہم سفر پر روانہ ہوئے، مین روڈ پر ہاکر سے مقامی اخبارات خریدے۔ ہر اخبار کی شہ سرخی زائر کے سابق آمر مطلق موبوتو کی برطرفی اور ملک سے فرار سے متعلق تھی۔ ایک طویل آمریت کا خاتمہ اور ایک بدعنوان حکمران سے نجات پورے براعظم افریقہ میں نہایت مسرت و انبساط کا باعث تھی۔ موبوتو کی ظلم و ستم سے لبریز طویل تاریخ، لوٹ مار اور ہوس دولت کے ریکارڈ توڑ کارنامے مختلف صحافتی ڈائریوں اور مضامین میں تفصیلاً بیان کیے گئے تھے۔ ہم یوگنڈا جاتے ہوئے نکورو (Nakuru) شہر میں رکیں گے اور ناشتہ کرکے پھر آگے روانہ ہوجائیں گے۔ یہ سب راستے معروف و مانوس ہیں۔ بارہا، دن اور رات کو یہاں سفر کیا ہے۔ نکورو میں بہت سے احباب رہتے تھے۔ جناب عبد الغنی صاحب اور شیخ محمد عثمان سرفہرست تھے۔ دونوں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ یہاں ینگ مسلم کا ایک مرکز تحفیظ القرآن اور جامع مسجد ہے۔ ناشتہ ایک ہوٹل میں کیا، پھر مرکز میں تھوڑی دیر کے لیے رکے اور تجدیدِ وضو کے بعد آگے چل پڑے۔
یہاں سے آگے نہایت خوب صورت و سرسبز علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ صدر کینیا دانیال ارپ موئی کے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل زرعی فارمز، لاکھوں درخت، ہزارہا جانور، مثالی فارم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چائے کا علاقہ بھی یہاں سے کچھ آگے شروع ہوجاتا ہے۔ بہت زیادہ زرخیز زمین ہے اور اس علاقے کے زمیندار بھی محنتی اور فارغ البال ہیں اس لیے پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایلڈوریٹ ایک مشہور شہر ہے۔ یہاں ہم نے نماز ظہر ادا کی، کھانا کھایا اور یوگنڈا کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ کینیا کی سب سے بڑی پیپر مل وے بویے (Webuye) شہر میں واقع ہے۔ اس شہر کی پہچان یہی پیپرمل ہے، یہاں سے بھی گزر ہوا۔ شوگر ملوں کا علاقہ بھی راستے میں آتا ہے اور حدِ نگاہ تک گنے کے کھیت عجب سماں پیدا کر رہے ہیں۔ ہماری پہلی منزل سرحدی قصبہ ملابا ہے۔ یہاں امیگریشن اور کسٹمز وغیرہ کے بعد ہم یوگنڈا میں داخل ہو جائیں گے۔
ملابا (Mlaba) ایک چھوٹا سا سرحدی قصبہ ہے۔ کینیا اور یوگنڈا‘ دونوں جانب اس کا یہی نام ہے۔ کسٹم اور امیگریشن کے عملے کی وجہ سے یہاں رونق ہے۔ یوگنڈا چونکہ ساحل سمندر سے منقطع ہے اس لیے درآمد و برآمد کا سامان بڑے بڑے ٹرکوں، ٹریلرز، کنٹینرز وغیرہ کے ذریعے یہاں سے گزرتا ہے۔ دونوں جانب کسٹم، ڈیوٹی وغیرہ سے روزانہ خاصی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ دونوں جانب دفتری کارروائی کے عمل میں ایک ایک گھنٹہ صرف ہوجاتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑی کو بارڈر کراس کرنے سے قبل خصوصی پرمٹ اور انشورنس لینا پڑتی ہے۔ کینیا، یوگنڈا کے شہری شناختی کارڈ پر ہی ایک جانب سے دوسری جانب سفر کر سکتے ہیں، دیگر لوگوں کے لیے پاسپورٹ کے بغیر بارڈر کراس کرنا ممکن نہیں۔ میرے تینوں رفقائے سفر کینیا کے شہری تھے، ان کے پاس کینیا کے پاسپورٹ تھے اس لیے ان کے پاسپورٹوں پر محض مہریں لگنا تھیں جب کہ مجھے چالیس ڈالر ویزا فیس بھی ادا کرنا پڑی۔
یوگنڈا کی اسلامی تحریک کے نمائندے عمر دائود کا لینگے ہمارے پہنچنے سے قبل یہاں آچکے تھے۔ ہماری گاڑی دیکھتے ہی ہماری جانب لپکے۔ موصوف بہت سمجھدار نوجوان ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ آج کل اپنے چند پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی چلا رہے ہیں اور کمپیوٹر کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے بہت قریبی تعلقات رہے ہیں اور منصورہ بھی اکثر آتے رہے تھے۔ ہمارے پورے نظام اور اعلیٰ قیادت سے بخوبی واقف ہیں۔ میں ان کے لیے اجنبی تھا، نہ وہ میرے لیے اوپرے تھے۔
سرحدی شہروں میں پوری دنیا میں ایک جیسا ماحول ہوتا ہے۔ مخصوص قسم کے لوگ، روایات اور عادات پائی جاتی ہیں۔ دونوں ممالک کی پوسٹوں اور دفاتر کے درمیان آہنی گیٹ ہیں، ان کے بیچ میں چند سو گز کی پٹی ہے جسے نومینز لینڈ (No-man's land) کہا جاتا ہے۔ کینیا کی امیگریشن سے فارغ ہو کر ہم یوگنڈا میں داخل ہوگئے اور یہاں بھی حسبِ معمول کارروائیوں سے فارغ ہوئے۔ یہاں پر کئی دلچسپ لطیفے ہوئے۔ عبد الحمید صاحب نے اپنے اور میرے پاسپورٹ میں اپنی اور میری تاریخ پیدائش دیکھی۔ میری طرف مصنوعی سنجیدگی اور جعلی رعب کے انداز میں دیکھ کر کہنے لگے ''دیکھیں آئندہ مجھے بھائی جان کہہ کر پکارا کرو اور میرا ادب کیا کرو‘‘۔
میں نے پوچھا کیوں صاحب، کیا ہوا؟ تو کہنے لگے ''میں تم سے چار ماہ بڑا ہوں‘‘۔ حضرت نے آپ کے بجائے اپنی بزرگی کے اظہارکے لیے مجھے 'تم‘ کہا جس کا لطف آیا۔ میں نے سرجھکا کر عرض کیا ''بہت اچھا بھائی جان!‘‘۔ باقی لطیفوں کا تذکرہ ان شاء اللہ اگلی مجلس میں ہو گا۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں